کسی بھی انسان کے لیے حقیقی مرکزِ نگاہ کیا ہے؟ آپ سوچیں گے بہت کچھ۔ بے شک‘ بہت کچھ ہے جس پر ہماری نظر ٹھہرتی ہے۔ اور نظر کا کیا ہے، وہ تو زندگی بھر جستجو کی نذر رہتی ہے۔ خواجہ الطاف حسین حالیؔ کہہ گئے ہیں ؎
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں
بات محض خوب سے خوب تر کی تلاش کے ذکر پر ختم نہیں ہو جاتی۔ حالیؔ اِسی غزل میں آگے کہتے ہیں ؎
ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں
ہم زندگی بھر خوب سے خوب تر کے لیے سرگرداں رہتے ہیں۔ یہ تلاش یا جستجو بلا جواز نہیں۔ ہر انسان زیادہ سے زیادہ کامیابی چاہتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ کامیابی کے کئی مفاہیم ہوسکتے ہیں۔ اِس میں دولت بھی شامل ہے اور تعلقات بھی۔ معاشی تگ و دَو اپنی جگہ مگر ہم زندگی بھر رشتوں اور تعلقات میں بھی گھرے رہتے ہیں۔ ایک طرف معاشی جدوجہد ہے اور دوسری طرف زندگی کا سماجی پہلو۔ کبھی کبھی یہ دونوں پہلو گڈمڈ ہو جاتے ہیں۔ یہ ہر انسان کا اپنا معاملہ ہے کہ وہ زندگی کے اِن دونوں پہلوؤں کو الگ الگ رکھنے کو ترجیح دیتا ہے یا اِنہیں ایک پلیٹ فارم پر لاکر جینے کی ہمت اپنے اندر پاتا ہے۔ معاملہ چاہے کچھ ہو، ہم بہت سی ترجیحات سے لڑتے رہتے ہیں۔ انتخاب کا مسئلہ ہر مرحلے میں درپیش رہتا ہے۔ اس مرحلے سے کامیاب گزرنے کیلئے انسان کو اچھی خاصی ذہنی تیاری کرنا پڑتی ہے۔ یہ کام محض سوچنے سے نہیں ہو جاتا۔
حالات کا کام ہے بدلتے رہنا۔ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ وقت کیا ہے؟ حالات‘ اور کیا؟ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ وقت ایک سا نہیں رہتا تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہ تسلیم کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں وقت کے مطابق بدلنا ہے۔ کیا ہم وقت کیساتھ ساتھ خود بدلتے رہتے ہیں؟ عمومی سطح پر ایسا نہیں ہوتا۔ معاشرے میں اکثریت اُن کی ہے جو حالات میں رونما ہونیوالی تبدیلیوں سے مطابقت رکھنے والی تبدیلیوں کو حرزِ جاں بنانے میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں لیتے۔ اِس کا نتیجہ؟ یہی کہ انسان الجھ کر رہ جاتا ہے۔ جو لوگ وقت کے ساتھ نہیں بدلتے وہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ زندہ رہنے میں اور ڈھنگ سے زندہ رہنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کوئی کتنے ہی دعوے کرے، کتنی ہی قسمیں کھاکر یقین دلائے کہ زندگی تو زندگی ہے، حقیقت یہ ہے کہ سب کے لیے زندگی ایک سا معاملہ نہیں ہوا کرتی۔ ہو بھی نہیں سکتی! اگر کوئی محض زندہ رہنے کو کافی سمجھے تو اُس کی مرضی۔ حقیقت یہ ہے کہ سانسوں کا تسلسل محض جینا ہے‘ زندگی نہیں۔ زندگی تو بہت بڑا معاملہ ہے۔ اِس میں تفکر بھی ہے اور تفاعل بھی۔ اوصافِ حمیدہ بھی درکار ہوتے ہیں اور عزم کی پختگی و بلندی بھی۔ سانسوں کا تسلسل زندگی کی محض بنیاد ہے۔ محض جینے کو کافی سمجھنے والوں کے لیے معاشرے میں کبھی حقیقی احترام نہیں پایا جاتا۔ عمومی سطح پر جینے والوں کے لیے کسی کے دل میں حقیقی احترام پیدا بھی کیونکر ہوسکتا ہے؟ لوگ اُسی کو اہم گردانتے اور سراہتے ہیں جو اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ بارآور بناکر اپنی زندگی کا معیار بلند کرتا ہے اور دوسروں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ڈھنگ سے جینے کے لیے ہمیں جس قدر لڑنا پڑتا ہے کیا ہم اُتنا لڑتے ہیں؟ عام طور پر ایسا ہوتا نہیں۔ لوگ شاندار زندگی بسر کرنے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ خواب بھی دیکھتے ہیں اور خوابوں کا تذکرہ کرکے اظہارِ تاسّف بھی کرتے رہتے ہیں مگر جو کچھ کرنا چاہیے‘ وہ نہیں کرتے۔ عام آدمی کے ذہن میں پائی جانیوالی ایک عمومی گِرہ یہ ہے کہ کہیں سے کوئی آئے گا اور تمام معاملات درست کردے گا۔ لوگ مسیحا کے انتظار میں رہتے ہیں۔ اِس انتظار سے اور کچھ ہو نہ ہو، اُن کے زخم ناسُور بن جاتے ہیں۔ کیا کوئی ہماری طرف سے لڑسکتا ہے؟ ایسا اگر پورے خلوص کے ساتھ ہوتا ہے تو صرف دین کے لیے یا پھر وطن کے لیے۔ عام حالات میں کوئی بھی آپ کا ساتھ کسی نہ کسی ذاتی مفاد کی خاطر ہی دینا پسند کرے گا۔ یہ انسانی فطرت کے ایک پہلو کا مظہر ہے۔ اپنے مفاد کو ہر حال میں ترجیح دینا انسانی فطرت و مزاج کا ناگزیر حصہ ہے۔ اگر آپ کو یہ بات بُری لگتی ہے تو اپنی سوچ کا جائزہ لیجیے۔ کیا آپ بھی صرف اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی تگ و دَو میں مصروف نہیں رہتے؟ اگر واقعی ایسا ہے تو اِس میں کچھ قباحت نہیں۔ ہاں‘ اپنے مفاد کے لیے دوسروں کا بُرا چاہنا بُری بات ہے۔ اِس سے گریز ناگزیر ہے۔
لوگ اپنے معاملات کی درستی کیلئے مدد کے خواہاں رہتے ہیں۔ مدد چاہتے رہنے کی ذہنیت انسان کو ناکارہ اور بزدل بنادیتی ہے۔ اِس ذہنیت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ کچھ کرنے کا موزوں ترین وقت گزر جاتا ہے اور بعد میں جو کچھ بھی کیا جاتا ہے وہ مطلوب نتائج پیدا کرنے میں بالعموم ناکام رہتا ہے۔ کسی بھی مشکل صورتحال کا سامنا بروقت کرنا ہوتا ہے۔ تاخیر سے معاملات صرف خرابی کی طرف جاتے ہیں۔ زندگی ہم سے بھرپور کردار یعنی کارکردگی کا تقاضا کرتی ہے۔ اپنا کام خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ آپ کے حصے کا کام کوئی اور کیوں کرنے لگا؟ اگر کوئی ایسا کرے گا تو اُس کے حصے کا کام کون کرے گا؟ ہر انسان کو آخرِکار اپنا بوجھ خود اُٹھانا پڑتا ہے۔ کسی بھی انسان کو بھرپور تعاون کا یقین دلانے والے بہت ہوتے ہیں۔ یہ نعرہ تو آپ نے بھی سُنا ہوگا کہ قدم بڑھاؤ‘ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ مگر ساتھ نبھانے والا وعدہ کرنے اور یقین دہانیاں کرانے والے موقع پڑتے ہی ایسے غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ لوگ ساتھ دیتے ہیں مگر ایک خاص حد تک اور وہ حد بہت جلد آ جاتی ہے۔ حالات سے لڑنے کیلئے ہمیں خود کچھ کرنا ہوتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں حالات سے لڑو، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ اگر واقعی ساتھ ہوتے تو ہمیں حالات سے لڑنا ہی نہ پڑتا!
ہمیں قدم قدم پر اپنی صلاحیت و سکت کا جائزہ لیتے رہنا ہے۔ ہماری مشکلات بڑھتی اور بدلتی رہتی ہیں۔ مشکلات کو شناخت بھی کرنا ہوتا ہے اور وہ بھی بروقت۔ تاخیر ہو جائے تو اُن کے بطن سے اضافی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ حالات سے لڑنے کیلئے قابلیت اور طاقت خود ہی پیدا کرنا پڑتی ہے۔ یہ کام آپ کیلئے کوئی اور کر ہی نہیں سکتا۔ کسی بھی کامیاب انسان کے حالات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ اُس نے جو کچھ بھی پایا ہے اپنے بَل پر پایا ہے۔ لوگوں نے ساتھ ضرور دیا ہوگا مگر ایک خاص حد تک۔ حتمی تجزیے میں تو خود ہی حالات کے سامنے سینہ سِپر ہونا پڑا ہوگا۔
آپ کی نظر میں بہت کچھ ہوگا۔ آپ دنیا کو دیکھ کر بہت کچھ سوچتے ہوں گے۔ بہت سوں کے بارے میں آپ کے مختلف اندازے ہوں گے۔ اپنے بارے میں آپ کا کیا اندازہ ہے؟ آپ کیلئے آپ کے اپنے وجود سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، گھوم پھر کر اپنے آپ کو دیکھنا پڑتا ہے، اپنے ہی وجود سے جُڑنا پڑتا ہے۔ قدرت سے عطا و کرم کا سوال کرتے رہنا ہے اور خدا کی دی ہوئی توفیق سے بھرپور تگ و دَو کے لیے تیار رہنا ہے۔ الف سے ی تک زندگی کا یہی معاملہ ہے۔ آپ ہی تو مرکزِ نگاہ ہیں۔ آپ کی زندگی اگر کچھ بنے گی تو آپ کے وجود سے۔ اگر آپ کچھ پائیں گے تو اپنے دم سے، اپنے بَل پر۔ کوئی آپ کو کچھ دے تو سکتا ہے مگر اُس کے جواب میں آپ کو بھی کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا۔ کسی کا احسان لیجیے گا تو اُس کے سامنے نظر جھکے گی اور جواباً کچھ نہ کچھ کرنا بھی پڑے گا۔ سوچ لیجیے کہ آپ کو کس طور جینا ہے۔ حالات سے خود لڑنا ہے یا دوسروں کی طرف سے مدد کا انتظار کرتے رہنا ہے۔ یہ انتظار معاملات کو تاخیر کے گڑھے میں دھکیل دیا کرتا ہے۔ حقیقی مفہوم میں قابلِ احترام زندگی وہی ہے جو اپنے بَل پر سنواری‘ بارآور بنائی جائے۔ اِس کے لیے درکار اعتماد اپنے وجود کو تسلیم کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved