پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف کو اندازہ ہو چکا ہے کہ اس مرتبہ ان سے غلطی سرزد ہوئی ہے۔ مقتدرہ کے خلاف جارحانہ رویہ اپنانا اور اعلیٰ افسران پر بغیر ثبوت الزامات لگانا ایک معمول بن چکا تھا۔ اکثر قارئین یہ سوال کرتے تھے کہ آخر کپتان کو اتنی سپیس کیوں دی جا رہی ہے؟ میں انہیں جواب دیتا تھا کہ شطرنج کے کھیل میں اپنی بہترین چال چلنے سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ مخالف کی غلط چال چلنے کا انتظار کیا جائے۔ اس کے بعد شے اور مات دی جاتی ہے۔ اس وقت تقریباً تمام وزیر‘ پیادے اور گھوڑے مر چکے ہیں۔ صرف بادشاہ اور ملکہ بچے ہیں۔ مزید کمزور ہونے کے بعد شاید بادشاہ خود ہی اقبالِ جرم کر لے اور مات ہو جائے۔ چیئرمین تحریک انصاف بڑی آسانی سے ماضی میں کی گئی غلطیوں سے لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 27سال کی سیاسی جدوجہد میں تحریک انصاف نے کبھی تشدد کا راستہ نہیں اپنایا۔ وہ شاید یہ بھول رہے ہیں کہ 2014ء کے لانگ مارچ اور دھرنے میں تحریک انصاف کے کارکنان نے جماعت کی اعلیٰ قیادت کی سربراہی میں پی ٹی وی پر حملہ کر دیا تھا۔ 2014ء کے دھرنے میں ہی اُس وقت کے آئی جی اسلام آباد کو بھی سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ بجلی کے بل جلا کر عوام کو سول نافرمانی پر اکسانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔ شرپسند عناصر کے خلاف کارروائی وقت کی ناگزیر ضرورت ہے۔ اگر آج یہ عمل نہ روکا گیا تو آنیوالے دنوں میں ملک کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔
مایوسی اور سیاسی بے چینی کے اس ماحول میں حکومت اور میرے ہم وطنوں کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ چین نے مقبوضہ کشمیر میں منعقد ہونیوالے جی 20سیاحتی اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ سفارتی سطح پر یہ بھارت کی بڑی شکست ہے اور پاکستان کا کشمیر پر موقف ایک مرتبہ پھر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ میں نے اپنے پچھلے کالموں میں بھی لکھا تھا کہ چین کا کشمیر کی آزادی پر موقف ہمیشہ سے واضح رہا ہے اور ممکنہ طور پر وہ جی 20اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا۔ چین کی شرکت کے بغیر یہ اجلاس مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کر سکے گا۔ اس فیصلے کے نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کے لیے کوشاں ہے اور کسی حد تک اس کوشش میں کامیاب بھی ہوا ہے۔ چین کے فیصلے کے بعد سرمایہ کار ضرور سوچیں گے کہ مقبوضہ کشمیر میں سرمایہ کاری کی جانی چاہیے یا نہیں۔ اس کے علاوہ پاک ایران تعلقات میں بھی پہلے سے زیادہ مضبوطی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ پاک ایران بارڈر پر اعلیٰ سطحی لیڈرشپ کی ملاقاتوں اور نئے منصوبوں پر دستخط سے حالات کافی حد تک تبدیل ہو سکتے ہیں۔ بظاہر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان امریکی گروپ سے نکل کر چین اور روس کے گروپ میں شامل ہو گیا ہے۔ پاکستان اور روس نے دوطرفہ تجارتی معاہدے پر دستخط کردیے ہیں جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تجارت کی لاگت میں سہولت اور اس میں کمی لانا ہے۔ اس معاہدے پر مسلم ممالک کی 3روزہ اقتصادی کانفرنس کے دوران دستخط کیے گئے جو روس کے شہر کازان میں اختتام پذیر ہوئی۔ کانفرنس میں 85ممالک نے شرکت کی جس کا مقصد کاروباری خیالات کے تبادلے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا۔یہ پروٹوکول یوریشین اکنامک یونین کے متفقہ ٹیرف ترجیحات کے فریم ورک کے تحت انتظامی تعاون اور معلومات کے تبادلے پر مشتمل ہے۔ اعلیٰ حکام کے درمیان خاص طور پر تیل اور گیس کی تجارت کے حوالے سے متعدد ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ وزیر تجارت کا دورہ بظاہر کامیاب رہا ہے۔ میرے مطابق اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمت ہے۔ روس سے تیل خریدنے اور ایران سے تجارت کھلنے کے بعد ملکی ضروریات کا آدھے سے زیادہ تیل کم ریٹ پر دستیاب ہو سکتا ہے اور ڈالر میں ادائیگی کا بوجھ بھی کم ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سستی بجلی کا حصول بھی ممکن ہو سکے گا۔
اُدھر ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں مسلسل دوسرے مہینے سرپلس ریکارڈ کیا گیا جبکہ رواں مالی سال کے ابتدائی 10مہینوں کے دوران خسارہ سالانہ بنیادوں پر 76فیصد تک سکڑ گیا ہے جس کی وجہ حکومت کی جانب سے درآمدات کو محدود کرنا ہے تاکہ بحران زدہ معیشت کو سنبھالا جا سکے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق اپریل میں کرنٹ اکاؤنٹ میں ایک کروڑ 80لاکھ ڈالر کا فاضل پن ہوا جبکہ اس سے قبل مارچ میں کرنٹ اکاؤنٹ 65کروڑ 40لاکھ ڈالر مثبت رہا تھا۔ تاہم مرکزی بینک نے مارچ کا 75کروڑ ڈالر کا نظر ثانی شدہ سرپلس رپورٹ کیا ہے۔ اس کمی کے بعد رواں مالی سال کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جولائی تا اپریل کے دوران سالانہ بنیادوں پر 76فیصد کی بڑی کمی کے بعد صرف 3ارب 26کروڑ ڈالر رہ گیا ہے جو گزشتہ برس کے اسی عرصے کے دوران 13ارب 65کروڑ ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ممکن ہے کہ ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 3ارب ڈالر کی سطح پر آ جائے گا جو گزشتہ برس 17ارب 50کروڑ ڈالر تھا۔ اگر پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ مثبت رہتا ہے تو پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ سکتا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ مثبت ہے تاہم بیرونی اکاؤنٹ کے حوالے سے ملک اب تک بحران سے نہیں نکل سکا ہے اور عالمی مالیاتی ادارے کو ایک ارب 10کروڑ ڈالر کی ضروری قسط جاری کرنے کے لیے قائل نہیں کر سکا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط حاصل کرنے کے لیے حکومت سعودی عرب سے 2ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارت سے ایک ارب ڈالر کی گارنٹی لینے میں کامیاب ہوئی جبکہ چین نے 2ارب 40کروڑ ڈالر کی یقین دہانی کرائی۔ پاکستان کو ان یقین دہانیوں کے ساتھ اب بھی 3ارب ڈالر کی ضرورت ہے تاکہ قرض کی ادائیگی ہو سکے۔ میرے مطابق آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ سہولت کے تحت 2ارب 20کروڑ ڈالر حاصل نہیں کر سکے گا‘ جس کا اختتام 30جون کو ہو رہا ہے۔
پہلے ہی پاکستان مطلوبہ بیرونی فنانسنگ لینے میں ناکام رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے بغیر پاکستان کی بیرونی فنانسنگ رواں مالی سال کے ابتدائی 10مہینوں کے دوران 38فیصد کمی کے بعد 8ارب 10کروڑ ڈالر رہ گئی جو گزشتہ برس کے اسی عرصے کے دوران 13ارب ڈالر سے زائد ریکارڈ کی گئی تھی۔ ڈالروں کی کمی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بجٹ میں رکھے گئے اہداف کے 22ارب 80کروڑ ڈالر کے مقابلے صرف 35.5فیصد رقم موصول ہوئی۔ اب تک ایسا لگتا ہے کہ بیرونی فنانسنگ کا سالانہ ہدف بڑے فرق سے پورا نہیں ہو سکے گا۔ اپریل میں پاکستان کو صرف 35کروڑ 90لاکھ ڈالر موصول ہوئے جو نومبر 2022ء کے 84کروڑ 20لاکھ ڈالر کے مقابلے میں 57فیصد کم ہے۔ غیرملکی ڈالر کی آمد میں اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے نیا پاکستان سرٹیفیکٹس کے 67کروڑ 70لاکھ ڈالر کے مہنگے غیرملکی قرضے بھی شامل ہیں۔ یہ بھی ایک ارب 63کروڑ ڈالر سالانہ ہدف سے 60فیصد کم رہے۔ کمرشل بینکوں کی جانب سے صرف 90کروڑ ڈالر کے قرضے شامل ہیں جبکہ بجٹ 7ارب 50کروڑ ڈالر کا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر نجی کمرشل بینک بھی قرضے دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ عام طور پر چوتھا ذریعہ انٹرنیشل بانڈز کا ہے جو خراب ریٹنگ کی وجہ سے خشک ہو رہا ہے۔ حکومت کا ہدف انٹرنیشنل بانڈز سے 2ارب ڈالر حاصل کرنے کا ہے لیکن مالی سال کے ابتدائی 10ماہ میں اب تک اس مد میں کوئی فنڈ حاصل نہیں کیا جا سکا۔ پاکستان میں سیاسی چیلنج ختم ہو یا نہ ہو لیکن آنے والے دنوں میں معاشی چیلنج ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اگلے بجٹ میں پاکستان کس طرح بیرونی ادائیگیاں کرے گا یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved