تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     17-05-2023

مرے تھے جن کے لیے

پیر کے روز منعقدہ خصوصی کور کمانڈرز کانفرنس میں نو مئی کو عسکری املاک اور تنصیبات پر ہلہ بولنے والوں پر آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس الزام میں گرفتار ہونے والوں کے اہلِ خانہ کی پریشانی بھی اُن سبھی کے لیے جہاں کڑا مرحلہ ہے وہاں ایک بہت بڑا سبق بھی ہے۔ کیسے کیسے عذر‘ کیسے کیسے جواز اور توجیہات پیش کی جا رہی ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ میرا بچہ تو سو رہا تھا‘ کسی نے فون کرکے باہر بلایا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ کوئی کہتا ہے میرے ابو دکان پر بیٹھے ہوئے تھے‘ انہیں وہاں سے گرفتار کیا گیا۔ کوئی یہ واویلا کرتا نظر آتا ہے کہ میرا لعل جب یونیورسٹی کے لیے گھر سے نکلا تو دروازے پر ہی دھر لیا گیا۔ یہ سبھی کچھ تو ہونا ہی تھا‘ خدا جانے کس بھول میں تھے‘ کس مغالطے کا شکار تھے کہ اداروں کی طرف سے برداشت‘ تحمل اور ضبط کو کمزوری ہی سمجھ بیٹھے حالانکہ حملہ آور جتھوں اور بلوائیوں کو آہنی ہاتھ سے روکا اور اُن کیساتھ سختی سے نمٹا بھی جا سکتا تھا لیکن اس کارروائی میں خونریزی اور وسیع پیمانے پر جانی نقصان بھی یقینی تھا۔ تاہم اس مشکل گھڑی میں بہترین آپشن یہی تھی کہ سکیورٹی ادارے اور مشتعل عوامی جتھے آمنے سامنے نہ آئیں۔ کمزور سمجھنے والوں کے سارے کس بل تو نکل ہی جائیں گے لیکن ستم یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت اپنے کارکنوں کو پہچاننے اور ماننے سے بھی انکاری ہے۔ گویا‘ مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے۔ قیادت کو تو اپنی اپنی پڑ چکی ہے۔ بلوائیوں کو ہلہ شیری دینے والے ہوں یا اُن کا لہو گرمانے والے‘ انقلابی نعرے لگانے والے ہوں یا افواجِ پاکستان کے خلاف غیرمناسب زبان استعمال کرنے والے‘ سبھی کی لیڈری کی دھول اُڑ چکی ہے۔ کوئی ہسپتال میں بیمار پڑا ہے تو کوئی روپوشی اختیار کر گیا ہے۔
آئی جی پنجاب عثمان انور انہی والدین سے اپیل کر رہے تھے کہ اپنے بچوں کا مستقبل داؤ پر مت لگائیں۔ انہیں غیرقانونی سرگرمیوں اور اس کرمنل ریکارڈ کا حصہ نہ بننے دیں جو ان کا کیریئر برباد کر ڈالے ۔ یہ اندرونِ ملک ہی نہیں بیرونِ ملک بھی روزگار اور تعلیم کے مواقع سے محروم ہو جائیں گے‘ لیکن آئی جی کی بات پر توجہ نہ دی گئی ۔ چند روز سے فون کالز کا تانتا بندھا ہوا ہے جس میں گرفتاریوں پر دہائی کے علاوہ رہائی کے لیے منت سماجت سننے کو مل رہی ہے۔ میرے جوابی لیکچر کے بعد تقریباً مایوس ہو کر کہتے ہیں کہ چلیں اگر کوئی ریلیف نہیں مل سکتا تو ان تک رسائی ہی کروا دیں۔ ملاقات کرکے تسلی اور گھر کا کھانا ہی دے دیں۔
کالم کی اشاعت تک قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں یومِ سیاہ کے واقعات بارے بریفنگ دی جا چکی ہوگی۔ قومی اسمبلی میں مذمتی قرار داد پہلے ہی منظور ہو چکی ہے لیکن آرمی چیف سید عاصم منیر کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس میں یہ فیصلہ کیا جا چکا ہے کہ ایسے مقدمات کی سماعت آرمی ایکٹ کے تحت ہو گی تو آئندہ کے لیے ایسے واقعات کے آگے بند باندھا جا سکے گا بصورتِ دیگر عین احتمال تھا کہ بلوائیوں کیلئے رعایت اور ریلیف کا کوئی حیلہ وسیلہ یا چور راستہ تلاش کر لیا جاتا۔ اصولی اور دوٹوک فیصلے ہی وقت کی اہم ضرورت اور کھلا پیغام ہیں۔ بریفنگ اور قراردادیں تو ہر دور میں محض نمائشی کارروائی ہی ثابت ہوتی رہی ہیں اور آئندہ بھی ایسے ہی چلتا رہے گا کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی مجبوریاں اور مصلحتیں ہمیشہ نظریات اور اصولوں کو نگلتی چلی آئی ہیں۔
کوئے سیاست میں کل کے دوست آج کے دشمن اور آج کے دشمن کل کے دوست بنتے دیر نہیں لگتی۔ ہمارے سبھی سیاسی رہنما اس درجے کے جمہوری چیمپئن ہیں کہ وہ ضرورتوں کے آگے بے بس ہوتے دیر نہیں لگاتے۔ کب‘ کون‘ کہاں‘ کس کی ضرورت بن جائے‘ موقع پرستی میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ برادرِ محترم حسن نثار نے 90کی دہائی کے آخری برسوں میں اپنے کالم میں پیشگوئی کی تھی کہ وہ وقت دور نہیں جب بی بی اور بابو (بینظیر بھٹو اور نواز شریف) ایک ہی ٹرک پر سوار بحالی جمہوریت کی تحریک چلاتے نظر آئیں گے۔ 1997ء میں ایسی کوئی پیش گوئی تو دور کی بات ایسا سوچنا بھی محال تھا۔ ایک دوسرے کو سکیورٹی رسک قرار دینے اور غدار سمیت نجانے کیسے کیسے سنگین الزامات لگانے اور کردار کشی کرنے والے کیونکر ایک ٹرک پر سوار ہو سکتے ہیں۔ اس کالم کی اشاعت کے بعد تقریباً سبھی نے اس تھیوری کو غیر سنجیدہ قرار دیا تھا۔
سلام ہے حسن بھائی کے ویژن اور دور اندیشی کو‘ ٹھیک 10سال بعد بی بی اور بابو کے درمیان میثاقِ جمہوریت کا معاہدہ طے پایا اور بینظیر بھٹو کی فرمائش یا مطالبے پر ہی نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی کیونکہ وہ بخوبی جانتی تھیں کہ پرویز مشرف کی حکمرانی میں ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ (ق) سے مقابلہ اکیلے ان کے بس کی بات نہیں۔ انتخابی ہتھکنڈوں اور انتظامی مشینری پر مکمل کنٹرول کی صورت میں (ق)لیگ کی فتح یقینی نظر آرہی تھی جبکہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے حالات پہلے ہی قابلِ ذکر نہ تھے۔ تاہم ایسی صورت میں مسلم لیگ(ن) ہی ٹکر کی پارٹی ثابت ہو سکتی تھی۔ انتخابی مہم کے دوران لیاقت باغ میں بینظیر بھٹو پر قاتلانہ حملہ نہ صرف گیم چینجر ثابت ہوا بلکہ بینظیر بھٹو کی موت کی خبر نے تو مسلم لیگ(ق)کے جمے جمائے پیر اکھاڑ ڈالے۔ حکمران جماعت کے اُمیدوار انتخابی دفتر بند کر کے گھروں میں دبک گئے۔ پارٹی جھنڈے اس طرح اتارے کہ کہیں کسی کی نظر نہ پڑ جائے۔ بینظیر بھٹو کے سپردِ خاک ہونے کے بعد حالات نے ایک اور پلٹا کھایا‘ ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہہ کر سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے کرنے والے نواز شریف اورآصف علی زرداری چھوٹے بھائی بڑے بھائی بن گئے‘ مل کر الیکشن لڑا اور صدر پرویز مشرف کی مکمل سرپرستی کے باوجود (ق)لیگ بری طرح شکست سے دوچار ہوئی۔ مل کر الیکشن لڑنے والوں نے مل کر حکومت بنائی اور اقتدار اور وسائل کا بٹوارا کچھ اس طرح کیا کہ وفاق اور سندھ پاکستان پیپلز پارٹی اور پنجاب مسلم لیگ(ن) کے حصے میں آیا۔ ایک دوسرے پر واری واری جانے والے اور ایک دوسرے کے منہ میں نوالے ڈالنے والے ضرورت بدلتے ہی جلد آمنے سامنے آگئے۔ وہی چور‘ ڈاکو‘ لٹیرے کی بازگشت پھر سنائی دینے لگی۔ ایک دوسرے کے بارے میں نازیبا کلمات اور منہ سے شعلے اگلتے پھر اپنے اپنے دھندوں اور ایجنڈوں میں مگن ہو گئے۔
مجبوریوں اور ضرورتوں کی اس منڈی میں سبھی ضرورت مند پائے گئے ہیں۔ آج کل پھر شریکِ اقتدار اور بٹوارے کے فارمولے پر ایک دوسرے کے ہم آواز اور بانہوں میں بانہیں ڈالے ہوئے ہیں۔ کب ایک دوسرے کا ہاتھ چھوڑتے ہیں اور کب یہ ہاتھ گریبان تک آتے ہیں‘ اس کا فیصلہ بھی ضرورتوں پر منحصر ہے۔ کون‘ کب تک‘ کس کی ضرورت رہتا ہے اور ضرورت پوری ہوتے ہی کون کس سے ہاتھ چھڑواتا ہے‘ خاطر جمع رکھیں یہ سبھی مناظر عین متوقع ہیں اور جلد دیکھے جائیں گے۔ ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی سیاسی اشرافیہ کا جائزہ لیں تو ڈھونڈے سے بھی ایک نہیں مل سکتا جو ضرورتمند نہ پایا گیا ہو۔ عمران خان کی طرزِ حکومت ہو یا طرزِ سیاست‘ کبھی ضرورتیں تو کبھی یوٹرن ہی غالب رہے۔ اسی طرح حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں ایک دوسرے کی حریف تو کبھی حلیف بنتی رہی ہیں۔ کیا خبر‘ ضرورت کب‘ کسے پی ٹی آئی کی مجبوری بنا ڈالے‘ جہاں ہدف ہی سب کچھ ہو وہاں نظریات اور منشور کتابوں میں ہی گلتے سڑتے رہتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved