تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     16-05-2023

مغلوں کی شکست اور انگریزوں کی فتح کے اسباب …(4)

نذیر الدین خان نے مغلوں کے زوال اور برصغیر پر انگریزوں کے قبضے کی داستان کو اپنے زاویۂ نظر سے بیان کیا تو مروجہ اور روایتی تاریخ نویسی کے بت پر ''پہلا پتھر‘‘ پھینکا اور اسی نسبت سے اپنی کتاب کا یہی نام رکھا (اب تک آخری پتھر پھینکنے کی سعادت دورِ حاضر میں ڈاکٹر مبارک علی کو حاصل ہوئی ہے)۔ یہ تکلیف دہ مگر عبرت آموز داستان سولہویں صدی سے شروع ہوتی ہے جب ہسپانوی اور پرتگالی بحری قزاق اپنی برتر عسکری قوت کے ساتھ سمندروں پر راج کر رہے تھے۔ وہ انگریزوں کے چھوٹے اور غیر مسلح تجارتی جہازوں کو لوٹ کر آگ لگا دیتے اور انگریز ملاحوں کو قتل کردیتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگریزوں کو بھی اپنی عسکری قوت میں اضافہ کرنا پڑا اور پھر وہ یورپ کی ان تمام بڑی قوتوں کو یکے بعد دیگرے مسلسل شکست دیتے چلے گئے جو کافی عرصہ تک ان سے (خصوصاً بحری قوت میں) کہیں زیادہ طاقتور تھیں لیکن باقی یورپ اور برطانیہ کے درمیان ایک واضح فرق تھا۔ یورپ کی تمام بڑی بڑی اور بظاہر اعلیٰ عسکری قوتوں کی مالک جو سلطنتیں تھیں ان کے پاس کوئی مربوط سیاسی نظام نہ تھا بلکہ مطلق العنان بادشاہتیں تھیں جس کے نتیجے میں اقتدار کی چھینا جھپٹی اور طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا جبکہ برطانیہ میں ایک مربوط سیاسی نظام کی بنیاد پڑ چکی تھی جس نے اس کو نظم و ضبط اور سیاسی استحکام بخشا اور طوائف الملوکی کی جگہ قانون کی بالادستی اور حکمرانی قائم ہوتی چلی گئی۔ یہی وہ عظیم قوت ثابت ہوئی جس نے انگریز قوم کو متحرک کر کے اس کی پوشیدہ قوت کو مہمیز دی اور پوری دنیا کو انگریز کے قدموں میں ڈھیر کر دیا۔
اقتدار کے لیے جنگ و جدل کے زمانے نے کروٹ لی تو تیرہویں صدی کی ابتدا میں برطانیہ کی غیر معروف اور تہذیب و تمدن سے عاری‘ نیم وحشی اور مفلس قوم کے چھوٹے سے جزیرے میں ''میگنا کارٹا(Magna Carta) کی صورت میں ایک ایسے معاہدے کی بنیاد ڈالی گئی جس نے زمانے کی رفتار کو بدل ڈالا۔ ''میگنا کارٹا‘‘ (بادشاہ اور بڑے جاگیرداروں کے درمیان معاہدہ ) نامی دستاویز نے انگریز کی سیاست‘ قانون اور جدید جمہوریت کو جنم دیا۔ اس معاہدے کی تاریخ یہ ہے کہ 1201ء میں جان نامی شخص انگلستان کا ایک نہایت سازشی اور طالع آزما بادشاہ تھا۔ یہ رومن کیتھولک کلیسا (پوپ اس کا سربراہ تھا اور صدر مقام روم تھا) کی بالادستی سے نجات پانا چاہتا تھا۔ اس دور میں یورپ کے تمام ممالک میں کلیسا کی بالادستی اتنی زیادہ تھی کہ بادشاہوں کو تاج پاپائے اعظم (Pope) کی مرضی اور اجازت سے پہنائے جاتے تھے۔ یہ بات جان کے مطلق العنان مزاج کو ہر گز پسند نہ تھی۔ کنگ جان کی بغاوت کے سبب کلیسا نے اُسے عیسائیت کا باغی اور مرتد قرار دے کر دائرۂ مسیحیت سے ہی خارج قرار دیا اور ریاست کے طاقتور نوابوں اور جاگیرداروں (Feudal Lords) کو بادشاہ کے خلاف بھڑکا دیا۔ ملک فساد کی زد میں آ گیا۔ نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ بادشاہ نے تمام نوابوں اور بڑے جاگیرداروں کو ایک جگہ مل بیٹھنے کی دعوت دی تاکہ اس نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی کا کوئی حل نکالا جا سکے۔ بڑی بحث و تمحیص اور حیل و حجت کے بعد یہ طے پایا کہ بادشاہ نوابوں اور جاگیرداروں کے داخلی معاملات میں کوئی دخل اندازی نہیں کرے گا اور وہ بادشاہ کے ساتھ کسی قسم کا جھگڑا نہیں کریں گے اور بوقتِ ضرورت دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔ اس معاہدے پر ایک دستاویز تیار کی گئی (1215ء) جس کا نام ''میگنا کارٹا‘‘ رکھا گیا۔ بظاہر یہ ایک بڑی بیکار اور فرسودہ دستاویز تھی جس میں صرف بادشاہ اور وراثتی جاگیرداروں کے مفادات کو تحفظ دیا گیا تھا اور اس میں انسانی حقوق کے تحفظ اور عوام کی فلاح و بہبود کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہ تھا لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ یہی فرسودہ دستاویز آگے چل کر اور آنے والی صدیوں میں نہ صرف برطانیہ بلکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق و قانون کی بالادستی اور جمہوری سیاسی نظام کی بنیاد اور پہلی علمبردار کہلائی۔
تین‘ چار صدیاں گزر جانے کے بعد بتدریج سیاسی اُفق پر پارلیمنٹ نامی ادارہ اُبھرا اور اُس نے بادشاہ کے فرسودہ تقدس کو چھین کر اس کے محدود اختیار کو پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کا مرہونِ منت بنا دیا۔ یورپ کے دیگر معاشروں میں کلیسا کو سیاسی اجارہ داری حاصل تھی۔ وہ جہالت کی تاریکی میں ڈوبے رہے کیونکہ اس دور کا کلیسا علم و دانش اور افکارِ تازہ کا مخالف تھا۔ ایسے میں انگلستان دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے کلیسا کی سیاسی اجارہ داری پر کاری ضرب لگائی اور سب سے پہلے غیر ملکی اور غیر مانوس لاطینی زبان کا پھندہ اپنی گردن سے اُتار پھینکا اور اپنی مقامی زبان یعنی انگریزی (جو اس وقت بڑی پسماندہ تھی) کو ذریعۂ تعلیم بنایا۔ کیا یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ نہیں؟ جیسے کئی صدیوں تک ہندوستان کی سرکاری زبان فارسی تھی‘ اسی طرح انگلستان میں سرکاری زبان لاطینی تھی۔ انگریزوں نے مغل بادشاہ جہانگیر کے دربار میں جس شخص کو اپنا سفیر بنا کر بھیجا وہ Sir Thomas Roe تھا جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھا اور ترک زبان پر عبور رکھتا تھا۔ جہانگیر کا بیٹا (شاہجہاں) ایک ایسے موذی مرض کا شکار ہوا جس کا علاج کرنے میں مقامی طبیب ناکام رہے تھے۔ برطانوی سفیر اُسے صحت یاب کرنے میں کامیاب ہوا تو اس نے جہانگیر سے اپنے لیے ہیرے جواہرات انعام میں نہیں مانگے بلکہ دونوں ملکوں کے مابین تجارت کی اجازت طلب کی جو مغل بادشاہ نے بصد خوشی دے دی۔ انگریزوں کو ہندوستان کے ساحلی مقامات پر تجارتی کوٹھیاں اور گودام قائم کرنے کے ساتھ ان کی حفاظت کیلئے مقامی افراد کی بطور چوکیدار بھرتی کرنے کی ضرورت پیش آئی توشاہی فرمان کے ذریعے اس کی بھی اجازت مل گئی۔ روزگار کے متلاشی پیشہ ور انگریزوں کے لیے اُجرت پر قتل سمیت ہر کام کرنے لگے۔ وقت گزرنے کے ساتھ چوکیداروں کا گروہ ایک منظم اور بہترین تربیت یافتہ عسکری قوت بن گیا جس کی بدولت انگریزوں نے دو صدیوں کے اندر سارے برصغیر پر قبضہ کر لیا۔ انگریزوں نے جہانگیر کے دربار میں جو دوسرا سفیر بھیجا تھا وہ Sir W. Hawkins تھا۔ وہ ڈاکٹر تو نہ تھا مگر اپنے پیشرو کی طرح ترک زبان روانی سے بول سکتا تھا۔ جہانگیر نے اُسے اپنے دربار سے منسلک کر لیا۔ اسے 400 سپاہیوں کی سالاری دی اور 30 ہزار کا وظیفہ مقرر کر دیا بعد میں ایک آرمینین عیسائی سردار کی بیٹی سے اس کی شادی بھی کرا دی۔
ادھر گوا (Goa) پہ قابض پرتگالی وائسرائے امنیڈوساکو جب معلوم ہوا کہ انگریزوں کا ایک وفد مغل شہنشاہ جہانگیر کے دربار میں پہنچ چکا ہے اور اس نے دربار میں رسائی حاصل کرنے کے بعد کچھ مراعات بھی حاصل کرلی ہیں اور اسے اعزازت سے نوازا گیا ہے تو اُس نے مشتعل ہو کر مغل شہنشاہ کے اس عمل کو پرتگال کے خلاف اعلانِ جنگ قرار دیا۔ یہ عجب طرفہ تماشا اور مغلوں کے لیے انتہائی شرم کا مقام تھا کہ سات سمندر پار سے آنے والے گنتی کے چند بحری قزاقوں میں اتنی جرأت آ گئی تھی کہ وہ ساحل پر ایک چھوٹی سی بستی کے مالک بن جانے کے بعد ہندوستان کی وسیع و عریض مملکت کے خلاف اعلانِ جنگ کرنے لگے تھے اور مغل شہنشاہ خاموش ہو کر بیٹھے رہے۔ پرتگالیوں نے ہندوستا نی تاجروں کے جہازوں کو لوٹنا اور غرق کرنا شروع کر دیا۔ مغلوں کے پاس اس وقت برائے نام جنگی بحری بیڑا بھی نہیں تھا۔ ساحلوں پر بھی وہ پرتگالیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے کیونکہ قلعہ بند پرتگالیوں کی آگ برساتی توپیں حملہ آور کو قریب بھی نہ پھٹکنے دیتی تھیں۔ اسی دوران پرتگالیوں نے شاہی تجارتی بیڑے کے چار جہازوں کو لوٹا اور ملاحوں کو قیدی بنا لیا۔ ایک جہاز میں 30 لاکھ کا شاہی خزانہ تھا اور ان جہازوں پر جہانگیر کی والدہ اور مملکت کے دوسرے بڑے اُمرا کا خاصا سرمایہ لگا ہوا تھا۔ جہانگیر کو مجبوراً اعلانِ جنگ کرنا پڑا۔ پرتگالی قلعہ پر تو حملہ نہیں کیا گیا لیکن ملک کے اندر جتنے پرتگالی تھے اُنہیں گرفتار کر لیا گیا اور عیسائیوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اب اندرونِ ملک جہانگیر کی حکومت تھی اور ساحلوں اور سمندروں پر پرتگالیوں کی‘ جس کے سبب کئی برس تک بیرونی تجارت بند رہی۔ جہانگیر نے اپنے ایک وزیر کے ذریعے گوا سفارتی وفد بھیجا لیکن پرتگالی وائسرائے نے حقارت سے اس سے ملنے سے انکار کر دیا۔ اس نے شرط عائد کی کہ انگریزوں سے تمام مراعات واپس لے لی جائیں اور اُنہیں دربار سے نکال دیا جائے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved