زندگی میں کچھ نقصانات ایسے ہوتے ہیں جن کا آپ نہ تو حساب لگا سکتے ہیں اور نہ ہی ان کا ازالہ کیا جا سکتا ہے ۔ اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی دنیا میں ایک ایسا انقلاب برپا ہوا جس نے دنیا کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ دنیا کیلئے گلوبل ویلج کی ٹرم استعمال ہونے لگی ‘ فاصلے سمٹنے لگے‘ مہینوں کے کام دنوں ‘ دنوں کے کام گھنٹوں اور گھنٹوں کے کام سیکنڈز میں ہونے لگے ۔چھ انچ کی سکرین کی بدولت روز مرہ استعمال کی سینکڑوں چیزیں قصۂ پارینہ بن گئیں۔ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل نالج کے انقلاب کے دور میں دنیا بھر کے معاشرے تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں ‘ آرٹیفیشل انٹیلی جنس‘ روبوٹکس کا استعمال فکشن فلموں سے نکل کر عام آدمی کی پہنچ میں آچکا ہے۔حال ہی میں مصنوعی ذہانت پر تحقیق کرنے والی کمپنی ''اوپن اے آئی‘‘ کی جانب سے چیٹ جی پی ٹی کے نام سے ایک چیٹ باٹ لانچ کیا جو دیکھتے ہی دیکھتے عام ہوئی اور کروڑوں لوگ استعمال کرنے لگے ہیں۔ اس سے پوری دنیا میں تہلکہ مچا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ گوگل کو ٹکر دینے والا چیٹ جی پی ٹی کی تحقیقی کمپنیوں میں ایک مقابلہ شروع ہوچکا ہے۔مصنوعی ذہانت کی کمپنیوں نے اس سال 2023 ء میں AGI پر 21 بلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری حاصل کی ہے اور پہلے صرف تین ماہ میں 11 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کی ہے۔مصنوعی ذہانت اس وقت مختلف شعبہ جات میں دنیا میں استعمال ہو رہی ہے اور مزید اس پر تحقیقات جاری ہیں۔ انسانی زندگی کے اہم شعبہ جات میں مصنوعی ذہانت کے استعمال میں تیزی آرہی ہے۔ٹیکنالوجی کے بڑھتے استعمال نے جہاں زندگی کو انتہائی آسان بنا دیا ہے وہیں دنیا کی معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ دنیا کی معیشت ڈیجیٹل اکانومی میں تبدیل ہو رہی ہے‘ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک میں بھی کیش لیس اکانومی کا رجحان عام ہوتا جا رہا ہے۔رجحانات بدل رہے ہیں ‘ ای کامرس اورفری لانسنگ نے کاروبار کے انداز بدل دئیے ہیں‘کرپٹو کرنسی سمیت ڈیجیٹل کرنسیوں نے سیاسیات‘ اقتصادیات اور مالیات کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک جانب دنیا میں ڈیجیٹل اکانومی کا رجحان عام ہو رہا ہے تو دوسری جانب ہمارے ہاں ڈیجیٹل شعبے کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ڈیجیٹل پاکستان کا خواب بکھر رہا ہے یا بکھر سکتا ہے‘ اوراس کی وجہ بھی سیاسی افراتفری ہے۔ پاکستان کی معیشت وینٹی لیٹر پر ہے اور ادارے تباہ حال ہیں۔ سیاسی عدم استحکام ہوتو ملکی معیشت کا گراف خود بخود نیچے چلا جاتا ہے۔یعنی جہاں سیاسی غیر یقینی کی کیفیت ہو وہاں معیشت کبھی بھی پروان نہیں چڑھ سکتی۔ جب بھی کسی وجہ سے کوئی سیاسی انتشار جنم لیتا ہے تو ہماری حکومتیں سب سے پہلے انٹرنیٹ کو بند کردیتی ہیں۔حالیہ دنوں کی بات کریں تو9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد حکومت نے مظاہرین کی جانب سے اشتعال انگیزی اور سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد شیئر کرنے سے روکنے کیلئے انٹرنیٹ کو بند کر دیا۔ یوں انٹرنیٹ کی بندش سے ٹیلی کام سیکٹرکودو ارب 46 کروڑکا نقصان پہنچا۔ٹیلی کام انڈسٹری کے ماہرین کے مطابق حکومت کو موبائل براڈ بینڈ سروس سے روز ساڑھے 28کروڑ ٹیکس ریونیو ملتا ہے اورٹیلی کام انڈسٹری کے ماہرین کے بقول تین دن کی بندش سے حکومت کو تقریباً 86 کروڑ کے ٹیکس ریونیو کا نقصان پہنچا ‘ جبکہ آل پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ ایسوسی ایشن کے مطابق آئی ٹی انڈسٹری کو 10 ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ آئی ٹی سیکٹر کا ایک دن کا کاروبار 12 ملین ڈالر ہے۔ ان دنوں میں فری لانسنگ کی دنیا میں سب سے برا پلیٹ فارم سمجھی جانے والی ویب سائٹ فائیور نے پاکستانی فری لانسرز کے حوالے سے دنیا کو تنبیہ کہ کہ اس ملک میں انٹر نیٹ کے مسائل ہیں جس کی وجہ سے آپ کے آرڈر میں تاخیر ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی فری لانسرز کی ریٹنگ متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی بھی ہوئی۔جب انٹرنیٹ کو بند کیا جاتاہے تو اس سے ای کامرس کے شعبے کو بھی اچھا بھلا نقصان پہنچتا ہے۔سب سے زیادہ متاثر موبائل ایپلی کیشنز کے ذریعے آن لائن دیہاڑی کمانے والے افراد متاثر ہوتے ہیں۔پاکستان میں موبائل ایپلی کیشنز کے ذریعے روزی کمانے والے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے‘ جو ڈرائیونگ کرکے اور کھانے کی ڈیلیوری کرکے اپنا اور اپنے گھروالوں کا پیٹ پالتے ہیں‘ لیکن انٹرنیٹ کی بندش سے یہ طبقہ بری طریقے سے متاثر ہوتا ہے۔ آن لائن روزگار کمانے والوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں انٹرنیٹ سروس معطل ہونے سے انہیں کوئی کمائی نہیں ہوئی بلکہ وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہے۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کے پاس اپنی کوئی سواری نہیں اور وہ آنے جانے کیلئے آن لائن سفر کرنے والی ایپ کا استعمال کرتا ہے‘لیکن جب انٹرنیٹ کی بندش ہوتی ہے تو ایسے مسافر بھی پریشانی کا شکار نظر آتے ہیں‘ انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ڈرائیور نہیں ملتے اور اگر مل بھی جاتے ہیں تو وہ من مرضی کا کرایہ وصول کرتے ہیں۔
عمران خان کے دور حکومت میں ڈیجیٹل پاکستان کا نعرہ لگایا گیا ‘ ایمازون جو دنیا کی سب سے بڑی ای کامرس ویب سائٹ ہے‘ اس نے پاکستان میں کام شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان ایمازون پر تیسرا بڑا فروخت کنندہ ملک بن گیا۔ایمازون مارکیٹ پلیس پر 1.2 ملین رجسٹرڈ تاجروں کے ساتھ امریکا اور چین کے بعد پاکستان تیسرا بڑا ملک ہے۔ا یمازون کے ذریعے مصنوعات کی فروخت / برآمدات سے پاکستان 28 ارب ڈالر سالانہ کما سکے گا۔ پاکستان میں انٹرنیٹ کے ذریعے اشیا کی فروخت (ای کامرس)کا سالانہ ٹرن اوور 10کروڑ ڈالر تک پہنچ چکا ہے اسی طرح پاکستان فری لانسنگ کی دنیا میں چوتھا بڑا ملک بن چکا ہے۔اگر ایمازون کے علاوہ دیگر ای کامرس سے متعلقہ ویب سائٹس پاکستان میں آجائیں تو روزگار کے کئی مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں سالانہ ریٹیل سیلز کا حجم 50ارب ڈالر ہے جس میں ای کامرس کا حصہ محض 0.2فیصد ہے۔ تھری جی اور فورجی ٹیکنالوجی اور برانڈ بینڈ سروس کی لاگت کم کرکے ای کامرس کا حجم ایک سال کے اندر ایک ارب ڈالر تک بڑھائے جانے کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن اس کیلئے ہمیں آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ ڈیجیٹل کورسز کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔اسی طرح سوشل میڈیا کے ذریعے ہم مختلف ویڈیوز بنا سکتے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے ہم اختلافِ رائے کو برداشت نہیں کرتے اور حکومتیں اپنے ناپسندیدہ وِلاگرز کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ موجودہ دور ڈیجیٹل دور ہے اور اس دور کو روکا نہیں جاسکتا۔پاکستان میں پہلی مرتبہ ڈیجیٹل مردم شماری ہوئی۔کیوں ہوئی کیونکہ اس کی ضرورت کو محسوس کیا گیا۔اسی طرح عمران خان نے ای وی ایم مشین متعارف کروانے کی کوشش کی جس سے منٹوں میں الیکشن کے نتائج آسکتے تھے‘ لیکن ان کے مخالفین نے اس پر شور ڈال دیا اور انتخابات کو جدید طرزپر نہ ہونے دینے میں اپنا کردار ادا کیا۔اپ بھارت کو دیکھئے کہ وہاں ہر کسی کے پاس paytm نامی ایپ ہے جس کو آپ ایک طرح کی ڈیجیٹل کرنسی کہہ سکتے ہیں۔دنیا بھر میں PayPalاستعمال ہوتا ہے اور یہ ایپ آن لائن پیسہ اکٹھا کرنے میں مددگار ہے ‘لیکن پاکستان میں اس کو اب تک متعارف نہیں کروایا جاسکا۔ اگر ہمیں بھی ڈیجیٹل دنیا میں انقلاب لانا ہے تو سب سے پہلے ہمیں ہر شخص تک انٹرنیٹ کی سہولت دینی ہوگی۔یہاں ففتھ جی لانے کی بات کی گئی لیکن اب تک انٹرنیٹ کی یہ ٹیکنالوجی نہیں لائی گئی۔اگر ہمیں ای کامرس میں بہتر پرفارم کرنا ہے تو انٹرنیٹ کی سپیڈ کو بھی بڑھانا پڑے گا۔ہمیں ابھی ڈیجیٹل شعبے میں بہت کام کرنا ہوگا۔اور وقفے وقفے سے انٹرنیٹ کی بندش کو ترک کرنا ہوگا۔ورنہ یہاں شاید ڈیجیٹل میڈیا کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved