شنگھائی تعاون تنظیم کی ابتدا ایک چھوٹے سے فورم کی حیثیت سے ہوئی تھی اور اس کا کام وسطی ایشیا کی سوویت یونین سے علیحدگی اور آزادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مقامی مسائل کا حل تلاش کرنا تھا‘ لیکن 22سال کے عرصہ کے بعد SCO دنیا میں سب سے زیادہ تیز ترقی کرنے والی ایک ممتاز اور عالمگیر تنظیم برائے علاقائی تعاون کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اس کے مستقل اراکین کی تعداد اس وقت آٹھ (روس‘ چین‘ قازقستان‘ کرغزستان‘ تاجکستان‘ ازبکستان‘ پاکستان اور بھارت) ہے جو عنقریب ایران کی شمولیت کے بعد نوہو جائے گی۔ اس میں مبصرین (Observer) کی حیثیت سے حصہ لینے والے ممالک کی تعداد ابھی تک چار ہے۔ ایران کو مستقل رکن کا درجہ مل جانے کے بعد یہ تعداد تین (افغانستان‘ منگولیا اور بیلا روس) رہ جائے گی‘ مگر اس سے وابستہ ڈائیلاگ پارٹنرز ملکوں کی تعداد نو ہے اور ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت اس تنظیم کے مستقل اراکین‘ آبزرور سٹیٹس اور ڈائیلاگ پارٹنرز کی جغرافیائی تقسیم کا جائزہ لیا جائے تو SCO کا دائرہ تین براعظموں (یورپ‘ ایشیا اور افریقہ) کے آٹھ خطوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کا مرکزی خطہ وسطی ایشیا کی چار ریاستوں (قازقستان‘ کرغزستان‘ تاجکستان اور ازبکستان) پر مشتمل ہے۔ مغربی ایشیا سے عنقریب ایران کی مستقل رکن کی حیثیت سے SCOمیں شمولیت عمل میں آنے والی ہے اورخلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ کے خطوں میں کویت اور متحدہ عرب امارات بحیثیت ڈائیلاگ پارٹنرز موجود ہیں۔ بحرین‘ سعودی عرب اور مصر ڈائیلاگ پارٹنرز شپ حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کا شمار SCOکے مستقل اراکین میں ہوتا ہے مگر اسی خطے سے افغانستان ایک آبزرو رسٹیٹ اور نیپال‘ سری لنکا اور مالدیپ ڈائیلاگ پارٹنرز کی حیثیت سے شامل ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا سے میانمار بحیثیت ڈائیلاگ پارٹنرSCO میں شامل ہے۔ جغرافیائی وسعت کے لحاظ سے SCO کے سکوپ اور ذمہ داریوں میں بھی وسعت آئی ہے۔
اب اس تنظیم کے اغراض و مقاصد میں رکن ممالک کو درپیش سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنا ہی نہیں بلکہ قومی ترقی کے لیے لازم دیگر شعبوں میں تعاون بھی اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس کو SCO کی 22 ویں سربراہی کانفرنس (سمرقند) 2022ء کے موقع پر جاری ہونے والے اعلان میں واضح طور پر بیان کیا گیا تھا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے پروگرام میں علاقائی سلامتی کا تحفظ‘ دہشت گردی‘ انتہا پسندی اور علیحدگی پرست طاقتوں کے خلاف مشترکہ طور پر مؤثر کارروائی کے علاوہ فوڈ سکیورٹی‘ انٹرنیشنل انرجی سکیورٹی‘ موسمی تغیرات‘ تجارت‘ انفراسٹرکچر کی تعمیر اور سرمایہ کاری پر بھی خصوصی توجہ شامل ہے۔ رکن ممالک کے درمیان معاشی‘ ثقافتی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تعلقات کی حفاظت SCO کی اہم ذمہ داری ہے۔ ''اعلانِ سمرقند‘‘ میں بیس برس قبل SCOکے چارٹرز کا حوالے دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہSCO کے بنیادی اصول جنہیں ''شنگھائی سپرٹ‘‘ کہا جاتا ہے یعنی باہمی اعتماد‘ باہمی مفادات‘ مشاورت‘ ایک دوسرے کے ہاں ثقافت کے مختلف رنگوں اور ایک ساتھ ترقی کے عمل کی روشنی میں تنظیم کے مشن کو آگے بڑھایا جائے گا۔
2001ء میں جب شنگھائی تعاون تنظیم کے قیام کا اعلان کیا گیا تو مغربی دنیا نے اسے ایک غیر اہم واقعہ قرار دے کر نظر انداز کر دیا لیکن 2002ء سے 2008ء تک کے عرصہ میں SCO نے تیزی سے ترقی کی۔ اس سے دنیا کی توجہ اس اہم علاقائی تنظیم کی طرف مبذول ہوئی اور کئی ممالک نے اس میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا۔ ان میں پاکستان بھی شامل تھا جو جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم برائے علاقائی تعاون کی سست روی سے مایوس ہو کر کسی فعال اور متحرک فورم کی تلاش میں تھا۔ پاکستان نے سب سے پہلے 2005ء میں آبزرور سٹیٹ کی حیثیت سے آستانہ (قازقستان) کی سربراہی کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ پاکستان کیساتھ اسی کانفرنس میں شرکت کرنے والے ملکوں میں بھارت‘ ایران اور منگولیابھی شامل تھے۔
اسی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کانفرنس کے میزبان ملک قازقستان کے صدر نے اپنے خطاب میں وہ مشہور الفاظ استعمال کیے تھے جو اس سے پہلے کبھی کسی لیڈر کی زبان سے ادا نہیں ہوئے تھے کہ ''اس کانفرنس میں شریک ممالک کے رہنما آدھی انسانیت کی نمائندگی کر رہے ہیں‘‘۔ چونکہ 2001ء میں ازبکستان کی شمولیت کے بعد SCO کی مستقل ممبر شپ پر پابندی عائد کر دی گئی تھی‘ اس لیے پاکستان اور بھارت کو SCO کی مستقل ممبر شپ دینے کا فیصلہ 2015ء میں کیا گیا لیکن چونکہ اس پر عملدرآمد میں مختلف مراحل شامل تھے‘ اس لیے پاکستان اور بھارت SCO میں اپنی مستقل نشستوں پر 2017ء میں بیٹھے۔ پاکستان اور بھارت کی شمولیت سے SCO کے مستقل اراکین کی تعداد آٹھ ہو گئی اور جغرافیائی رقبے‘ آبادی اور سکوپ کے لحاظ سے SCO اس وقت دنیا کی سب سے بڑی علاقائی تنظیم بن چکی ہے۔ یورپ اور ایشیائی ممالک پر مشتمل یہ تنظیم دنیا کے کل رقبے کے 60فیصد حصے پر محیط ہے اور ان ممالک میں رہنے والے لوگ دنیا کی کل آبادی کا 40فیصد ہیں۔ دنیا کی کل جی ڈی پی میں اس تنظیم کا 30 فیصد حصہ ہے۔
SCO ایک مختصر عرصہ میں یہ مقام حاصل کرنے میں کیسے کامیاب ہوئی؟ اس کی وجہ چین کی قیادت ہے۔ پچھلی صدی کی آخری دہائی میں سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد عالمی سیاست کا جو نقشہ ابھرا‘ اس میں امریکہ کے علاوہ چین واحد ملک تھا جو وسطی ایشیا کے ممالک میں معاشی ترقی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے سرمایہ اور تکنیکی مواد مہیا کر سکتا تھا مگر چین نے یہ قدم اٹھانے سے پہلے وسطی ایشیا کے ان ممالک کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعات‘ جو سوویت یونین کے زمانے سے چلے آ رہے تھے‘ کو حل کیا کیونکہ جب تک ان ہمسایہ ممالک کے ساتھ تنازعات سے پاک پُرامن تعلقات قائم نہیں ہوتے‘ ان کے ساتھ تجارتی‘ معاشی اور ثقافتی شعبوں میں تعاون ممکن نہیں تھا۔ چین کی اپنے ہمسایہ ممالک کے بارے میں پالیسی پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ صرف وسطی ایشیائی ہی نہیں بلکہ چین نے اپنے دیگر تمام ہمسایہ ممالک (بھارت کو چھوڑ کر) کے ساتھ سرحدی تنازعات کے حل میں اتنی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا کہ بعض حالات میں چین نے اپنا علاقہ دوسرے فریق کو دے کر پرامن سرحدوں اور ہمسائیگی کا مقصد حاصل کیا۔ چین کی اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ کامیاب سفارت کاری نے چین اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان تجارت‘ معاشی تعاون‘ توانائی اور فزیکل انفراسٹرکچر کی تعمیر اور قومی ترقی کے دیگر شعبوں میں تعاون کی راہ ہموار کی۔ اپنے قیام کے صرف چھ سال کے بعد SCO کے زیر اہتمام 20 لارج سکیل منصوبے ٹرانسپورٹ‘ توانائی اور ٹیلی کمیونی کیشن کے شعبوں میں شروع کیے اور انہیں ریکارڈ مدت میں مکمل کیاگیا۔ اس کے علاوہ ممبر ممالک کے سکیورٹی‘ دفاع‘ امورِ خارجہ‘ معیشت‘ ثقافت اور بینکنگ کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افسران کے باقاعدگی سے اجلاس ہوتے رہے۔ SCO کا فوکس اب بھی سکیورٹی ہے مگر یہ نیٹو یا سابقہ سیٹو یا سینٹو کی طرح کوئی دفاعی معاہدہ نہیں۔ اس کے فورم پر دوطرفہ تنازعات پر بحث کی اجازت نہیں مگر ان کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہی اس کی کامیابی اور ترقی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved