تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     17-05-2023

اے آر رحمن: تخلیق کا بہتا دریا

کچھ زندگیاں افسانوں سے زیادہ دلفریب ہوتی ہیں‘ ان میں قوسِ قزح کے سارے رنگ ہوتے ہیں۔ مدھم‘ ہلکے‘ دھیمے‘ شوخ اور چنچل رنگ۔ ایسی ہی زندگی معروف میوزک کمپوزر اے آر رحمن کی ہے جو موسیقی کی دنیا میں نت نئے تجربات کر رہا ہے اور جسے اکیڈمی ایوارڈ اور گریمی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ یہ اے آر رحمن کی فنی معراج کا اعتراف تھا لیکن اس کہانی کی ابتدا بھی اس کی انتہا کی طرح بہت دلچسپ ہے‘ جب وہ اے آر رحمن کے بجائے دلیپ کمار تھا جو ایک ہندو فیملی میں پیدا ہوا ‘ جس کے والد شیکھر کا تعلق موسیقی کی دنیا سے تھا۔ شیکھر موسیقی حلقوں میں ایک محنتی اور ایماندار پروفیشنل کے طور پر جانا جاتا تھا۔ شیکھر صبح سے رات گئے تک ہفتے کے ساتوں دن مشقت کرتا تھا۔ گھر کے اخراجات پورا کرنے کے لیے موسیقی کے آلات کو کرائے پر دیتا۔ وہ صبح سات بجے اپنے کام کا آغاز کرتا اور آدھی رات تک اپنے کام میں جُتا رہتا۔ یہ 6جنوری 1967ء کی بات ہے جب شیکھر اور کستوری کے گھر بیٹا پیدا ہوا جس کا نام دلیپ کمار رکھا گیا۔ دلیپ اپنی ماں اورتین بہنوں کا لاڈلا تھا۔ موسیقی اور سُر اس کی زندگی کا حصہ تھے۔ پانچ برس کی عمر تک وہ کئی دھنیں بجا لیتا تھا۔ کبھی کبھار والد اسے اپنے ساتھ لے جاتا تو وہ ایک طرف خاموش بیٹھا والد کے پاس آنے والے بہت سے موسیقاروں کو دیکھتا اور ان کی بنائی ہوئی طرزوں کو غور سے سنتا۔ ایک دن اس کے والد کے پاس ایک دوست موسیقار آیا۔ اس نے ننھے دلیپ کمار کو دیکھا تو شیکھر نے مسکرا کر کہا: یہ میرا بیٹا دلیپ ہے اور یہ بھی ہارمونیم پر دھن بجا لیتا ہے۔ دوست کو یقین نہ آیا‘ اس نے کہا :اچھا دیکھتے ہیں۔ میں ایک دھن بجاتا ہوں‘ یہ مجھے وہی دھن بجا کر سنائے۔ اس نے دلیپ کا امتحان لینے کے لیے اپنے ہارمونیم پر ایک دُھن بجائی اور پھر ہارمونیم کی keysپر سفید کپڑا رکھ دیا تاکہ دلیپ کی نظر keysپر نہ پڑھے‘ لیکن اس وقت سب کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب پانچ سالہ دلیپ نے پورے اعتماد سے ہو بہو وہی دُھن بجا دی۔ دلیپ کے والد شیکھرکا سر فخر سے بلند ہو گیا ۔شیکھر کے دفتر میں کتنے ہی موسیقار آتے تھے‘ ہر موسیقار کے فن کی ایک دنیا تھی۔ وہ اپنے والد کے دفتر میں بیٹھے ہر موسیقار کے فن کا غور سے مشاہدہ کرتا۔ اس کی یادداشت بلا کی تھی‘ وہ ایک بار کوئی دھن سن لیتا تو اس کے ذہن پر نقش ہو جاتی۔ اب دلیپ کو سکول میں داخل کرا دیا گیا‘ لیکن اس کا دل موسیقی میں اٹکا ہوا تھا۔ شیکھر دن رات محنت سے اپنے خاندان کی پرورش کر رہا تھا۔ اسے اپنی بیوی کستوری اور بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کا وقت نہیں ملتا تھا۔ گھر کا محاذ اس کی بیوی کستوری نے سنبھالا ہوا تھا۔ تین بچیوں اور ایک لڑکے کی پرورش آسان کام نہیں تھا لیکن کستوری یہ کام بخوبی نبھا رہی تھی۔
زندگی یونہی گزر رہی تھی‘ شیکھر نے سخت محنت سے ایک نیا گھر بھی بنا لیا تھا۔ موٹر سائیکل کی جگہ اب مورس کار نے لے لی تھی۔ تب ان کی زندگی میں ایک ایسا موڑ آیا جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ شیکھر کی طبیعت خراب رہنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا۔ کستوری کو ایک طرف اپنے خاوند کی صحت کی پریشانی تھی اور دوسری طرف گھر کے اخراجات کی فکر۔ شیکھر کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ اگر وہ بستر سے لگ گیا تو گھر کیسے چلے گا؟ اسی لیے وہ بیماری کے عالم میں بھی دفتر آتا تھا لیکن اب وہ کچھ دیر کام کرنے کے بعد ہی تھک جاتا۔ کستوری اس کے علاج کے لیے ہر جگہ گئی‘ کتنے ہی ڈاکٹروں سے علاج کرایا‘ کتنے ہی حکیموں اور ویدوں کی دوائیں استعمال کیں‘ کتنے ہندو سنتوں سے رجوع کیا لیکن شیکھر کی صحت گرتی ہوئی دیوار کی طرح تھی جو ہر گزرتے دن کے ساتھ منہدم ہو رہی تھی۔ کستوری کو شک تھا کہ ان سے حسد کرنے والوں میں سے کسی نے ان پر جادو کر دیا ہے۔ یہ شک اس وقت یقین میں بدل گیا جب ایک دن اسے گھر کے ایک کونے سے مختلف پرندوں کے پر اور ایسی اشیا ملیں جو کالے جادو میں استعمال ہوتی ہیں۔ کستوری اس قدر خوفزدہ ہو گئی کہ وہ گھر چھوڑ کر ایک قریبی ہوٹل منتقل ہو گئے اور ایک سال تک اس ہوٹل میں ٹھہرے‘ لیکن دواؤں اور ہوٹل کے اخراجات نے انہیں واپس آنے پر مجبور کر دیا۔
کستوری اپنے خاوند کی صحت یابی کے لیے مندروں اور درگاہوں کی خاک چھان رہی تھی۔ تب اسے شاہ کریم اللہ حسینی کے بارے میں بتایاگیا۔ کستوری شاہ کریم کے پاس پہنچی اور انہیں سارا احوال بتایا اور ان سے درخواست کی کہ وہ اس کے ہمراہ گھر چلیں اور شیکھر کو دیکھیں‘ شاہ کریم اس کے ساتھ آنے پر راضی ہو گئے۔ اس وقت دلیپ کی عمر نو سال تھی لیکن وہ دن اس کے ذہن میں نقش ہو کر رہ گیا۔ اس نے دیکھا کہ اس کی ماں کستوری اپنے مسلمان پیر شاہ کریم کے ہمراہ گھر کے سامنے لان میں چلتی ہوئی آرہی تھی‘ چلتے چلتے پیر شاہ کریم ایک جگہ رُک گئے‘ زمین کے اس حصے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا‘ اس جگہ کو کھودا جائے۔ جب کھدائی کی گئی تو زمین سے ایک پلیٹ نکلی جس پر اس کے والد شیکھر کی تصویر بنی تھی جس میں سے ایک تیر گزارا گیا تھا۔ ساتھ ہی کستوری اور بچوں کی تصویریں تھیں۔ یہ سارا منظر نو سالہ دلیپ کی آنکھوں میں ہمیشہ کے لیے ٹھہر گیا۔ آج تک وہ اس واقعے کو یاد کرتا ہے اور اسے سمجھ نہیں آتی کہ اس کی کیا توجیہ کرے۔ پھر ایک کرشمہ ہوا‘ شیکھر جو ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا تھا‘ تیزی سے صحت یاب ہونے لگا۔ کستوری کو پیر شاہ کریم کی شخصیت میں ایک چارہ گر مل گیا تھا لیکن شیکھر کی صحت کی بحالی مختصر عرصہ کے لیے تھی۔ شیکھر کی طبیعت پھر بگڑنے لگی اور ایک دن دیکھتے ہی دیکھتے وہ اپنی بیوی کستوری اور بچوں کوروتا بلکتا چھوڑ کر موت کی وادی میں اُتر گیا۔ شیکھر کی موت کے بعد انہیں یوں لگا جیسے یک لخت کڑکتی دھوپ میں ان کے سر سے سائبان ہٹ گیا ہے۔ اب کستوری تھی‘ اس کی تین بیٹیاں‘ بیٹا دلیپ اور زندگی کی طویل اور دشوار راہگزر۔ گھر کا واحد کمانے والا چلا گیا تھا اور اب انہیں خود گھر کے اخراجات چلانے تھے۔
شیکھر موسیقار بھی تھا اور آلاتِ موسیقی کرائے پر بھی دیتا تھا‘ کستوری نے اس کام کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ لوگ اپنے فنکشن کے لیے موسیقی کے آلات کرائے پر لے جاتے تو دلیپ بھی ان کے ہمراہ جاتا۔ آلات کو set کرتا اور جب فنکشن ختم ہوتا تو ان آلات کو بحفاظت واپس لے آتا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے مختلف موسیقاروں کے ساتھ جُزوقتی کام شروع کر دیا۔ اکثر راتوں کے فنکشن میں دیر ہو جاتی اور صبح سکول جانا مشکل ہو جاتا۔ سکول کے ٹیچر اس کی غیر حاضریوں سے تنگ تھے‘ تب ایک روز ایسا واقع ہوا جسے دلیپ ساری عمر نہ بھلا سکا۔ اس کے سکول کے ایک ٹیچر نے اس کی ماں سے کہا ''اپنے لڑکے کو سکول سے لے جاؤ اور کسی سڑک پر کھڑا کر دو۔ اس طرح وہ بھیک مانگ کر کچھ پیسے کما لے گا‘‘۔ یہ جملہ ماں کے دل میں ترازو ہو گیا۔ اس وقت سکول والوں کو کیا معلوم تھا کہ یہی دلیپ کمار ایک دن اے آر رحمن کے روپ میں موسیقی کے آسمان پر جگمائے گا۔ دولت‘ عزت اور شہرت اس کی دہلیز پر ہوگی اور یہی سکول والے اس بات پر فخر کریں گے کہ اے آر رحمن کبھی یہاں پڑھا کرتا تھا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved