تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     20-05-2023

’’سامان پسندی‘‘

انسان کا سامان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ بہت کچھ ایسا ہے جو ہم کسی جواز کے بغیر اپنے ''ضروری‘‘ سامان میں شامل کرتے رہتے ہیں۔ دنیا میں ہمیں خالی ہاتھ بھیجا جاتا ہے مگر جب یہاں سے رخصت ہوتے ہیں تب ہمارے گرد سامان کا ڈھیر لگا ہوتا ہے اور ذہن اُس سے بھی زیادہ بھرا ہوتا ہے۔ انسان کا مزاج ہے ہی ایسا کہ وہ زیادہ سے زیادہ مال سمیٹنا چاہتا ہے۔ بہت کچھ پانے کی خواہش انسان کو بے صبرا بنادیتی ہے۔ وہ بیشتر معاملات میں دھیر دھرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ بے صبرے پن کا شکار ہونے والے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ اُن کی طرزِ فکر و عمل سے متعلقہ معاملات الجھتے چلے جاتے ہیں۔
زندگی بسر کرنے کا عمومی ڈھنگ ایسا ہے کہ ہم چھوٹی عمر ہی سے بیگیج کے عادی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہماری خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے پاس بہت کچھ ہو۔ اِس کے نتیجے میں ایسی بہت سی چیزیں بھی ہمارے سامان کا حصہ بنتی چلی جاتی ہیں جو بظاہر ہمارے لیے کسی مصرف کی نہیں ہوتیں۔ اگر کوئی چیز بہت معیاری اور کام کی ہے لیکن ہمارے لیے کسی کام کی نہیں تو پھر اُسے سنبھال کر رکھنے کی ضرورت نہیں۔ اچھا ہے کہ وہ چیز ایسے شخص کو دے دی جائے جو اُس سے استفادہ کرکے اپنے معاملات کو کسی حد تک بہتر بناسکتا ہو۔ جو کچھ بے مصرف پڑا ہے وہ کسی کو دینے کا چلن ہمارے ہاں عام نہیں۔ لوگ بہت کچھ سمیٹ کر رکھتے ہیں۔ کوئی چیز کام کی ہو مگر فی الحال اُس سے کام لینے کی گنجائش نہ ہو تب بھی اُسے کسی اور کے استعمال میں دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ یہ ''سامان پسندی‘‘ ہماری زندگی کا ناگزیر جُز ہوکر رہ گئی ہے۔ ہم دن رات یہی سوچتے رہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ چیزیں کس طور حاصل کریں، اپنے گھروں کس طور بھرا پُرا رکھیں۔ الماریاں ملبوسات سے بھری رہتی ہیں۔ کچن میں برتنوں کا ڈھیر لگا رہتا ہے۔ بہت سی چیزیں بے مصرف پڑی رہتی ہیں۔ کیا الماریوں میں بھرے ہوئے سبھی ملبوسات ہم زیبِ تن کرتے ہیں؟ بعض ملبوسات کی باری تو دو‘ تین سال میں کبھی ایک آدھ بار آتی ہے یعنی یہ سب کچھ ضرورت سے کہیں زیادہ ہے پھر بھی دل نہیں مانتا کہ جو کچھ ہمارے عمومی استعمال میں نہیں وہ کسی مستحق یا ضرورت مند کو دے دیا جائے۔
''سامان پسندی‘‘ وہ قباحت ہے جس نے ہمیں شدید نوعیت کی مادّہ پرستی میں مبتلا کردیا ہے۔ ہم نے زندگی کا حاصل اس کیفیت کو سمجھ لیا ہے کہ ہمارے پاس بہت سا مال ہو، گھرا بھرا ہوا دکھائی دے۔ کسی بھی انسان کو اپنی ضرورت کے مطابق جو کچھ درکار ہوتا ہے وہ اُسے قدرت کی طرف سے عطا ہوکر رہتا ہے مگر یہاں معاملہ یہ ہے کہ لوگ ضرورت سے کہیں زیادہ چاہتے ہیں اور اِس حوالے سے بات کیجیے تو فضول سے دلائل کا ڈھیر لگادیا جاتا ہے۔ بیشتر کا حال یہ ہے کہ جب اُنہیں سمجھائیے کہ جو کچھ آپ کی ضرورت سے زیادہ ہے وہ آپ کے کسی کام کا نہیں اِس لیے بہتر یہ ہے کہ کسی کو دے دیا جائے تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔ انسان کو اپنے تصرّف کی کوئی بھی چیز کسی کو دینا انتہائی دشوار محسوس ہوتا ہے۔ بیشتر کا معاملہ یہ ہے کہ برسوں سے یونہی پڑی ہوئی چیزیں بھی کسی کو دینے پر راضی نہیں ہوتے۔ اگر اُنہیں اس حوالے سے دینی تعلیمات اور احکام کے بارے میں بتائیے تو بھی کچھ خاص اثر نہیں ہوتا،یعنی وہ اپنی روش ترک کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔
انسان چیزوں سے پیار کیوں کرتا ہے؟ کیا یہ عادت قبیح ہے؟ کیا کم ساز و سامان کے ساتھ جینے میں کوئی بڑی قباحت ہے؟ یہ اور ایسے ہی دوسرے بہت سے سوالوں کے جواب میں بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ کم مال و اسباب کے ساتھ جینا کسی بھی اعتبار سے قبیح نہیں بلکہ یہ تو انبیاء کرام علیہم السلام کا شیوہ ہے۔ وہ سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ کم کھاتے تھے، کم سوتے تھے، کم سامان رکھتے تھے اور جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا تھا اُس سے ضرورت بھر رکھ کر باقی سب کچھ خدا کی راہ میں خرچ کردیا کرتے تھے۔ انبیاء کرام کی تعلیم میں یہ بات شامل نہیں کہ انسان کو زیادہ پُرآسائش زندگی بسر کرنے کی طرف نہیں جانا چاہیے۔ آقائے نامدار حضرت محمدﷺ نے بھی کسی مرحلے پر مال و اسباب کے حصول کو غلط یا قبیح قرار نہیں دیا۔ آپﷺ کی تعلیم و تربیت کا زور اِس بات پر تھا کہ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے اُس میں سے اپنی ضرورت اور جائز آسائش جتنا رکھ کر باقی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اُس کی راہ میں صرف کر دینا چاہیے تاکہ مال بے مصرف پڑا نہ رہے اور کسی کے کام آ جائے۔ آپﷺ نے اپنے اصحاب کی تربیت بھی ایسی ہی کی کہ وہ کم سے کم مال کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے عادی تھے۔ گھروں میں جہان بھر کی چیزیں بھری ہوئی نہیں تھیں۔ خوراک بھی سادہ تھی اور لباس میں بھی سادگی ہی نمایاں تھی۔ بود و باش میں بھی طمطراق نہ تھا۔ بیشتر کی کوشش ہوتی تھی کہ صرف ضرورت کے مطابق ہی سامان گھر میں رکھا جائے اور باقی سب کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے دیا جائے۔
ہم بہت گئے گزرے دور کے لوگ ہیں۔ باقی خرابیوں کا تو ذکر ہی کیا‘ آج ایمان بھی کمزور پڑچکا ہے۔ ہم دین کے واضح احکامات اور ہدایات اچھی طرح جانتے ہیں مگر عمل کی توفیق نصیب نہیں ہوتی کیونکہ دل و دماغ اُس طرف جاتے ہی نہیں۔ زندگی کی مجموعی کیفیت یعنی فکر و نظر کی بے سر و سامانی کا عالم یہ ہے کہ آنکھوں میں ہر وقت زیادہ سے زیادہ حصولِ زر و مال کے سپنے سجے رہتے ہیں۔ ہم دن رات گھر بھرنے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ اب معاملہ یہ بھی ہے کہ گھر تو بھر جاتا ہے‘ نیت نہیں بھرتی۔ بہت سا مال جمع کرنے کی طمع انسان کو کہیں کا اور کسی کام کا نہیں رہنے دیتی۔ طُرفہ تماشا یہ ہے کہ محض جاننے نہیں بلکہ جھیلنے کے باوجود لوگ اصلاحِ احوال کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ سنجیدگی تو بہت بعد کا مرحلہ ہے۔ پہلے سوچیں تو سہی!
مثالی زندگی کیا ہے؟ اِس سوال کے جواب میں گھنٹوں نہیں‘ دنوں تک بحث کی جاسکتی ہے کیونکہ ہر انسان کے نزدیک مثالی زندگی کچھ اور ہوتی ہے۔ جتنے انسان اُتنی مثالی زندگیاں! ہم مثالی زندگی کا تعین نہیں کرسکتے۔ تو پھر؟ اچھا ہے کہ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کے کلام اور انبیاء کرام کی تعلیمات سے مدد لی جائے۔ جو بھی ہمارے خالق کی رِضا کے مطابق ہو‘ وہی ہمارے لیے مثالی زندگی ہے۔ اِس سے ہٹ کر کچھ بھی ہمارے لیے کام کا نہیں۔ ہم آج ایسے بہت سے معاملات میں الجھے ہوئے ہیں جن کا مثالی زندگی سے کچھ بھی لینا دینا نہیں۔ دینی تعلیمات اور شعائر کی رُو سے معیاری اور مثالی زندگی وہ ہے جس میں کوئی بھی غیر ضروری اور غیر متعلق قباحت نہ ہو۔ پہلے مرحلے میں تو زندگی کو سادہ ہونا چاہیے۔ سادہ زندگی سے مراد یہ ہے کہ ایسے تمام معاملات زندگی سے دور رکھے جانے چاہئیں جو اِسے خواہ مخواہ الجھاکر وقت کے ضیاع کا باعث بنیں۔ زیادہ سے زیادہ مال و اسباب جمع کرنے کی ذہنیت اپنے ہی ہاتھوں غلام بن جانے کے سوا کچھ نہیں۔ ہمیں یہ زندگی اس لیے نہیں ملی کہ اپنی یا کسی اور کی غلامی میں جئیں۔ ہمیں اپنے لیے بھی جینا ہے اور دین کے لیے۔ اپنے لیے سہولتیں پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں (یعنی مستحقین) ے لیے بھی آسانیاں پیدا کرنی ہیں۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب زندگی میں سادگی نمایاں ترین وصف یا پہلو کے طور پر موجود ہو۔ بہت زیادہ سجی سنوری اور بھری پُری زندگی ہم سے خراج مانگتی رہتی ہے۔ جی ہاں‘ خراج! ہماری صلاحیت و سکت اور مال و دولت کا بڑا حصہ اپنے وجود یعنی زندگی کی رونق برقرار رکھنے ہی میں کھپ جاتا ہے۔ بیشتر کو آپ اِس حال میں پائیں گے کہ برسوں کی محنت سے بلند معیارِ زندگی یقینی بناتے ہیں اور پھر اُس بلند معیاری زندگی کو برقرار رکھنے میں باقی عمر اور اُس سے وابستہ سبھی کچھ کھپادیتے ہیں۔ یہ کسی بھی اعتبار سے معقول طرزِ فکر و عمل نہیں۔ جب ہم ہر وقت زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں تب کام کی باتیں لایعنی خیالات کے ڈھیر میں دب جاتی ہیں، گم ہو جاتی ہیں۔ ''سامان پسندی‘‘ کی حدود کا تعین کرنے پر خاص توجہ دی جانی چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved