اسی طرح مضارَبت کے بارے میں مسلّمہ فقہی اصول سے ہٹ کر آپ نے اپنے علاقے اوکاڑہ؍ ساہیوال کی تجارتی منڈیوں میں رائج اس اصول پر مبنی فتویٰ دیا: ''مضارَبت میں نقصان میں رَبُّ المال اور مُضارِب دونوں شریک ہو سکتے ہیں‘‘۔ آپ نے عرف کے حاکم ہونے پر دلائل کا انبار لگایا اور پھر اُس عہد کے فقیہِ ملّت علامہ سیدابو البرکات احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کی توثیق فرمائی۔ علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ''دوسرا معرکہ آرا مسئلہ انتقالِ خون کا تھا، اُس عہد کے مفتیانِ کرام بالعموم انتقالِ خون کو ناجائز کہتے تھے، لیکن میں سوچتا تھا کہ آج کے زمانے میں انتقالِ خون علاج معالجے کی ایک ناگزیر ضرورت ہے، جب کسی شخص کا بڑا آپریشن ہوتا ہے، جب کوئی کسی گاڑی کے حادثے میں زخمی ہو جاتا ہے اور جسم کابہت سا خون بہہ جاتا ہے، تو اس کے علاج اور بعض اوقات اس کی جان بچانے کے لیے انتقالِ خون (یعنی کسی دوسرے شخص کا خون اس کے جسم میں پہنچانا) ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس طرح تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کا علاج صرف یہی ہے کہ ان کا سارا خون تبدیل کر دیا جائے۔ ہمارے عام علما نے اس مسئلے پر غور و فکر نہیں کیا، بلکہ روایتی انداز میں انتقالِ خون کو ناجائز کہتے رہے، میں سوچتا تھا کہ ہمیں اس انسانی مسئلے پر غورکرنا چاہیے، تاآنکہ میں نے پہلی بار اس کے جواز پر حضرت فقیہِ اعظم کا مفصل فتویٰ پڑھا اور میری ذہنی خلش دور ہوئی، میں اس مسئلے پر مسلسل مطالعہ اور غور و فکر کرتا رہا، بالآخر شرح صحیح مسلم میں مَیں نے اس مسئلے کو بہت شرح و بسط کے ساتھ لکھا، لیکن یہاں بھی میری فکری رہنمائی کا سبب حضرت فقیہ اعظم کا فتویٰ ہی بنا تھا۔
اِسی طرح بعض مسائل میں توارد اور توافق بھی ہوا، مثلاً: رمضان شریف میں تنہا عشا کے فرض پڑھنے والے کے متعلق ہمارے ہاں یہ مشہور ہے کہ وہ امام کی اقتدامیں نمازِ وتر نہیں پڑھ سکتا، اس مسئلے میں شروع سے میری رائے یہی رہی ہے کہ ایسا شخص امام کے پیچھے وتر پڑھ سکتا ہے، پھر میں نے دیکھا کہ فتاویٰ نوریہ میں بھی یہی مسئلہ اِسی طرح لکھا ہے اور میں نے اس کے بعض دلائل سے استفادہ بھی کیا اور شرح صحیح مسلم میں یہ مسئلہ بہت تفصیل سے لکھا، بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ حضرت سید پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ تعالیٰ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔
حضرت فقیہ اعظم کے نام سے میں پہلی بار اس وقت متعارف ہوا، جب طالب علمی میں دورانِ سبق ایک بار یہ مسئلہ چھڑ گیا کہ اگر امام کی آواز لائوڈ سپیکر کے ذریعے مقتدیوں تک پہنچے تو آیا اس امام کی اقتدا میں نماز جائز ہے یا نہیں، مجھے بتایا گیا کہ اس مسئلے پر حضرت فقیہِ اعظم کا رسالہ ''مُکَبِّرُ الصَّوْت‘‘ چھپا ہوا ہے (یہ رسالہ فتاویٰ نوریہ جلد اول میں ہے)، لوگ اس مسئلے پر اختلاف تو کرتے ہیں، لیکن اس رسالے کے دلائل کا جواب پیش کرنے سے قاصر ہیں اور یوں حضرت کی علمی وجاہت مجھ پر منکشف ہوئی اور مانعین میں سے کوئی شخص تاحال اس رسالے کے دلائل کا جواب نہیں لکھ سکا، وہ اُن چند علما میں سے تھے، جنھوں نے اولین دور میں اس پر مفصل فتویٰ تحریر فرمایا اوردلائل و براہن سے اس کا جواز تحریر فرمایا۔
حضرت فقیہ اعظم 10جون 1914ء میں موضع سوجیکی، ضلع اوکاڑہ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گھر سے حاصل کی، بعد ازاں مختلف دینی مدارس میں زیرِ تعلیم رہے، نومبر1933ء میں دارالعلوم مرکزی انجمن حزب الاحناف لاہور سے سندِ فراغت حاصل کی، 1938ء میں دیپالپور ضلع اوکاڑہ کے نواح میں دارالعلوم حنفیہ فریدیہ قائم کیا، جو 1945ء میں بصیرپور منتقل ہوگیا، ساری زندگی درس و تدریس اور افتاء کے شعبہ میں خدمات انجام دیتے رہے، 1940ء میں آپ مرکزی دارالعلوم حزب الاحناف کے سالانہ اجلاس میں شامل ہوئے تو حضرت صدر الافاضل علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، آپ کے دستِ اقدس پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت سے مشرف ہوئے، اُنہوں نے فرمایا: مولانا! آپ کا وظیفہ درس و تدریس ہے، آپ نے اسی وظیفے کو تادم حیات حرزِ جاں بنائے رکھا اور 15 اپریل 1983ء کو بروزِ جمعۃ المبارک وصال فرمایا۔
خواتین کی تعلیم کا مسئلہ: حضرت فقیہ اعظم قدس سرہ سے سوال کیا گیا: اعلیٰ حضرت مجدد مائۃ حاضرہ نے گھڑی کے چین اور عورتوں کی کتابت اور انگریزی لباس وغیرہ کو ناجائز لکھا ہے اور آپ نے ان کو جائز لکھا ہے، کیا وہ فتویٰ وقتی اور عارضی تھا اور اب یہ امور جائز ہو گئے ہیں، حضرت فقیہ اعظم قدس سرہ نے اس کے جواب میں لکھا : (1) ہاں مجدِّد وقت کی ایسی ہدایات و تصریحات (جو کتاب وسنت سے مستنبط ہیں) کی روشنی میں یوں ہو سکتا ہے، بلکہ عملاً خود مجددِ وقت ہی اس کا سبق بھی دے چکے ہیں، مگر شرط یہ ہے کہ خالصا لوجہ اللہ تعالیٰ ہو، تعجب ہے کہ خود مستفتی صاحب کو روزِ روشن کی طرح معلوم ہے کہ حضرت امام اعظم کے محققانہ اقوال و فتاوائے شرعیہ کی موجودگی میں حضرات صاحبین وغیرہما اجلہ تلامذہ بلکہ متاخرین کے بھی بکثرت ایسے اقوال و فتاویٰ ہیں جو ان کے خلاف ہیں، جن کی بنا قول صوری و ضروری وغیرہ اصول ستہ پر ہے، جس کی تفصیل فتاویٰ رضویہ (ج: 1، ص: 358) وغیرہا میں ہے، بلکہ یہ بھی اظہر من الشمس ہے کہ خود ہمارے مجدد برحق کے صدہا نہیں، بلکہ ہزار ہا تَطَفُّلَات (اسے اردو محاورے میں چھوٹا منہ بڑی بات کہتے ہیں) ہیں جو صرف متاخرین نہیں، بلکہ متقدمین حضرات فقیہ النفس امام قاضی خاں وغیرہ کے اقوال و فتاویٰ شرعیہ پر ہیں، جن میں اصول ستہ کے علاوہ سبقت قلم وغیرہ کی صریح نسبتیں بھی مذکور ہیں اور یہ بھی نہاں نہیں کہ ہمارے مذہب مہذب میں مجددین حضرات معصوم نہیں، تو تطفلات کا دروازہ اب کیوں بند ہو گیا، کیا کسی مجدد کی کوئی ایسی تصریح ہے یا کم از کم اتنی ہی تصریح ہو کہ اصول ستہ کا زمانہ اب گزر گیا، لہٰذا لکیر کا فقیر بننا فرض عین ہو گیا، کیا وہ تازہ حوادثات و نوازل جن کی بابت احکامِ شرعی صراحت کے ساتھ موجود نہیں ہیں، اُن کے بارے میں ہم بالکل صُمٌّ بُکْمٌ بن جائیں اور عملًا اغیار کے ان کافرانہ مزعومات کی تصدیق کریں کہ معاذ اللہ اسلام فرسودہ مذہب ہے، اس میں روز مرہ ضروریات زندگی کے جدید ترین ہزار ہا تقاضوں کا کوئی حل ہی نہیں، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ۔
اسی ایک جواب سے دیگر سوالات کے جوابات بھی واضح ہیں، البتہ یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ کسی ناجائز اور غلط چیز کو اپنے مفاد اور ہوائے نفس کے تحت جائز و مباح کہنا ہرگز ہرگز جائز نہیں، مگر شرعاً اجازت ہو تو عدمِ جواز کی رَٹ لگانا بھی جائز نہیں ہے، الغرض ضد اور نفس پرستی سے بچنا نہایت ہی ضروری ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے ذمہ دار علمائے کرام سر جوڑ کر بیٹھیں اور ہٹ دھرمی اورنفسانیت سے بلند ہوکر محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ایسے نئے پیش آمدہ مسائل کی بابت فیصلے کریں، مثلًا: وہ لباس (کوٹ پینٹ، ٹائی وغیرہ) جوکبھی کفار یا فجار کا شعار ہونے کے باعث ناجائز تھا، کیا اب بھی یہ شعار قائم ہے، اگر جواب اثبات میں ہے تو ناجائز کا حکم لگانے کا جواز موجود ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب یہ کسی مذہب و ملّت کاشعار نہیں ہے، بلکہ یہ عالمی سطح پر بلاتمیزِ مذہب و ملّت رائج ہے، تواب اس کی بابت ''تشبّہ بالغیر‘‘ کے اصول کے تحت عدمِ جواز کا فتویٰ لگانا قرینِ عقل و قیاس نہیں ہے، کیا اس طرح آپ بھاری تعداد میں مسلمانوں پر فسق و فجور کا فتویٰ لگانا حکمتِ دین کے منافی نہیں ہے، اگر ہم وسعتِ نظر اور وسیع تر دینی حکمت کے تقاضوں کو ملحوظ نہیں رکھیں گے تو یہ مسلمانوں کے درمیان انتشار اور علماء سے تنفّر کا باعث بنے گا، مجھے امید ہے کہ اب نہیں تو وہ وقت دور نہیں جب علمائے کرام اور مفتیانِ عظام بالآخر اس حکمت کو قبول کریں گے اور اپنی رائے کو تبدیل فرمائیں گے‘‘ (فتاوی نوریہ، ج: 3، ص: 532 تا 533، بتصرّف)۔
امامِ اہلسنت امام احمد رضا قادری قُدِّسَ سِرُّ العزیز حضرت سید مہدی حسن مارہرہ کے سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: ''حضور عورتوں کو لکھنا سکھانا شرعاً ممنوع و سنتِ نصاریٰ و فتح بابِ ہزاراں فتنہ اور مستان سرشار کے ہاتھ میں تلوار دینا ہے‘‘۔
فقیہ اعظم مفتی نور اللہ نعیمی نے عورتوں کوکتابت کی تعلیم کے جوازاور فی زمانہ اس کے ضروری ہونے پر ''اَلْاِفْتَاء فِیْ جَوَازِ تَعْلِیْمِ الْکِتَابَۃِ لِلنِّسَآء‘‘ نامی تحقیقی رسالہ تصنیف فرمایا ہے، اس رسالے میں ایک مقام پر وہ لکھتے ہیں: پھر حدیث صحیح سے بھی یہ مسئلہ تعلیم الکتابہ للنساء ثابت ہے، مسند احمد بن حنبل (ج: 6، ص: 372)، سنن ابو دائود (ج: 2، ص: 186)، مستدرک حاکم (ج: 4، ص: 57)، سنن بیہقی (ج: 9، ص: 349) میں حضرت شفا بنت عبداللہ رضی اللہ عنہا سے بکلمات متقاربہ ثابت ہے کہ حضور پُرنورﷺ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور میں بھی حاضر تھی تو مجھے فرمایا: اَلَا تُعَلِّمِیْنَ ہٰذِہٖ رُقْیَۃَ النَّمْلَۃِ کَمَا عَلَّمْتِیْہَا الْکِتَابَۃَ، کیا تو اس کو رقیۃ النملۃ کی تعلیم نہیں دیتیں، جیسے تم نے اس کو کتابت کی تعلیم دی ہے، حاکم نے کہا: یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے‘‘ (فتاویٰ نوریہ، ج: 3، ص: 542، بتصرف)۔
علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ''اللہ تعالیٰ حضرت علامہ محمد نور اللہ بصیر پوری رحمہ اللہ کی قبر کو نور سے معمور فرمائے، انہوں نے سب سے پہلے تعلیمِ کتابتِ نسواں کے جواز پر ایک مبسوط، مبرہن اور مدلل رسالہ تحریر فرمایا اور ہم ایسے طالبانِ علم کے لیے تحقیق اور تدقیق کی راہیں کشادہ کر دیں‘‘ (شرح صحیح مسلم، ج: 7، ص: 973)۔ چنانچہ علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ تعالیٰ نے علامہ محمد نور اللہ بصیر پوری رحمہ اللہ تعالیٰ کی فکر سے استفادہ کرتے ہوئے اس مسئلے کو مزید ناقابلِ تردید دلائل و شواہد سے مزیّن اور مُدَلَّل کیا اور آج الحمدللہ علیٰ احسانہٖ دینی تنظیمات کے تحت ہزاروں کی تعداد میں طالبات کے مدارس قائم ہوئے اور عالمات و فاضلات، مبلّغات، مفتیات اور دینی علوم کے مختلف شعبوں میں متخصِّصات تیار ہو رہی ہیں، فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًا۔
یہاں یہ امر واضح رہے کہ ہمارے اکابر یا معاصر علماء نے اگر اپنے تفقّہ و اجتہاد اور دلائل کی روشنی میں ہمارے موقف سے کوئی متضاد رائے قائم فرمائی ہے، تو وہ نفسانیت پر مبنی نہیں ہے، یہ آراء انہوں نے اپنی علمی فقاہت و ثقاہت اور دلائل کی بنیاد پر قائم کیے ہیں اور وہ اس پر عنداللہ ماجور ہوں گے، ہمیں یقین ہے کہ اگر ہمارے اکابر اس دور میں حیات ہوتے تو وہ یقینا اس دور کے تقاضوں کا ادراک کرکے ہمارے ائمۂ کرام کی سنّت کے مطابق اپنی سابق آراء سے رجوع فرما لیتے، کیونکہ یہ منصوص مسائل نہیں ہیں، بلکہ مجتہد فیہ مسائل ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved