اب بھارتی سیاست میں اور خصوصاً انتخابی سیاست میں ریاستوں (جنہیں ہمارے ہاں صوبوں کا نام دیا جاتا ہے) کے اثرورسوخ میں اضافہ ہو چکا ہے۔ اب انتخابی نتائج کا دارومدار بہت حد تک ریاستوں کے اندر پائے جانے والے سیاسی محرکات Political Dynamics)) پر ہے اور ایسی ریاستیں جہاں طاقتور علاقائی سیاسی پارٹیاں موجود ہیں وہاں انتخابات میں ان کی اہمت کافی زیادہ بڑھ چکی ہے مثلاً مغربی بنگال میں ممتا بینر جی کی ترینامول کانگرس، تامل ناڈو میں جیا للیتا کی اے آئی ڈی ایم کے پارٹی اور پنجاب میں شرومنی اکالی دَل۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ 1989ء کے بعد بھارت میں جتنی بھی حکومتیں تشکیل پائیں، وہ سب کی سب مخلوط حکومتیں تھیں اور یہ رجحان اب بھی جاری ہے۔ پاکستان کی طرح بھارت میں بھی سیاسی اقتدار پر ایک پارٹی کی اجارہ داری قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ اب انتخابی سیاست میں سیاسی پارٹیوں کو صرف اپنی ہی پارٹی کے پروگرام یا منشور پر فوکس نہیں کرنا پڑتا بلکہ ان پارٹیوں کے نظریات اور ترجیحات کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا پڑتا ہے جن سے مل کر انتخابات میں حصہ لیتی ہیں یا انتخابات کے بعد مخلوط حکومت تشکیل دیتی ہیں۔ اس کی بہترین مثال 1999ء میں چلائی گئی بی جے پی کی انتخابی مہم ہے۔ انتخابات کے دوران بی جے پی نے رام مندر کی تعمیر،پورے ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ اور کشمیر کو ایک سپیشل درجہ دینے والے آئینی آرٹیکل370کی منسوخی کا وعدہ کیا تھا لیکن اقتدار میں آکر یہ جماعت ان میں سے کسی پر بھی عمل درآمد نہ کر سکی‘ کیوں کہ بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل علاقائی سیاسی پارٹیوں کا موقف ان تینوں ایشوز پر مختلف تھا۔ اب بھی خواہ نریندرا مودی ہو یا راہول گاندھی انہیں انتخابات میں زیادہ سے زیادہ ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنے روایتی موقف میں تبدیلی لانا پڑے گی۔ مثلاً نریندرا مودی نے نامزدگی سے پہلے ہی خود کو سنگ پری وار (ہندو انتہا پسند حلقوں)کا نمائندہ بنا کر بھارتی جنتا کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو نریندرا مودی کی وزارت عظمیٰ کے لیے نامزدگی میں راشٹریہ سوائم سیوک سنگ(R.S.S)کا بڑا ہاتھ ہے اور نریندرا مودی ان عناصر کو خوش کرنے اور انتخابات میں ان کی حمایت کو یقینی بنانے کے لیے یہ موقف اختیارکیے ہوئے ہے۔ دوسرا ہندو انتہا پسندی کا نعرہ گجرات میں بہت کامیاب رہا ہے۔اس کی وجہ سے گجرات کا ہندو ووٹ کانگرس کو جانے کی بجائے نریندرا مودی کے بیلٹ بکسوں میں پڑتا آیا ہے‘ گجرات میں تو نریندرا مودی جیسی شخصیت کامیاب ہو سکتی ہے لیکن بڑے کینوس یعنی بھارت جیسے وسیع ملک پر اس اصول کا اطلاق مشکل ہے۔ اس لیے کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) کے سیکرٹری جنرل شری کاراٹ نے اپنے ایک حالیہ بیان میں اس تاثر کو رد کر دیا ہے کہ2014ء کے انتخابات پارلیمانی نہیں بلکہ صدارتی انتخابات محسوس ہوتے ہیں۔ان کے خیال میں یہ انتخابات دو شخصیتوں کے درمیان نہیں بلکہ دو پارٹیوںکے نظریات اور پروگراموں کے درمیان مقابلے کی حیثیت رکھتے ہیں۔مسٹر کاراٹ نے نریندرا مودی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں بھارت کے بڑے بڑے سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کے گروپوں(Corporates)کے مفادات کا علم بردار ٹھہرایااور کہا کہ اسی وجہ سے بھارت کے تقریباً تمام صنعتکار نریندرا مودی کی حمایت کر رہے ہیں کیوں کہ کارپوریٹ مفادات کو تحفظ دینے کی جو پالیسی اس نے گجرات میں اختیار کر رکھی ہے،اسی کو وہ پورے بھارت پر لاگو کرنا چاہتا ہے۔لیکن کمیونسٹ پارٹیوں کے ساتھ دیگر علاقائی پارٹیاں‘ یعنی ترینا مول کانگرس، اے آئی ڈی ایم کے، ملائم سنگھ یادیو کی سماج وادی پارٹی اور مایا وَتی کی بھوجن سماج پارٹی‘ بی جے پی کی طرح کانگرس کے پالیسوں سے بھی نالاں ہیں۔ نریندرا مودی نے بی جے پی کی نامزدگی حاصل کرنے کے بعد ’’نئی سوچ، نئی امید‘‘ کا نعرہ لگایا ہے۔کانگرس اور خصوصاً ڈاکٹر من موہن سنگھ کی موجودہ حکومت پر اس کی تنقید کا محور معیشت کی زبوں حالی،کرپشن کے خاتمے میں ناکامی،مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ اور چین اور پاکستان کی مبینہ ’’دراندازیوں‘‘ کے خلاف کمزور پالیسی ہے۔نریندرا مودی کے مطابق یو پی اے (UPA)کی دوسری مدت کے دوران غلط پالیسیوں کی وجہ سے بھارتی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ایک زمانہ تھا جب بھارت کی سالانہ شرح نمود(Annual Growth Rate)دس فیصد تک پہنچ چکی تھی اور ایشیا میں چین کے بعد بھارت کو سب سے زیادہ تیز رفتار معاشی ترقی والا ملک سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب ترقی کی یہ رفتار4فیصد تک نیچے آچکی ہے۔اس طرح چند برس پیشتر بھارتی کرنسی کو دنیا کی مضبوط ترین کرنسی سمجھا جاتا تھا‘ لیکن گزشتہ ماہ ایک ڈالر کے مقابلے میں بھارتی روپے کی قیمت65تک جا پہنچی تھی۔پٹرول،ڈیزل اور گھریلو استعمال میں آنے والی گیس کی قیمتوں میں اضافے نے نریندرا مودی کے کام کو اور بھی آسان بنا دیا ہے اور وہ ان معاشی مشکلات کی تمام تر ذمہ داری کانگرس کی حکومت پر ڈال رہے ہیں۔ اس طرح یو پی اے کے دوسرے دور 2014ء2009-ء میں کرپشن کے مختلف سکینڈل منظرِ عام پر آنے سے کانگرس حکومت کی کافی بدنامی ہوئی ہے۔اس سال کے آغاز میںاور پھر اگست کے اوائل میں کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر افسوسناک واقعات کی وجہ سے پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کا جو ماحول پیدا ہوا،نریندر امودی نے اسے بھی اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔اپریل میں جب چین کے چند فوجی جوان لداخ میں بھارت کی جانب سرحد پار آگئے تھے تو اس واقعہ کی آڑ میں بھی بی جے پی نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومتی پالیسی کو ناکافی سمجھ کرسخت اقدام کا مطالبہ کیاتھا۔نریندرا مودی اپنی تقاریر میں کانگرس حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے دعویٰ کر رہے ہیں کہ بھارت کے ہمسایہ ممالک یعنی چین،پاکستان اور بنگلہ دیش کے بارے میں کمزوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے،ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت نے بھارت کی قومی سلامتی کو دائو پر لگا دیا ہے۔ نریندرا مودی کے مقابلے میں راہول گاندھی نے ابھی تک اپنی بھر پور انتخابی مہم کا آغاز نہیں کیا۔البتہ کانگرس کا نائب صدر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے جو بیانات دیئے ہیں ان سے ظاہرہوتا ہے کہ راہول گاندھی بھارت کے نوجوان طبقے کو درپیش مسائل پر زیادہ توجہ دے کر، بھارت کی نوجوان نسل کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ 42سالہ راہول کا مقابلہ 62سالہ نریندرا مودی سے ہے اور مختلف سروے رپورٹوں کے مطابق مقبولیت کے میدان میں مودی کو راہول پر برتری حاصل ہے۔لیکن ابھی انتخابات میں آٹھ ماہ کا عرصہ باقی ہے اور انتخابی سیاست کے معرکے کافیصلہ ہونے تک یہ ایک بہت بڑی مدت ہے۔اس لیے ابھی یہ کہنا دشوار ہے کہ بھارت کا آئندہ وزیراعظم کون ہو گا؟ نریندرا مودی یا راہول گاندھی۔ (ختم)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved