تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     21-09-2013

سوچتے چلے جائیے

کراچی میںہونے والی بدامنی‘ مفادات کی جنگ ہے‘ جو بنیادی طور پر طاقت اور دولت کی خاطر لڑی جا رہی ہے۔ کچھ گروہ سیاسی جماعتوں کے پروردہ ہیں‘ جو اپنے سیاسی سرپرستوں کو خوش رکھنے کے لئے ‘ ان کی ڈیوٹی دیتے ہیں‘ جواب میں اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کے نتائج سے بچنے کے لئے ان کی مدد لیتے ہیں۔ چھوٹے سے چھوٹا سیاسی گروپ بھی یہی دو کام کرتا ہے۔ راہزنی‘ مہینہ‘ بھتہ اور پارٹی فنڈ ‘ چندہ بٹورنے کے بہانے ہیں۔ مقصد صرف ایک ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت کیسے بٹوری جائے؟ سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد کے لئے ان کی سرپرستی کرتی ہیں اور تحفظ مہیا کرتی ہیں۔ کراچی کے مقامی فسادیوں‘ جنگجوئوں کا مختلف علاقوں میں نو گو ایریا بنا کر‘ اپنے حلقہ ہائے اثر قائم کرنا‘ سراسر مقامی سرگرمی ہے۔ اقتدار پر قبضہ کرنا یا کوئی علاقہ چھین کر اپنی حکمرانی کا دعویٰ کرنا‘ ان عناصر کا مقصد نہیںہوتا۔ اس کے برعکس ہماری شمالی سرحدوں پر جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس میں اصل مقصد لوٹ مار‘ چھینا جھپٹی یا بھتہ وصولیاں نہیں۔ ان کے مقاصد اور ہیں۔ میں اپنی بات واضح کرنے کے لئے ایک چھوٹی سی حقیقت کی طرف توجہ دلائوں گا۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا ہدف عام آدمی بنتا ہے یا برسرپیکار فریقوں میں سے کسی ایک گروہ کا نمایاں کارکن ہوتا ہے۔ پاکستانی فوج کو دفاعی قوت کے طور پر کوئی نشانہ نہیں بناتا۔ 1990ء میں ایسا ہوا کرتا تھا۔ جب فوج کو یہ حکم دینا پڑا تھا کہ اس کے سپاہی یا عہدیداروردی پہن کر شہری علاقوں میں نہیں جائیں گے۔ اب صورتحال بدل چکی ہے۔ رینجرز کے جوان‘ جن کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ فوجی ہوتے ہیں‘ برستی گولیوں کے درمیان وردی پہن کر جاتے ہیں۔ اب انہیں کوئی نشانہ نہیں بناتا اور شمالی علاقوں میں ہدف ہی فوجیوں کو بنایا جاتا ہے۔ ابھی چند روز پہلے ہمارے ایک میجرجنرل‘ ایک لیفٹیننٹ کرنل اور ایک لانس نائیک کو راستے میں بارودی سرنگ لگا کر شہید کیا گیا۔ اگلے ہی دن تحریکِ طالبان پاکستان نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی۔ تحریکِ طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا ’’فوج پر حملے جاری رکھیں گے۔ فوج نے ہمارے ساتھ کئی محاذ کھول رکھے ہیں۔ جنگ جاری ہے۔ یہ حکومت نے شروع کی تھی۔ اسے ہی ختم کرنا ہو گی۔ وہ سیزفائر کا اعلان کرے۔ آئندہ بھی فوج پر حملے کا کوئی موقع نہیں جانے دیں گے۔‘‘ اس تقابل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ کراچی کے سماج دشمن عناصر کے اہداف طاقت اور دولت کے مراکز ہیں۔ جبکہ ٹی ٹی پی کا نشانہ پاکستان ہے۔ اسی لئے وہ اس ملک کے محافظوں کو اپنا نشانہ بناتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ پاکستان کو خطرہ کس سے ہے؟ آپ کا جواب تو میں نہیں جانتا۔ لیکن میرا کھلا جواب یہ ہے کہ پاکستان کو خطرہ اس سے ہے‘ جو ہماری مسلح افواج پر گھات لگا کر حملے کر رہا ہے۔ سماج دشمن عناصر سے روزمرہ زندگی ضرور متاثر ہوتی ہے۔ بے گناہوں کا خون بھی بہتا ہے۔ لیکن یہ بنیادی طور پر جرائم کو ختم کرنے کا مسئلہ ہے‘ جو پولیس کی مستعدی اور شہریوں کے تعاون سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کے جس بڑے شہر میں جرائم پر قابو پایا گیا‘ وہاں فوج کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ لیکن جب میں حکومت کی طرف دیکھتا ہوں تو اس کی سوچ مختلف نظر آتی ہے۔ جہاں جرائم اور لاقانونیت کا مسئلہ ہے‘ وہاں شہری انتظامیہ‘ حالات کو سنبھالنے کی ذمہ دار ہوتی ہے اور اسی کو ہونا چاہیے۔ جیسے جیسے اوپرکی مداخلت بڑھتی ہے‘ جرائم میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ کراچی میں یہی کچھ ہورہا ہے۔ جس دن کراچی میں قیام امن کا مسئلہ حل ہوا‘ وہ صرف پولیس اور شہریوں کے درمیان عملی تعاون کا کوئی متفقہ فارمولاتیار کر کے‘ اس پر عملدرآمد کے ذریعے ہو گا۔ مگر لگتا ہے کہ حکومت زیادہ توجہ کراچی کے امن و امان پر صرف کر رہی ہے۔ حالانکہ وہاں پاکستان کی سلامتی کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ملکی سلامتی کو سب سے بڑا خطرہ شمالی محاذ پر ہے اور وہاں حکومت‘ مخالف فریق کو مذاکرات کی غیرمشروط پیش کشیں کر رہی ہے اور جواب میں کوئی اسے خاطر میں بھی نہیں لاتا۔ مختلف کردار سامنے آ کردعوے کرتے ہیں کہ وہ مصالحت کاری کرنے میں مصروف ہیں۔ لیکن فوراً ہی طالبان کی طرف سے تردید آ جاتی ہے۔ مجھے حکومت کے خلوص پر ذرا بھی شک نہیں۔ کوئی بھی سیاستدان جب حکومتی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہو‘ فطری طور پر وہ اپنے زیرانتظام علاقوں کی آزادی و خودمختاری کا تحفظ کرتا ہے۔ وہ پرلے درجے کا بیوقوف ہو گا‘ جو اپنے زیرانتظام علاقے میں کسی دوسرے کی دخل اندازی برداشت کر ے۔ میں نے ہمیشہ یہ لکھا ہے کہ اگر ہم 1970ء میں شیخ مجیب الرحمن کو ان کا حق اقتدار دے دیتے‘ تو آج پاکستان متحد بھی ہوتا‘ مضبوط بھی اور خوشحال بھی۔ وجہ ظاہر ہے کہ بیوقوف سے بیوقوف آدمی بھی اپنے تحفظ میں آئی ہوئی چیز پر دوسرے کو قبضہ جمانے کا موقع نہیں دیتا۔ یہ میں اپنی طرف سے نہیں لکھ رہا‘ شیخ مجیب الرحمن کی ایک دلیل دہرا رہا ہوں۔ میں نے جب 1970ء میںشیخ مجیب سے انٹرویوکرتے ہوئے کہا کہ ’’یہاں کے لوگ آپ پر علیحدگی پسند ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ اپنے دفاع میں آپ کیا کہیں گے؟‘‘ شیخ مجیب کا جواب تھا ’’میں بیوقوف ہوںجو پورے پاکستان کی حکومت چھوڑ کر‘ خود ہی آدھے پاکستان کی حکومت مانگوں؟‘‘ موجودہ حکومت بھی پاکستان کی سلامتی اور دفاع کی ذمہ دار ہے اور ہمیں اس پر اعتماد رکھنا چاہیے کہ وہ اپنا فرض ‘ عزم و ارادے اور ذمہ داری کے ساتھ ادا کرے گی۔ لیکن اندازوں میں غلطی ہو سکتی ہے اور مجھے یوں لگتا ہے کہ حکومت نے اپنی ترجیحات کا تعین ٹھیک نہیں کیا۔ جہاں کے مسائل‘ طاقت استعمال کئے بغیر حل ہو سکتے ہیں‘ وہاں حکومت اپنی توجہ اور طاقت مرتکز کئے بیٹھی ہے‘ ہمارے وزیرداخلہ چوبیس گھنٹے آپریشن کی نگرانی کر رہے ہیں اور جہاں طاقت کا استعمال ناگزیر ہے‘ وہاں مذاکرات پر زور دیا جا رہا ہے۔ وہ بھی ایسی صورت میں کہ ہم جس کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتے ہیں‘ وہ شرائط پر شرائط پیش کر رہا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے ’’ فاٹا سے اپنی فوجیں نکالو‘ ورنہ ہم فوج پر حملے جاری رکھیں گے۔‘‘ پھر مطالبہ کیا جاتا ہے ’’ حکومت سیزفائر کا اعلان کرے‘‘ اور کبھی الزام لگتا ہے کہ ’’فوج نے ہمارے خلاف محاذ کھول رکھے ہیں۔‘‘ یہ بالکل اسی طرح ہے ‘ جیسے کسی نے کہا تھا کہ ’’حیرت ہے؟ جس کے گھر کو بھی آگ لگائو‘ وہی نکل کے بھاگتا ہے۔‘‘ ہم اپنے گھر میں بیٹھے ہیں۔ یہاں پر ہماری اپنی حکومت ہے۔ اس گھر کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔ اگر اندر سے کوئی اٹھ کر آئین اور قانون کی خلاف ورزی کرنے پر مصر ہو اور وطن کے دفاع کے ذمہ دار اسے روکیں‘ تو اسے گناہ کہا جائے۔ اب آخر میں ایک خطرناک نکتے کی طرف آئوں گا۔ طالبان‘ افغانستان کے ملاعمر کو اپنا امیرالمومنین مانتے ہیں۔ ہمارے آئین اور عدلیہ کو وہ تسلیم نہیں کرتے۔ جب وہ ہماری حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے‘ تو وہ کس کے نمائندے ہوں گے؟ وہ جس کی انہوں نے بیعت کر رکھی ہے؟ یا وہ جس کے خلاف وہ برسرجنگ ہیں؟انہی طالبان نے ہمارے وطن میں بیرونی دہشت گردوں کو پناہیں دے رکھی ہیں اور وہ ہمارے ملک میں دہشت گردی کرتے ہیں۔ اس کاذمہ دار کون ہے؟ پاکستان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ہی وطن کے ایک حصے سے اپنی فوجیں باہر نکالے اور جو بیرونی حملہ آور شمالی وزیرستان میں ‘ طالبان کے تحفظ میں رہتے ہوئے ‘ ہم پر حملے کرتے ہیں‘ ہم ان پر سوال تک نہیں اٹھا رہے۔ ہماری مذہبی جماعتیں‘ سرحدوں کو نہیں مانتیں۔ امیرالمومنین بھی نہیں مانتے۔ پاکستان کی مخالفت کرنے والے طالبان کے تمام گروپ ‘ امیرالمومنین کے اطاعت گزار ہیں اور جو پاکستانی ‘ طالبان کے حامی اور ہمدرد ہیں‘ وہ بھی بالواسطہ طور پر اطاعت امیر کے قریب آئے ہوئے ہیں۔ فی الحال اتنا ہی۔ آگے آپ سوچئے اور سوچتے چلے جایئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved