اگلے روز ٹی وی سکرین پر جب کچھ ڈانڈا برداروں کو ریڈ زون میں داخل ہو کر سپریم کورٹ کو اپنے گھیرے میں لیتے ہوئے دیکھا تو یقین ہی نہیں آیا کہ یہ وہی شہرِ اقتدار ہے جہاں پچھلے نو‘ دس ماہ سے غیر اعلانیہ طور پر کسی بھی قسم کی سیاسی ایکٹوٹی بند تھی اور جہاں دھرنا دینے کے لیے آنیوالوں کا پکڑ دھکڑ‘ ربڑ کی گولیوں اور آنسو گیس کے شیلوں سے استقبال کیا جاتا تھا۔ اٹک کے پُل کو آمد و رفت کے لیے کھلا دیکھ کر بھی حیرانی ہوئی۔ وفاقی دارالحکومت میں یکایک دفعہ 144 کا نفاذ ختم کر دیا گیا۔ ایک دن پہلے تک اسلام آباد پولیس کے سوشل میڈیا اکائونٹ سے یہی پیغام دیا جا رہا تھا کہ پولیس قانون کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کرے گی مگر صبح منظر نامہ ہی بدلا ہوا تھا۔ پی ڈی ایم کے قائد نے اعلان کیا تھا کہ وہ استعفیٰ لیے بغیر گھر نہیں جائیں گے اور تب تک یہیں بیٹھے رہیں گے لیکن رات کو دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ ادھر سپریم کورٹ نے وفاق، پنجاب، خیبر پختونخوا حکومتوں سمیت سیاسی جماعتوں اور دیگر فریقوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت اگلے ہفتے تک کیلئے ملتوی کر دی۔ عدالت نے ایک بار پھر کہا کہ سیاستدان مل بیٹھ کر مسئلے کا کوئی حل نکالیں، سیاسی تقسیم کی وجہ سے بہت نقصان ہو رہا ہے۔
عمران خان کی ضمانت منظور ہونے پر خواجہ آصف نے ایک طویل پریس کانفرنس کی جس میں کہا کہ عمران خان عدلیہ سے این آر او لے رہا ہے‘ عدالت میں ملزم پیش ہو رہا ہے، اور کہا جا رہا ہے کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی‘ ایسے میں انصاف کی کیا توقع کر سکتے ہیں؟ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمیں تو ضمانت کے بعد بھی تین دن بعد رہائی ملتی تھی۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا عمران خان کو عدالت میں پیش ہونے پر یہ کہنا کہ ''آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی‘‘ پوری پی ڈی ایم اور ان کے حامیوں کے لیے ایک بڑا قومی ایشو بن چکا ہے۔ ان ریمارکس کی بنیاد پر ''لاڈلے‘‘ کا بیانیہ تراشا جا رہا ہے۔ خواجہ آصف سمیت پی ڈی ایم کے دیگر رہنما مذکورہ ریمارکس پر تنقید کرتے ہوئے شاید بھول گئے کہ ایک سال قبل جب ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ پر از خود نوٹس لیا گیا تھا تو اس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں انہی چیف جسٹس صاحب نے جب بلاول بھٹو زرداری کو روسٹرم پر بلایا تو ریمارکس دیے ''آپ کے نانا اور والدہ کا قتل ہوا‘ آپ کے چہرے پر مسکراہٹ ہے‘ دیکھ کر اچھا لگا‘ ایک جہاندیدہ نوجوان ہو آپ‘‘۔ پھر شہباز شریف جب روسٹرم پر آئے تو ریمارکس دیے '' آپ کے چہرے کی سنجیدگی ملک و قوم کی فکر کی عکاس ہے‘ آپ کی تیاری مکمل ہے‘ مجھے اچھا لگا‘‘۔ پچھلے دنوں یکساں انتخابات کے کیس کی سماعت کے دوران خواجہ سعد رفیق جب سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے خواجہ سعد رفیق کو مخاطب کر کے کہا ''خواجہ صاحب! آپ پرانے سیاسی ورکر ہیں‘ ہم آپ کا احترام کرتے ہیں‘‘۔ عدالت نے تو ریمارکس کے معاملے میں کوئی بھید بھائو نہیں رکھا مگر کچھ مخصوص جماعتوں کو انہی ریمارکس میں سے اپنے لیے سیاسی کھاد نکالنا ہوتی ہے۔
اگر سپریم کورٹ اسمبلیاں توڑنے کے فیصلے کو ریورس کرتے ہوئے فیصلہ پی ڈی ایم کے حق میں سنائے اور اس کے نتیجے میں پی ڈی ایم برسر اقتدار آ جائے تو درست مگر یہی عدالت جب عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے تو پھر سپریم کورٹ کے باہر دھرنا‘ یہ دہرا معیار کیوں؟ کیا ایک سال قبل اس عدالت کے فیصلوں کے معنی اور مقاصد کچھ اور تھے؟ جہاں تک لاڈلا ہونے کی بات ہے تو شاید پی ڈی ایم کے زعما بھول گئے کہ جب حمزہ شہباز کے نیب وارنٹ ایشو ہوئے تھے تو وہ اپنے گھر سے باہر ہی نہیں آ رہے تھے اور چھٹی کے باوجود لاہور ہائیکورٹ میں اس کیس کی سماعت ہوئی اور حمزہ شہباز کو فوری ضمانت دی گئی، نیب ٹیم کئی گھنٹوں کی کوشش کے باوجود گرفتاری میں ناکام رہی اور خالی ہاتھ لوٹ گئی۔ اسی طرح اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکم جاری کیا تھا کہ مریم نواز کو اگر نیب گرفتار کرنے کا حکم یا وارنٹ جاری کرنا چاہے تو کم از کم دس دن پہلے مریم نواز کو ان وارنٹس کے بارے میں اطلاع دینا ہو گی۔ ذرا یاد کیجیے کہ جب نیب نے مولانا کو انکوائری کیلئے پیش ہونے کا نوٹس بھیجا تھا تو ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کیا جواب دیا گیا تھا؟ فرمایا: نیب کی جرأت ہے کہ مجھے بلائے؟ یہ مجھے بلا کر تو دیکھیں‘ انہیں لگ پتا جائے گا۔ یہ تو زیادہ پرانا قصہ نہیں کہ میاں شہبا زشریف جب نیب اور ایف آئی اے کے مقدمات کی پیشیوں کیلئے حاضر ہوا کرتے تھے تو انہیں چائے اور سینڈوچ پیش کیے جاتے تھے۔ یہ مناظر بھی سب نے دیکھ رکھے ہوں گے کہ احتساب عدالتوں میں عملہ اور خود منصف صاحبان میاں نواز شریف‘ ان کی صاحبزادی اور شہباز شریف کے احترام میں کرسیوں سے اٹھ جایا کرتے تھے۔ شریف فیملی کے وکلا یقینا اس حسنِ سلوک کی گواہی دیں گے۔ اصولاً ہونا بھی یہی چاہئے کہ جب تک کسی کے خلاف جرم ثابت نہ ہو جائے اور اس کو سزا نہ ہو جائے‘ تب تک عدالت‘ نیب‘ ایف آئی اے یا پولیس سمیت کسی بھی قانونی ادارے کی تحویل میں موجود شخص کی عزتِ نفس اور اس کے حقوق کا پورا پورا احترام کیا جانا چاہیے۔ ہماری دینی تعلیمات بھی یہی ہیں اور ملک کے قوانین میں بھی یہی درج ہے۔
عمران خان کو تمام مقدمات میں ضمانت ملنے کے با وجود پانچ گھنٹے تک عدالتی احاطے میں رکھا گیا، ایسے وقت میں جب پورے اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ تھی‘ اور پولیس شہر کی سکیورٹی سنبھالے ہوئے تھی‘ ایچ الیون کے قبرستان میں فائرنگ ہونے لگ گئی اور چیئرمین تحریک انصاف کو عدالت سے باہر نکلنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی۔ چند باوثوق ذرائع کا دعویٰ ہے کہ کلرکہار کے قریب ہنگامہ آرائی کرا کے عمران خان کو ایک نئے مقدمے میں دھرنے کا پلان تھا مگر بروقت اطلاع مل جانے سے یہ منصوبہ بروئے عمل نہیں آ سکا۔ ایک طرف عمران خان کو لاڈلا ثابت کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف مخالفین کوئی ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں کہ کسی سیاستدان کو اس طرح گھر میں گھس کر‘ سب کچھ تہس نہس کر کے گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی ہو‘ کیا آج تک کسی سیاستدان کو عدالت کے دروازے توڑ کر احاطۂ عدالت سے گرفتار کیا گیا ہے؟ سیاسی کارکنوں اور سیاستدانوں کی گرفتاریاں ہوتی رہتی ہیں لیکن جو کچھ 25 مئی 2022ء کے بعد سے اب تک مسلسل دیکھنے میں آ رہا ہے‘ وہ اس سے قبل بھٹو کے سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور ضیا مارشل لا دور میں ہی ہوتا دیکھا گیا تھا۔ پی ڈی ایم جب عمران خان کے خلاف لاڈلا ہونے کا بیانیہ بناتی ہے تو اندر خانے ان کے دل خود اس بات کی نفی کر رہے ہوتے ہیں۔ انہیں اس بات کا پوری طرح علم ہے کہ عمران خان کے خلاف ڈیڑھ سو کے لگ بھگ فوجداری مقدمات اسی حکومت نے درج کرائے ہیں۔ کیا دنیا کے کسی اور ملک میں‘کسی بھی سیاسی جماعت کے سربراہ کے خلاف اتنے کم وقت میں اس قدر مقدمات درج ہوئے ہیں؟ توجہ طلب بات یہ ہے کہ ایک برس گزرنے کے بعد بھی اب تک کسی مقدمے میں عمران خان کی ضمانت کنفرم نہیں ہوئی بلکہ انہیں عبوری ضمانتوں پر رکھا گیا ہے اور ہر چار‘ پانچ دن بعد عدالت میں پیش ہو کر دوبارہ ضمانت کی درخواست دائر کرنا پڑتی ہے۔ کیا کسی لاڈلے کے ساتھ ایسا ہوتا ہے؟ شاید حکومت کا مقصد یہی ہے کہ ہر وقت عمران خان کے سر پر گرفتاری کی تلوار لٹکتی رہے۔
کل جس طرح قومی اسمبلی میں اور سپریم کورٹ کے باہر جلسے میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا نام لے کر ان پر طنز و تنقید کے نشتر برسائے گئے‘ سوچئے اگر عمران خان نے ایسا کیا ہوتا تو کیا ہوتا؟ جو کچھ آج کل دیکھنے میں آ رہا ہے ‘ اس سے قبل کیا کبھی دیکھنے میں آیا؟ کیا آج تک ایسا ہوا کہ ایک سیاسی جماعت کا جھنڈا پکڑنے پر لوگوں کو گاڑیوں سے نکال کر مارا جائے‘ ان پر پرچے کیے جائیں‘ انہیں گھسیٹ کر جیلوں میں بند کر دیا جائے؟ کیا آج سے قبل خواتین سیاسی کارکنوں کی اس قدر گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں؟ فاشزم کا جو رویہ اس وقت دیکھنے میں آ رہا ہے‘ آج تک نہیں دیکھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved