ہجوم میں تنہائی کتنی اذیت ناک اور تضاد سے بھرپور ہوتی ہے‘ اس کا اندازہ اقبال کے ان شعروں سے لگایا جا سکتا ہے، فرمایا:
ہے جنوں مجھ کو کہ گھبراتا ہوں آبادی میں مَیں
ڈھونڈتا پھرتا ہوں کس کو کوہ کی وادی میں مَیں؟
ہجوم میں اقبال کی تنہائی کا سبب کچھ اور تھا مگر کسی بھی آباد معاشرے کا ویران ہو جانا آج کے دور کا بہت بڑا المیہ ہے۔ ہم جو آزادی کی نعمت سے فیض یاب ہوئے تو ایک قوم ہونے کی وجہ سے، دشمن کے ناپاک قدموں کو اپنے وجود پر پڑنے سے روکنے میں کامیاب ہوئے تو ایک قوم ہونے کی وجہ سے لیکن جب یہ قوم ہجوم بن گئی تو سزا کے طور ملک کو دو حصوں میں اس طرح تقسیم کر دیا گیا کہ جسم لہو لہو ہو گئے اور وجود ریزہ ریزہ۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ ہجوم کچھ اس طرح بے ترتیب ہونا شروع ہو گیا کہ نہ معاشرہ رہا اور نہ ہی معاشرے کے آداب۔ وہ قوم جو ایک اللہ، ایک قرآن اور ایک رسول پر ایمان کے سبب وحدت کی لڑی میں پروئی ہوئی تھی‘ مختلف قسم کے پتھروں کی بنی ہوئی تسبیح کی شکل اختیار کر گئی۔ ایک پتھر ایک مسلک کی شکل اختیار کر گیا اور دوسرے نے کسی دوسرے کی شکل اختیار کر لی۔ اب تسبیح کے ان دانوں پر اللہ اور اس کے رسولؐ کا نام کم اور اپنے اپنے پتھروں کا نام زیادہ لیا جانے لگا۔ جب وحدت یعنی مذہب کی لڑی کمزور ہوئی تو پھر نظریات اور تعلیمات میں بھی دراڑ آ گئی اور پورا معاشرہ کمزور ہونے لگ گیا۔ اب وحدت کی جگہ نفرت پر مبنی فرقہ واریت نے لے لی اور ایک ایسا معاشرہ ابھر کر سامنے آیا جس سے ایک گھر‘ دوسرے گھر کا دشمن بن گیا۔
اس وقت وطن عزیز میں یہی صورتِ حال پروان چڑھ چکی ہے اور کوئی بھی اس کی اصلاح کیلئے کھڑا نہیں ہو رہا بلکہ جن سے یہ امید تھی‘ وہ خود اس دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ آج وطن عزیز پاکستان گروہی، لسانی، مسلکی، علاقائی اور سیاسی عصبیتوں میں گردن تک دھنس چکا ہے اور یہ سلسلہ اچانک اور چپکے سے اس نہج کو نہیں پہنچا بلکہ سب کے سامنے پنپتا اور پھلتا پھولتا رہا۔ ہجومِ معاشرہ میں افرادِ معاشرہ تنہا ہونا شروع ہوئے تو کسی نے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے، کسی نے بھی آگے بڑھ کر اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قوم کا ہر فرد تنہائی کے نشے کا عادی ہونے لگا اور یہ سلسلہ اس حد تک پھیلتا چلا گیا کہ تنہا تنہا رہنے کے بعد اب قوم کا ہر فرد دوسرے کے وجود کو ڈرائونا سایہ سمجھ کر بدکنے لگا ہے۔ غالبؔ کے الفاظ میں معاشرہ ''مردم گزیدہ‘‘ ہو گیا ہے۔
جہاں چھوٹی چھوٹی بات پر گلے کاٹے جائیں، عصمتوں پر ہاتھ ڈالا جانے لگیں، راہزن اور ڈاکو ہر گلی کے موڑ پر‘ ہر دروازے پر نظر آنے لگیں، جب گھر یا دفتر سے نکلنے والے اس خوف میں رہنے لگیں کہ کسی بھی لمحے تشدد اور جرم کا نشانہ بن جائیں گے، معاشرے کے ہر فرد کو یہ خوف کھائے جا رہا ہو کہ وہ محفوظ نہیں ہے، گھر کے اندر یا گھر کے باہر‘ کسی بینک یا دفتر یا دکان پر‘ راہ چلتے کسی سڑک پر لوٹ لیا جائے گا‘ مار دیا جائے گا اور یہ سوچ کر لوگ ایک دوسرے سے خوفزدہ رہنے لگیں تو کیا ہو گا؟ جب عبادت گاہوں میں آنے جانے والوں کو بھی شعلہ بار نظروں سے دیکھا جانا لگے اور جب عبادت گاہیں بھی محفوظ نہ رہیں، جہاں بوڑھے ماں باپ کو رحمت نہیں بلکہ زحمت سمجھا جانے لگے، جب خون کے رشتے مقام، مرتبے اور مفاد پہ قربان کیے جانے لگیں اور ہر فرد اپنے آپ کو قوم کا حصہ سمجھنا چھوڑ دے، جہاں ہر کوئی اپنی الگ تھلگ پہچان کو ہی اپنا فخر بنا لے اور اپنی ذات کو معاشرے سے علیحدہ کرکے بے ترتیب ہجوم کو اپنی ذات میں سمیٹ لے، وہاں یہی کچھ ہوتا ہے جو کچھ آج ہم دیکھ رہے اور بھگت رہے ہیں۔ ایسے معاشروں میں ہر کوئی دوسرے کو شک کی نظروں سے دیکھتا اور دوسرے سے خوف کھانا شروع ہو جاتا ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ جو کل تک نہیں تھا‘ آج ویسا کیوں ہو رہا ہے؟ جس کا کل تک تصور ہی نہیں تھا‘ وہی آج کی رِیت کیوں بن گیا ہے؟ کل تک اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سوار حضرات کسی راہ چلتے کو لفٹ مانگنے پر بڑی خوشی سے اپنے ساتھ بٹھا لیتے تھے لیکن آج سڑک پر جیسے ہی کوئی لفٹ مانگنے کا اشارہ کرے تو گاڑی اور موٹر سائیکل سوار فوراً کنی کترا کر بھاگ نکلتے ہیں۔ اس میں بچے‘ بوڑھے کی بھی کوئی تمیز نہیں کی جاتی۔ میں نے جب اپنے آپ سے یہ سوال کیا تو کوئی جواب نہ پا کر اپنے اردگرد نظریں دوڑائیں۔ مجھے ایسا لگا کہ ہر طرف سے ایک ہی آواز سنائی دے رہی ہے کہ ہم کیا کریں‘ جنہیںقدم قدم پر لٹیرے ملتے ہوں‘ خونخوار گدھ اور بھیڑیے ملتے ہوں‘ عُمال کی صورت میں کھال ادھیڑنے والے ہی نظر آتے ہوں اورکوئی ایسا ہاتھ بھی نظر نہ آتا ہو جو آگے بڑھ کر ان گِدھوں اور بھیڑیوں کو بوٹیاں نوچنے سے روک سکے‘ تو ایسے میں کوئی فرد کیا کرے؟ ایک زمانہ تھا کہ لٹیرے جب قافلوں کو روک کر لوٹتے تھے تو بادشاہ ان لٹیروں کو پکڑنے اور سخت سزا دینے کیلئے فوجیں بھیجتے تھے لیکن آج بادشاہ بننے والے ہمارے حکمران عوام سے بالکل بے نیاز ہو چکے ہیں۔ پہلے صرف کراچی میں سٹریٹ کرائمز کا سنا کرتے تھے‘ اب ہر چھوٹا بڑا شہر، ہر قصبہ، گائوں اور دیہات سٹریٹ کرائمز کا گڑھ بن چکے ہیں۔ دن دہاڑے دکانوں کو لوٹا جا رہا ہے، شہریوں کو گولیوں سے چھلنی کرنے میں بھی کوئی عار نہیں سمجھی جاتی۔
اب معاشرے کے مفاہیم بھی تبدیل ہو چکے ہیں۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیں‘ فخر سے بتایا گیا کہ فلاں فلاں لیڈر نے آزادیٔ وطن کی تحریک کی پاداش میں جیل کاٹی‘ فلاں خواتین نے اس تحریک میں جاندار کردار ادا کیا لیکن آج خواتین کو سیاسی اور انسانی حقوق کیلئے نکلنے پر گنوار اور بے شعور کہا جا رہا ہے۔ ایک رکن اسمبلی کا فرمانا ہے کہ احتجاج کرنیوالے ریٹائر افسروں کی پنشن اور مراعات بند کر دی جائیں اور جو بچے، نوجوان احتجاج کے لیے باہر نکلیں ان کو سرکاری نوکریاں اور بیرونِ ملک جانے کے لیے کیریکٹر سرٹیفکیٹس نہ دیے جائیں۔ کیا اظہارِ رائے کے حوالے سے ہم عالمی ضابطوں کی پابندی کر رہے ہیں؟ کیا ان پابندیوں کے مضمرات سے آگاہ ہیں؟
اگر علمِ نفسیات کی خوردبین سے دیکھا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ اس وقت قوم کا ذہن نارمل نہیں رہا، نارمل رہ سکتا بھی نہیں۔ ہر فرد کسی نہ کسی طرح کے اعصابی دبائو اور کھنچائو کا شکار ہے۔ تلخیوں اور غصے کو لمبے عرصہ تک دبائے رکھنے کے اثرات سے اکثر و بیشتر ذہنی امراض کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہر ایک نے مہنگائی، لوڈشیڈنگ، پٹرول ڈیزل کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں، ملاوٹ، رشوت، لوٹ کھسوٹ اور احساسِ تحفظ کی محرومی کے خلاف اپنا غم و غصہ دبا رکھا ہے۔ پورا معاشرہ مسلسل دبائو اور کھنچائو کے عمل سے گزر رہا ہے۔
آج پاکستانی قوم نے اللہ کے فرمان اور مصطفیﷺ کے پیغام کو فراموش کر کے اپنی خواہشاتِ نفس کے بتوں کو اپنا خدا بنا لیا ہے۔ کل تک پتھر کے بتوں کو پوجا جاتا تھا‘ آج پتھروں کے محلات‘ پلازوں‘ کرنسی نوٹوں کی پوجا کی جاتی ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ پاک نے فرمایا ''کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا رکھا ہے‘‘۔ (الفرقان: 43) اس بے مقصد مگر اندھا دھند دوڑ میں اپنے ہی والدین بوجھ بنی ہوئے ہیں اور صنم خانے میں سجی ہوئی مورتیاں زندگی سے پیاری ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved