جنوبی افریقہ کے دارالحکومت کیپ ٹائون کو ''First Drought City‘‘ ڈکلیئر کیا جا چکا ہے۔ جنوبی افریقہ کی حکومت نے اپنے شہریوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپریل 2023ء کے بعد سے انہیں پانی مہیا کرنے سے قاصر ہو گی۔ جنوبی افریقہ کا شہر کیپ ٹاؤن دنیا کا پہلا بڑا شہر بن گیا ہے جہاں سے جدید دور میں پینے کے پانی کی کمی واقع ہو گئی ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس کی طرف ماہرین ایک عرصے سے توجہ دلا رہے تھے۔ بظاہر تو دنیا کے 70 فیصد حصے پر پانی ہی پانی پھیلا ہوا ہے لیکن اس کا محض تین فیصد ہی پینے کے قابل ہے جو بڑھتی آبادی، آلودگی اور صنعتی پھیلائو اور دیگر وجوہات کی بنا پر ناکافی ثابت ہو رہا ہے۔ چند روز قبل عراق کے صدر عبداللطیف رشیدکا ایک بیان پڑھنے کو ملا تھا کہ ان کا ملک پانی کے ایک ''غیر معمولی‘‘ بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یہ خوراک کے تحفظ کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے اور خطرناک شرح سے نقل مکانی کا سبب بن رہا ہے۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کی آبی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر رشید نے بتایا کہ پڑوسی ممالک کی آبی پالیسیوں کی وجہ سے عراق کے بنیادی آبی وسائل میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے، جو عراق میں زرعی خوراک کے نظام، ماحولیاتی نظام اور سماجی استحکام کے لیے خطرات کا باعث ہے۔ یہ صرف ایک خطے یا کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس وقت دنیا میں کم از کم ایک ارب لوگوں کو پانی کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے اور 2.7 ارب انسان ایسے ہیں جنہیں سال کے کم از کم ایک مہینے میں پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنے ملک کی بات کریں تو پانی کے محکمے کے علاوہ گھروں میں پانی کی بورنگ کرنے والوں سے بہتر کون جانتا ہو گا کہ پانی کا لیول اب کس خطرناک حد تک گر چکا ہے۔ بدقسمتی کہہ لیجیے کہ پاکستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جس قدر پانی ضائع کیا جا رہا ہے‘ اس کا کسی کو احساس تک نہیں ہو رہا۔ گزشتہ ماہ معروف جریدے گارجین نے ایک رپورٹ شائع کی‘ جس کے مطابق سوئمنگ پول اور زیادہ پانی والے پودے ماحولیات کے لیے اتنا ہی بڑا خطرہ ہیں جتنا کہ بے ہنگم طریقے سے بڑھتی آبادی۔ اپنے اردگرد کا حال دیکھ لیجیے؛ گارڈن، باغیچے، گاڑیاں دھونے اور فرش صاف کرنے میں اس قدر پانی ضائع ہو رہا ہے کہ خدا کی پناہ۔ اس سلسلے میں کسی کو چاہے کتنا بھی برا لگتا ہو لیکن سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو پانی پر بات کرنے اور ڈیمز کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی بنا پر تاریخ ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھے گی۔ انہوں نے گھروں اور گاڑیوں کو بے ہنگم پانی کا ضیاع کرتے ہوئے دھونے سے روکنے کیلئے ایک منظم مہم چلائی اور قانون وضع کرنے کا حکم دیا۔ اس کیساتھ ساتھ دیامر بھاشا ڈیم کیلئے عوام سے چندہ کی اپیل کرتے ہوئے ان ڈیموں کی تعمیر شروع کرائی۔
پانی نہ صرف انسانی نشو و نما بلکہ بقا کے لیے بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ سورۃ الانبیاء کی آیت تیس میں ارشادِ ربانی ہے ''یہ زمین اور آسمان آپس میں ملے ہوئے تھے‘ پھر ہم نے انہیں جدا جدا کر دیا اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی‘‘۔ ہمارے بچپن میں اردو کی درسی کتب میں ایک پیاسے کوے کی کہانی پڑھائی جاتی تھی کہ جو سخت گرمیوں کے موسم میں پانی کی تلاش میں نڈھال ادھر ادھر مارا مارا پھر رہا تھا لیکن پانی کا ایک قطرہ بھی اسے کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اچانک کوے کی نظر کسی ویران سی جگہ پر رکھے ہوئے ایک گھڑے پر پڑی‘ وہ جلدی سے وہاں پہنچا اور اپنی چونچ گھڑے میں ڈال کر پانی پینے کی کوشش کی لیکن اس گھڑے کے اندر پانی کی سطح اس کی چونچ کی پہنچ سے بہت نیچے تھی۔ کوے نے مایوس ہونے یا ہمت ہار نے کے بجائے تھوڑی دور پڑی کنکریوں کے ایک ڈھیر کی جانب دیکھا اور پھر ایک ایک کر کے کنکریاں اپنی چونچ میں لے کر گھڑے میں ڈالنا شروع کر دیں۔ وہ کنکریاں گھڑے میں ڈالتا چلا گیا اور پھر وہ وقت آیا کہ پانی کی سطح اس قدر بلند ہوگئی کہ اس کی چونچ آسانی سے پانی کی سطح تک پہنچ گئی اور اس نے جی بھر کر پانی پینے کے بعد اڑان بھر لی۔ اس وقت ہمارے ہاں بھی پانی کی سطح اس قدر نیچے جا چکی ہے کہ بیشتر شہروں میں عنقریب صاف پانی کے پانی کا حصول ہی سب سے بڑا مسئلہ ہوا کرے گا مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم کوے کی طرح کنکریاں پھینک کر اس پانی کی سطح بلند نہیں کر سکتے۔
ہر سال دنیا بھر میں 22 مارچ کو ''ورلڈ واٹر ڈے‘‘ منایا جاتا ہے۔ پانی کی اہمیت اجاگر کرنے کیلئے دنیا بھر میں سیمینارز منعقد کیے جاتے ہیں‘ جن میں آبی ماہرین ہمیں پانی کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کرۂ ارض پر انسانی ضروریات کیلئے درکار پانی کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا اور پانی کے وسائل اور ذرائع کو بڑھانے کیلئے جنگی بنیادوں پر کام نہ کیا گیا تو عنقریب وہ وقت آ سکتا ہے کہ بنی نوع انسان کو اس سے نا قابلِ برداشت مسائل کا سامنا کرنا پڑ جائے اور اس سلسلے میں دنیا کا ہر ملک اپنی آبی ضروریات پوری کرنے کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے لیکن ایک ہم ہیں جو اپنے آبی وسائل سے غفلت کا مظاہرہ اسی طرح کیے جا رہے ہیں جیسے مغل بادشاہوں نے دلّی کی جانب بڑھتی ہوئی دشمن کی فوجوں کی خبروں پر ''ہنوز دلی دور است‘‘ والا رویہ اپنایا تھا۔ اگر وطن عزیز کی جانب نظر دوڑائیںتو جی چاہتا ہے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے سر کو شکر کے جذبے سے جھکائے رکھیں کہ اس پاک، عظیم اور لازوال ہستی نے ہمارے ملک کے محدود جغرافیے میں فطرت کے ہر رنگ اور ہر موسم کی رنگینیوں کا ایک جہاں آباد کر رکھا ہے۔ روہی سے لے کر پنجاب کے زرخیز میدانوں تک، کشمیر کی برف پوش اور سرسبز وادیوں سے دشتِ خاران تک، پوٹھوہار کے پتھریلے جمال سے کیچ کے بیابانوں تک، مہران کے جنگل بیلوں سے تھر کے خانہ بدوش ٹیلوں تک، بدین کی مسحور کن ڈھانڈوں سے سوات اور کالام کی مچلتی بل کھاتی وادیوں اور آبشاروں تک، قراقرم کی سنگلاخ برف پوش چوٹیوں سے مکران کے نیلگوں ساحلوں تک یہ ان گنت اور پیش قیمت تحفے دینے پر ہی قدرت نے بس نہیں کیا بلکہ وہ چاروں خوبصورت موسم دیے جو دنیا میں کم کم لوگوں کی قسمت میں ہی ہیں۔ ذرا سوچئے کہ اتنے موسم اور ایسی خوبصورت سرزمین دنیا میں کہیں اور اکٹھے مل سکتے ہیں؟ ساون بھادوں کی وہ برسات جس کے حسن و جمال اور دلفریبی پر شاعروں نے گیتوں کی بھر مار کر دی، وہ گرمی جس کا آم مٹھاس، ذائقے اور خوشبو میں بینظیر ہو، سردیوں کا وہ موسم جس پر بہار کا گمان گزرتا ہو، اور وہ بہار جس کی ہریالی، پھولوں کی مہک اور اردگرد پھیلی شادابی انسان کو مسحور کر کے رکھ دے، خدا کے عطا کیے گئے اس خطے کے جری، جفاکش اور بہادر لوگ، اس میں بہتی ہوئی نہریں، جھرنے، لہلہاتے کھیت، پھلوں اور پھولوں سے لدے باغات‘ یہ سب کچھ ہے لیکن آج وہ سدا بہار بہتے دریا نظر نہیں آ رہے۔ نجانے وہ کہاں کھو گئے۔ اپنوں کی کوتاہیوں اور عاقبت نااندیشی کے ساتھ ساتھ اغیار کی سازشوں سے آج بیاس، ستلج اور راوی صحرا بن چکے ہیں اور یہ خشک اور بے آب و گیاہ نظر آنے والے دریا ہماری مجرمانہ غفلت کا شاخسانہ ہیں۔ کیا ہم پیاسے کوے سے بھی کچھ نہیں سیکھ سکتے؟
پاکستان کا قابلِ استعمال تقریباً آدھا پانی ہمالیہ، قراقرم اور ہندو کش کے پگھلتے برف زاروں سے جبکہ آدھا بارشوں سے حاصل ہوتا ہے جن کا سب سے زیا دہ جوبن برسات میں ہوتا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق سال کی کل بارشوں سے حاصل ہونیوالے پانی کا تین چوتھائی جولائی سے ستمبر کے دوران ہمارے دریائوں سے گزرتا ہے۔ شدید بارشوں میں سیلاب کی صورتحال سے 36 ملین ایکڑ فٹ اضافی پانی تباہی مچاتا ہوا بحیرۂ عرب میں جا گرتا ہے۔ سمند رمیں گرنیوالے سالانہ پانی کی اوسط قیمت70 کھرب روپے سے بھی زائد بنتی ہے جو ہمارے ملک کے مجموعی قرضوں سے بھی زیادہ ہے۔ گزشتہ سال آنے والے سیلاب میں جو قیمتی پانی ضائع ہوا‘ اس کی مالیت اس سے کہیں زیادہ ہے جبکہ سیلاب سے ملک کی قیمتی املاک اور جانوں کے نقصانات الگ ہیں۔ پاکستان کی صورت میں جو جنتِ ارضی قدرت نے ہمیں عطا کی ہے اس کا مدارِ حیات آفرین پانی کے اعتدال پر ہے کہ کم پڑ جائے تو قحط اور اگر حد سے بڑھ جائے تو سیلِ عذاب۔ سندھ طاس جیسے معاہدوں کے با عث ماضی سے لڑنا ممکن نہیں لیکن یہ تو کیا جا سکتا ہے کہ پانی کے نئے ذخیرے اس طرح بنائے جائیں کہ برسات کا ذخیرہ شدہ پانی اگلے سال جون تک محفوظ کرلیا جائے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved