تقریباً ڈیڑھ سال سے جاری سیاسی کشیدگی کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ انہی سطور میں کئی دفعہ نشاندہی کی جا چکی ہے کہ اقتدار سے رخصتی کے بعد عمران خان اپنے بیانیے کے زور پر تقسیم کی جو سیاست کر رہے ہیں‘ وہ ملکی استحکام کو درہم برہم کردے گی اور بدقسمتی سے ایسا ہی ہوا۔ عمران خان کی گرفتاری پر ان کے حامیوں نے ملک میں نجی وسرکاری املاک اور فوجی تنصیبات پر ایسے ہلہ بولا جیسے بھارت پر حملہ کررہے ہوں۔ ایک سیاست دان کی گرفتاری کا جواب سیاسی ہونا چاہیے تھا یا پھر شدت پسندی کی صورت میں ہونا چاہیے تھا؟ کیا عمران خان پاکستان کے واحد سیاستدان ہیں جو گرفتار ہوئے؟ ایک گرفتاری پر اتنا ہنگامہ؟ خان صاحب تیسرے روز ضمانت پر رہا ہو کر باہر آگئے لیکن ان کی گرفتاری پر ہونے والی ہنگامہ آرائی نے ملکی تشخص کو جو نقصان پہنچایا ہے‘ اس کی تلافی شاید ہم کبھی نہ کر سکیں۔ اب تو سیاسی تقسیم نے اہم ریاستی اداروں کو بھی اپنی گرفت میں لیتی نظر آتی ہے۔ تحریک انصاف مقتدرہ مخالف مہم چلارہی ہے تو پی ڈی ایم عدلیہ پر نشانہ باندھے ہوئے ہے۔ پروجیکٹ عمران کا انجام ہمارے سامنے ہے‘ جس نے ملک کو اور کسی حد تک اداروں کو تقسیم کردیا ہے۔تحریک انصاف کے کارکنوں نے جو کیا وہ قابلِ افسوس اور قابلِ مذمت ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے جس طرح سے فوجی تنصیبات پر حملے کیے‘ جناح ہاؤس میں جو افسوسناک واقعہ رونما ہوا‘ وہ اس تقسیم کی جانب واضح اشارہ ہے۔ اپنے ہی عوام کے اپنے ریاستی اداروں کے خلاف کھڑا ہونے سے ان کا مورال متاثر ہوتا ہے۔ پی ڈی ایم ہو یا تحریک انصاف‘ دونوں اپنے مقاصد کے حصول کیلئے ان پر اپنا دباؤ ڈالنا چاہتی ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت تو بتدریج تمام سرخ لائنیں عبور کرتی جارہی ہے کیونکہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ الیکشن نہیں کروا سکی اور اس کی ذمہ دار وہ اب مقتدرہ کو ٹھہرا رہی ہے۔ عمران خان اب یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ حکومت انہیں اور مقتدرہ کو آمنے سامنے کرنا چاہتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے مقتدرہ مخالف بیانیے نے اُسے مقتدرہ کے سامنے لا کھڑا کیا ہے اور عمران خان کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کے کارکنان کا جو طرزِ عمل تھا‘ اس کے بعد یہی محسوس ہوتا ہے کہ اب پانی سر کے اوپر سے گزر چکا ہے۔
احتجاجی مظاہرین کی طرف سے جس طرح فوجی املاک کو نقصان پہنچایا گیا‘ اُس پر عسکری حلقوں کے جذبات کا اندازہ خصوصی کور کمانڈرز کانفرنس میں جاری ہونے والے اعلامیے سے لگایا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم کی سربراہی میں ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی عسکری اور سول قیادت نے نو مئی کے واقعات کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانے پر اتفاق کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ نومئی کا دن سیاہ دن تھا۔ حساس فوجی تنصیبات پر حملے کی جتنی مذمت کی جائے‘ وہ کم ہے۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں یہ طے ہو چکا ہے کہ جو نومئی کے واقعات میں ملوث ہیں‘ ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی لیکن دوسری طرف بعض حلقوں کی جانب سے مشتعل مظاہرین کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے کے حوالے سے بھی سوالات اُٹھائے جارہے ہیں۔ آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی یا تو دہشت گردوں کے خلاف ہو سکتی ہے یا آرمی سے متعلقہ افراد کے خلاف۔ سویلینز کیخلاف یہ ایکٹ مخصوص حالات میں استعمال ہو سکتا ہے۔ بعض ماہرین کی رائے میں آرمی ایکٹ کے سیکشن ٹو ون ڈی میں دو ایسی شقیں موجود ہیں جن کے ذریعے سویلینز کا ٹرائل کیا جا سکتا ہے جن میں پہلی سیکرٹ انفارمیشن ایکٹ اور دوسری فوج کا آرڈر نہ ماننا اور فوج کے خلاف اکسانا شامل ہے۔ بالخصوص جب فوج کو سویلین حکومت کی مدد کے لیے بلایا جائے‘ ان حالات میں فوج کو یہ اختیارات حاصل ہیں۔ ماہرین کے بقول سیکشن ٹو ون ڈی میں پروسیجر کو فالو کرنا لازمی ہوتا ہے‘ یعنی ایف آئی آر درج کرنے سے لے کر ثبوتوں کی موجودگی اور آرٹیکل 10 اے کے تحت ملزمان کو شفاف ٹرائل کا حق بھی حاصل ہونا چاہیے اور اگر پروسیجر فالو نہیں ہوتا تو اسے ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ آرمی ایکٹ بھٹو اور ضیاء الحق کے دور میں بھی استعمال ہوتا رہا۔ آرمی ایکٹ کے سویلینز پر اطلاق کے حوالے سے مختلف آرا موجود ہوں گی لیکن حکومت اور اعلیٰ عسکری قیادت اس پر متفق ہیں کہ مشتعل مظاہرین کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے اور ان سے سختی سے نمٹا جائے تاکہ آئندہ ایسے ناخوشگوار واقعات وقوع پذیر نہ ہو سکیں۔
ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اس وقت ہر طرف مایوسی اور اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ گھٹن زدہ ماحول ہے اور اس گھٹن زدہ ماحول سے نکلنے کا ایک حل مذاکرات ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کی پنجاب میں الیکشن پر نظر ثانی کی درخواست پر مذاکرات سے معاملات حل کرنے کی تجویز دی ہے لیکن فی الحال مذاکرات ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے۔ بلاول بھٹو زرداری تو یہ کہہ چکے ہیں کہ جب تک عمران خان نومئی والے واقعے پر معافی نہیں مانگیں گے‘ تب تک کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے لیکن دوسری طرف عمران خان کا اس واقعہ پر موقف اس کے بالکل برعکس ہے۔ آج جو سیاسی ماحول بنا ہوا ہے‘ اس میں ہمیں پھر سے میثاقِ جمہوریت کی ضرورت ہے۔ 14مئی کو میثاقِ جمہوریت کی سترہویں سالگرہ تھی۔ 14مئی 2006ء کو میاں نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو نے میثاقِ جمہوریت کیا تاکہ جمہوریت کو مضبوط کیا جاسکے۔ 90ء کی دہائی میں حکومتیں آنے جانے کی ایک میوزیکل چیئر لگی ہوئی تھی لیکن جب محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے آپس میں میثاقِ جمہوریت کیا تو پھر پیپلز پارٹی نے بھی اپنی حکومت کی مدت پوری کی اور (ن) لیگ نے بھی۔ گو کہ دونوں کی حکومتوں میں وزیراعظم پھر بھی اپنی مدت پوری نہ کر سکے۔ عمران خان بھی اگر میثاقِ جمہوریت کو تسلیم کر لیتے اور اسے سیاسی مک مکا کا نام نہ دیتے تو شاید وہ بھی اپنی حکومت پوری کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ملکی سلامتی کے لیے گرینڈ ڈائیلاگ کا انعقاد بہت ضروری ہے‘ اس کے بغیر تصادم کی آگ کو بجھایا نہیں جا سکتا۔ اگر نواز شریف اور بے نظیر بھٹو‘ جو ماضی میں ایک دوسرے کی حکومت گرانے کی کوششوں میں لگے رہتے تھے‘ وہ ایک میز پر بیٹھ کر میثاقِ جمہوریت کر سکتے ہیں تو عمران خان حکومت سے مذاکرات کیوں نہیں کرسکتے؟ یا عمران خان کے ساتھ حکومت مذاکرات کیوں نہیں کر سکتی؟ عمران خان لیکن بضد ہیں کہ مذاکرات حکومت سے نہیں‘ مقتدرہ سے کرنے ہیں یعنی وہ آج بھی سیاست میں غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت کے حامی ہیں‘ اگر وہ ان کے حق میں ہو۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سیاسی قوتیں اپنی اناؤں کے خول سے نکل کر ملک اور قوم کے لیے سوچیں۔ مسئلہ الیکشن پر ہے تو تمام سیاسی جماعتوں کو اس پر مل بیٹھ کر بات کر لینی چاہیے اور ایک ہی دن الیکشن کی راہ کو ہموار کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ 'کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘ کی پالیسی سے جمہوریت کو ایسا نقصان پہنچ سکتا ہے جس کا ازالہ کرنا مشکل ہو جائے گا اور پھر صرف عمران خان ہی نہیں‘ تمام جماعتیں ہی انتخابات کروانے کا مطالبہ کرتی نظر آئیں گی لیکن اللہ نہ کرے کہ کبھی ایسا ہو۔ جمہوریت چلتی رہنی چاہیے۔ اس کے لیے سیاسی کشیدگی اور اداروں میں موجود بے چینی کو ختم کرنا ہو گا۔ عمران خان کو بھی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نومئی کے واقعے پر قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ ایسا کرنے سے جمی سیاسی برف نہ صرف پگھلے گی بلکہ عمران خان کے سیاسی قد میں بھی اضافہ ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved