تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     17-05-2023

اعلیٰ اخلاقی اقدار

ہمارے معاشرے کے لوگ بڑی تعداد میں احساسِ محرومی اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔ اس نفسیاتی دباؤ اور احساسِ محرومی کی وجہ سے مختلف مقامات پر چھوٹی چھوٹی باتوں پر تنازعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بہت سے لوگ معاشی ناہمواریوں کی وجہ سے بھی غصے اور اضطراب کا شکار ہو کر ایسے رویوں کا اظہار کرتے ہیں جو کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہوتے۔ اسی طرح بہت سے لوگ گھریلو ناچاقیوں کی وجہ سے اُداس اور مضطرب رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں غم وغصہ، نفرت اور کشیدگی کی انتہا نظر آتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں مذہبی اور سیاسی اعتبار سے بھی عدم برداشت پائی جاتی ہے اور لوگ اپنے نظریات نہ ماننے والوں کو اپنا دشمن خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ معاشرے کی صحت کے لیے بقائے باہمی کو فروغ دینا انتہائی ضروری ہے۔ جب ہم کتاب وسنت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں بہت سی ایسی باتیں ملتی ہیں جس سے انسان کشیدگی اور تنازعات پر قابو پانے کے قابل ہو سکتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کی کتاب کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین فقط اسلام ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 19میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر 3میں فرماتے ہیں: ''آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہو گیا ‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بطور دین اسلام کو منتخب کیا ہے لیکن اس کے باوجود کلامِ حمید سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ دین میں جبر کا حکم نہیں دیتے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 256میں ارشاد ہوا: ''دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں‘‘۔
جب ہم تاریخ انبیاء کرام علیہم السلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام نے دعوتِ دین کے دوران آنیوالی تکالیف کو بڑی خندہ پیشانی اور بردباری کے ساتھ برداشت کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی تکذیب کی گئی اور آپ کو اذیتوں کو نشانہ بنایا گیا، (نعوذ باللہ ) دیوانہ اور مجنوں کہا گیا لیکن اس کے باوجود آپ علیہ السلام کوہِ استقامت بن کر اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دیتے رہے۔ اسی طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بڑی صعوبتوں اور تلخیوں کامقابلہ کیا، آپ کو نمرود کی جلتی ہوئی چتا میں اُتارا گیا، آپ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کے لیے اپنی آبائی سرزمین سے ہجرت کی، آپ نے سیدہ ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو وادیٔ بے آب وگیاہ میں چھوڑ دیا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی بڑی خندہ پیشانی سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کے راستے میں آنے والی صعوبتوں کا مقابلہ کیا۔ فرعون، قارون، ہامان اور شداد کے سامنے دعوتِ توحید کو پوری استقامت کے ساتھ رکھتے رہے۔ نبی کریمﷺ کو بھی دعوت دین کے دوران بہت سی ابتلاؤں کا نشانہ بننا پڑا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ احقاف کی آیت نمبر 35میں ارشاد فرمایا: ''پس (اے پیغمبرﷺ!)تم ایسا صبر کرو جیسا عالی ہمت رسولوں نے صبر کیا‘‘۔
نبی کریمﷺ نے اس انداز میں صبر کیا کہ جس کی مثال تاریخ انسانیت میں پیش نہیں کی جاسکتی۔ آپ پوری خندہ پیشانی کیساتھ دعوتِ دین کے راستے میں آنیوالی ابتلاؤ ـں کو برداشت کرتے رہے، آپﷺ کے راستے میں کانٹوں کو پچھایا گیا، آپﷺ کو اذیتیں دی گئیں، حالتِ نماز میں آپﷺ کے وجود پر بوجھ ڈالا گیا، آپﷺ کی گردن مبارک میں چادر کو ڈال کر کھینچا گیا، طائف کی وادی میں آپﷺ پر اذیتوں اور مشکلات کے پہاڑ توڑے گئے۔اس حوالے سے صحیح بخاری کی ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ سے پوچھا: کیا آپ پر کوئی دن احد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے؟ آپﷺ نے اس پر فرمایا کہ تمہاری قوم (قریش) کی طرف سے میں نے کتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں لیکن اس سارے دور میں عقبہ کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا۔ یہ وہ موقع تھا جب میں نے (طائف کے سردار) کنانہ ابن عبد یالیل بن عبد کلال کے ہاں اپنے آپ (یعنی دین کی دعوت) کو پیش کیا تھا لیکن اس نے (اسلام کو قبول نہیں کیا اور) میری دعوت کو رد کر دیا۔ میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ ہو کر واپس ہوا۔ پھر جب میں قرن الثعالب پہنچا، تب مجھ کو کچھ ہوش آیا، میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بدلی کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ کیے ہوئے ہے اور میں نے دیکھا کہ حضرت جبریل علیہ السلام اس میں موجود ہیں، انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپﷺ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا اور جو انہوں نے رد کیا ہے وہ بھی سن چکا۔ آپؐ کے پاس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے، آپؐ ان کے بارے میں جو چاہیں اس کا اسے حکم دے دیں۔ اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی، انہوں نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ اے محمدﷺ! پھر انہوں نے بھی وہی بات کہی کہ آپ ؐجو چاہیں (اس کا مجھے حکم فرمائیں)، اگر آپؐ چاہیں تو میں دونوں اطراف کے پہاڑ ان پر لا کر ملا دوں (جن سے وہ چکنا چور ہو جائیں)۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: مجھے تو اس بات کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو ایک اکیلے اللہ کی عبادت کرے گی، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔
نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں جہاں طائف کا واقعہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے وہیں آپﷺ کی زندگی کے دیگر بہت سے مواقع سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپﷺ نے ابتلاؤں اور تکالیف کو کس طرح خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ سفر ہجرت میں بھی آپﷺ کو ابتلاؤں کا نشانہ بننا پڑا، آپﷺ پر کفار نے مختلف جنگوں کو مسلط کیا لیکن نبی کریمﷺ ان جنگوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید اور نصرت سے برسرپیکار اور ثابت قدم رہے۔ یہاں تک کہ فتح مکہ کے موقع پر اللہ تبار ک وتعالیٰ نے پورے جزیرۃ العرب پر آپﷺ کو غالب فرما دیا۔ اس موقع پر بہت سے لوگ آپﷺ کے پاس مجبوری، بے بسی اور بے کسی کی حالت میں پیش کیے گئے لیکن آپﷺ نے تمام لوگوں کو معاف فرما دیا اور اس موقع پر وہی الفاظ کہے جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے حوالے سے کہے تھے؛ یعنی آج کے دن تم پر کوئی مواخذہ نہیں۔ آپﷺ نے انہیں معاف کر دیا۔
نبی کریمﷺ نے ہمیشہ لوگوں کے ساتھ بردباری والا معاملہ کیا اور بڑوں کی تعظیم اور چھوٹوں سے پیار کی تلقین کی۔ اس حوالے سے مسند احمدکی ایک اہم حدیث درج ذیل ہے: سیدنا عبادہ بن صامتؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ آدمی میری اُمت میں سے نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کی تعظیم نہیں کرتا، چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے اہلِ علم کا حق نہیں پہچانتا‘‘۔
نبی کریمﷺ نے جہاں بڑوں کے حوالے سے تعظیم اور چھوٹوں کے لیے شفقت کے احکامات جاری فرمائے وہیں آپﷺ نے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی اور فرمایا کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بہترین سلوک کرتا ہو۔
اسی طرح جب ہم کلام اللہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کسی کی تحقیر سے مکمل طور پر منع کیا ہے۔ اس حوالے سے سورۂ حجرات میں بیان کردہ مضامین خصوصی توجہ کے حامل ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ حجرات کی آیت نمبر 11میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اُڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہترہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اُڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں۔ اور آپس میں ایک دوسرے کے عیب نہ لگاؤ (ڈھونڈو) اور نہ کسی کو برے لقب دو‘ ایمان کے بعدفسق برا نام ہے۔ اور جو توبہ نہ کریں وہی لوگ ظالم ہیں‘‘۔
اس کیساتھ ساتھ معاشرے میں خیر خواہی کے فروغ کے لیے غیبت کی بھرپور انداز میں مذمت کی گئی ہے اور حسد اور بغض سے بھی روکا گیا ہے۔ اگر ہم معاشرے میں ایک دوسرے کی قدر اور احترام کریں اور رواداری کے ساتھ معاملات کو حل کریں تو یقینا معاشرہ امن وسکون کا گہوارا بن سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بغض اور عناد کی بہت بڑی وجہ شخصیت پرستی، ہٹ دھرمی اور ضد ہے جس کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن اس وقت معاشرے کو شعور، آگہی اور حکمت عملی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو لوگ ان چیزوں کو نظر اندازکرتے ہیں وہ درحقیقت کتاب وسنت کی تعلیمات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جس کی بنیاد کتاب وسنت ہو‘ اس معاشرے میں ہمیشہ امن و سکون اور خیرخواہی کو فروغ حاصل ہوتا ہے، جبکہ اس کے مدمقابل کوئی بھی ایسا معاشرہ جس میں نفسا نفسی اور خود غرضی پورے عروج پر ہو اس معاشرے کو ہمیشہ خلفشار اور انتشار کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں معاشرتی بقا اور استحکام کے لیے اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ دینے کی توفیق دے اور ہمارے معاشرے کو حسد اور بغض سے محفوظ رکھے، آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved