ہیجانی سیاست کا ناگزیر نتیجہ تشدد ہے۔ تشدد سیاست کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ سوکھی لکڑی کو۔ سیاست میں ہیجان کسی نیک مقصد کے لیے پیدا کیا جائے یا برے مقصد کے لیے‘ دونوں کا انجام ایک ہی ہے۔ قومی سیاست اور تاریخ سے چند مثالیں آپ کی خدمت میں پیش کر تا ہوں۔
علامہ مشرقی ایک غیر معمولی ذہین شخصیت تھے۔ اُن کے مذہبی افکار اس وقت میرا موضوع نہیں۔ انہوں نے 'خاکسار‘ تحریک کی بنیاد رکھی۔ یہ ایک ہمہ جہتی تحریک تھی لیکن سیاست اس کا غالب ترین حصہ تھا۔ بے پناہ ذہانت کے باوصف انہوں نے اس تحریک کو تشدد کی راہ پر ڈال دیا۔ سیاسی کارکنوں کو جاں باز مجاہد بنایا۔ منزل کیا ہاتھ آنی تھی‘ اَن گنت نوجوانوں کی زندگیاں برباد ہو گئیں اور تحریک بھی ناکامی پر منتج ہوئی۔
شیخ مجیب الرحمن کو مشرقی پاکستان میں غیرمعمولی پذیرائی ملی۔ وہ دورِ طالب علمی سے سیاست میں تھے۔ انہیں بڑے اہلِ سیاست کی صحبت نصیب ہوئی۔ جانتے تھے کہ سیاست کیا ہو تی ہے۔ انہوں نے نوجوانوں میں ہیجان پیدا کیا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اس طرح ریاست سے اپنی بات منوا لیں گے۔ پھر وہ وقت آیا جب سیاست کی باگ ان کے ہاتھ سے نکل کر جنونیوں کے ہاتھ میں چلی گئی۔ شواہد موجود ہیں کہ وہ اس انجام کی طرف نہیں جانا چاہتے تھے مگر وہ یہ بھول گئے کہ جب ہیجان پیدا ہو جاتا ہے تو پھر انسانی شخصیت کی باگ عقل کے بجائے جذبات کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔ پھر لیڈر چاہے بھی تو مہار نہیں موڑی جا سکتی۔ شیخ مجیب الرحمن کی اس تحریک میں اَن گنت لوگ مارے گئے اور پھر ایک دن وہ خود بھی خاندان کے ساتھ قتل ہوگئے۔ ان کا قتل کسی اور نے نہیں‘ اُس ملک کی فوج نے کیا جس کی انہوں نے بنیاد رکھی تھی۔
تیسری مثال الطاف حسین صاحب کی ہے۔ وہ ایک ایسے طبقے کے مقبول راہ نما بن گئے جس کی تہذیب اور شائستگی کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ نرم خُواور نرم طبیعت۔ بات کرنا تو کوئی ان سے سیکھے۔ الطاف حسین نے اس طبقے کی نوجوان نسل میں ہیجان پیدا کیا۔ خود کو سیاسی رہنما کے بجائے ایک کلٹ بنا دیا۔ پارٹی کے صدر سے پیر اور مرشِد بن گئے۔ اس ہیجان نے نوجوانوں کو تشدد کی راہ دکھائی۔ انجام یہ ہوا کہ یہ طبقہ اپنی تہذیبی شناخت ہی سے نہیں گیا‘ اس کی پوری نسل برباد ہو گئی اور پاکستان کا سب سے بڑا دل اور ظرف رکھنے والا خوبصورت شہر‘ جو بے گھروں کے لیے پناہ گاہ تھا‘ خوف کی علامت بن گیا۔ لوگ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں رہے۔ خود الطاف حسین در بدر ہوگئے۔
بھٹو خاندان کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ بھٹو صاحب اور ان کا خاندان جب ریاستی تشدد کا شکار ہوئے تو اس کے دو ردِ عمل ہوئے۔ ایک وہ جو بے نظیر بھٹو صاحبہ کی صورت میں متشکل ہوا اور دوسرا مرتضیٰ بھٹو کی صورت میں سامنے آیا۔ بے نظیر صاحبہ نے سیاست کو تشدد کی راہ پر نہیں ڈالا۔ یوں پارٹی محفوظ رہی اور وہ اس کے بعد دوبار ملک کی وزیراعظم بنیں۔ افسوس کہ انہیں ایک ایسے تشدد نے نگل لیا جس میں ان کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ مرتضیٰ بھٹو صاحب نے تشدد کی راہ اپنائی۔ 'الذوالفقار‘ بنائی۔ نوجوانوں میں ہیجان پیدا کیا۔ پھر ایک دن آیا کہ خود ان کی بہن کے عہدِ اقتدار میں وہ بھرے شہر میں قتل کر دیے گئے۔ اس سے پہلے بے شمار لوگ بے گھر ہوئے اور جان سے بھی گئے۔
ایک مثال جماعت اسلامی کی بھی ہے۔ ایوب خاب مرحوم کے عہدِ آمریت میں جماعت اسلامی ریاستی تشدد کا نشانہ بنی۔ ایک سے زیادہ مواقع آئے کہ نوجوان جذباتی ہوں اور تشدد کی راہ اپنائیں۔ جماعت اسلامی کے اجتماع پر غنڈوں کو بھیج کر فائرنگ کروائی گئی۔ ایک کارکن اپنی جان سے گیا۔ جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی گئی۔ مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ اس سب کے باوصف مولانا مودودی نے جماعت کو تشدد کی راہ پر ایک قدم نہیں چلنے دیا۔
یہ واقعہ تو اہلِ سیاست کے تربیتی نصاب کا حصہ ہونا چاہیے کہ جلسے پر مولانا مودودی کی تقریر کے دوران فائرنگ ہوئی۔ خیمے جلا دیے گئے جن میں خواتین بھی تھیں۔ اس کے باوجود مولانا نے اپنی تقریر جاری رکھی اور اسے مکمل کیا۔ لاش پر چادر ڈال دی گئی اور جماعت کے لوگ صبر اور تحمل کے ساتھ اپنے جذبات کو تھامے رہے۔ اس سب کچھ کے باجود جماعت سرخرو رہی۔ عدالت نے پابندی کو غیرقانونی قرار دیا۔ مولانا کی سزا ختم ہوئی اور جماعت اسلامی آج بھی موجود ہے۔ مولانا مودودی ایک لمحے کے لیے اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ان کا شمار اس امت کے اہلِ عزیمت میں ہوتا ہے۔ تاہم انہیں اللہ نے بصیرت سے بھی نواز رکھا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ جو لوگ ان کے پیچھے چلتے ہیں‘ ان کی جان و مال کو اگر وہ خطرے میں ڈالیں گے تو انہیں اللہ کے حضور میں اس کا جواب دینا ہوگا۔ سیاسی کارکن کیڑے مکوڑے نہیں ہوتے کہ لیڈر جب چاہے انہیں اپنے مفادات کے قدموں تلے روند ڈالے۔
عمران خان صاحب کو یہ بات سمجھانے کی بہت کوشش کی گئی۔ صرف میں نے اس پر اَن گنت کالم لکھے اور ان کے جذباتی کارکنوں کی گالیاں کھائیں۔ صرف اس انجام سے بچانے کے لیے جس سے وہ اب دوچار ہو چکے‘ میں اس بات کو دہراتا رہا کہ نوجوانوں میں ہیجان پیدا کرنے کا نتیجہ اچھا نہیں ہو سکتا۔ افسوس اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ خان صاحب کی خود پسندی اور نرگسیت ان کے اور عقل وخرد کے مابین دیوار بن گئی۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنی منزل کھوٹی کر لی۔
خان صاحب کا سیاسی کردار تو ختم ہوا۔ مجھے فکر ان عام لوگوں کی ہے جو آج گرفتار ہیں۔ ریاست چاہے تو ان کو سیدھے راستے پر ڈال سکتی ہے کہ اس سارے قضیے میں انہوں نے اپنی عقل سے نہیں سوچا۔ ریاست چاہے تو انہیں ہمیشہ کے لیے ریاست مخالف بھی بنا سکتی ہے۔ عام سیاسی کارکنوں پر ریاستی تشدد ان کے دل میں ہمیشہ کے لیے ریاست کے خلاف نفرت پیدا کر دے گا اور یہ ریاست کے مفاد میں نہیں۔ اس لیے لازم ہے کہ ریاست اس موقع پر تشدد کی منصوبہ بندی کرنے والوں اور عام لوگوں میں فرق کرے۔ پہلا طبقہ تو سخت سزا کا مستحق ہے لیکن دوسرا طبقہ معافی اور درگزر کا سزاوار ہے۔
ریاست کو اپنے شہریوں کے مفاد میں سوچنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی انہیں گمراہ کر رہا ہے تو انہیں اس گمراہی سے بچانے کی کوشش بھی کی جانی چاہیے۔ آج جو لوگ گرفتار ہیں‘ لازم ہے کہ ان کی ذہن سازی کا اہتمام ہو۔ انہیں یہ موقع دیا جائے کہ وہ اپنے خیالات پر نظر ثانی کریں۔ انہیں یہ بات سمجھائی جائے کہ وہ اپنے سیاسی خیالات اور لیڈر کے انتخاب میں آزاد ہیں؛ تاہم انہیں یہ بات ضرور سمجھنی چاہیے کہ جو اِن میں ہیجان پیدا کرتا اور انہیں تشدد کی راہ پر ڈالتا ہے‘ وہ ان کا خیر خواہ نہیں ہے۔
ریاست نے یہ موقع ٹی ٹی پی کو دیا۔ تحریکِ انصاف کے کارکن تو ان سے کہیں بہتر ہیں۔ ریاست نے مذہبی ہیجان کے شکار لوگوں کی نفسیاتی بحالی کے لیے ادارے قائم کیے۔ میری تجویز ہوگی کہ موجودہ ہنگامہ آرائی میں مبتلا نوجوانوں کو جیلوں کے بجائے ان مراکز میں بھیجنا چاہیے اور ان پر واضح کرنا چاہیے کہ ان سے کیا غلطی ہوئی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ تشدد کی سیاست یہیں پر ختم ہو تو پھر تشدد کے منصوبہ سازوں اور عام آدمی میں فرق کرنا ہوگا۔ منصوبہ ساز اگر شدید سزا کے مستحق ہیں تو عام کارکن ہمدردی کا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved