ہر معاملے میں آپ کے سامنے آپشن ہی آپشن ہوتے ہیں۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اُس کے سامنے کوئی اور آپشن تھا ہی نہیں تو وہ جھوٹ بولتا ہے۔ ہر صورتِ حال ہمیں کچھ نہ کچھ کرنے کی تحریک دیتی ہے۔ کچھ نہ کرنے کی گنجائش بھی موجود رہتی ہے۔ کچھ نہ کرنے کی گنجائش؟ آپ حیران ہو رہے ہیں؟ حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہر معاملے میں کچھ کرنے یا نہ کرنے کا آپشن مساوی بنیاد پر موجود ہوتا ہے۔ طبیعت بگڑ جائے تو علاج کرایا جاتا ہے۔ علاج نہ کرانے کا آپشن بھی ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ یہ آپشن بھی آزماتے ہیں اور پھر اِس کے عواقب بھی بھگتتے ہیں۔
ہم زندگی بھر انتخاب کے مرحلے سے گزرتے رہتے ہیں۔ ہر طرح کی صورتِ حال ہمارے سامنے انتخاب کا مرحلہ پیش کرتی ہے اور ہمیں اُس میں سے گزارنے پر بضد رہتی ہے۔ انتخاب یعنی آپشنز میں سے انتخاب۔ کبھی کبھی کسی ایک مسئلے کو ایک سے زائد طریقوں سے حل کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ ہمیں بہت سوچ، سمجھ کر آپشن منتخب کرنا ہوتا ہے۔ بے دھیانی میں ہم کوئی غلط آپشن منتخب کرلیں تو اُس کے غیر متوقع منفی اثرات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
ہر انسان کو زندگی بہت سے مواقع سے نوازتی ہے۔ کچھ بننے اور کچھ کرنے کی گنجائش کئی بار پیدا ہوتی ہے۔ حالات انسان کو مختلف مواقع سے ہم کنار کرتے رہتے ہیں۔ انسان چاہے تو ہر اچھے موقع سے کماحقہ مستفید ہوکر اپنے آپ کو بلندی سے ہم کنار کرے اور اگر یہ نہ چاہے تو پستی کو مقدر بنانے کا آپشن تو ہوتا ہی ہے۔ کب کون سا آپشن اختیار کیا جانا چاہیے یہ بھی متعلقہ فرد ہی کو طے کرنا ہوتا ہے۔ ہم بالعموم اِس سوچ کے حامل رہتے ہیں کہ زندگی ہم سے کھیل رہی ہے۔ کبھی کبھی قدم قدم پر ایسا لگتا ہے جیسے کوئی باضابطہ منصوبہ سازی کے تحت ہم سے کھلواڑ کر رہا ہے اور ہمیں اُس کی چالوں سے محفوظ رہنے پر متوجہ رہنا ہے۔ ایسی سوچ بالکل بے بنیاد بھی نہیں۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہے جو آپ کے خلاف ہے۔ اب کون کتنا مخالف ہے اور کون سا معاملہ آپ کی راہ روک رہا ہے یہ آپ کو دیکھنا اور سمجھنا ہے۔
اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ پریشانیاں سب کے لیے ہیں۔ بھری دنیا میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جس کے حصے میں کوئی نہ کوئی الجھن نہ آئی ہو۔ الجھنیں اور پریشانیاں انسان کو نچوڑ لیتی ہیں۔ یہ نچوڑنا کیا ہمیشہ منفی اثرات کا حامل ہوتا ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ مشکلات ہی ہمیں کچھ نیا کرنے کا عزم بھی تو عطا کرتی ہیں۔ جب انسان مسائل میں گِھر جاتا ہے تب اُن کے حل کی تلاش میں اپنے وجود کے طول و عرض میں گھومتا ہے، اپنی صلاحیت و سکت کا بھرپور اندازہ لگاتا ہے، عمل کی دنیا میں اپنے آپ کو منوانے کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ یہ الجھنیں ہی تو ہیں جو انسان کو عمومی ڈگر سے ہٹ کر چلنے کی تحریک دیتی ہیں تاکہ وہ اپنے شب و روز میں کچھ تبدیلی لائے، کچھ نیا کرے، کچھ نیا بننے کی کوشش کرے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہی کامیاب رہتے ہیں۔ ہمیں اپنے معاشرے میں ایسے ہزاروں افراد ملیں گے جنہوں نے حالات کے جبر کے سامنے جھکنے سے انکار کیا، اپنے آپ کو جانچا، پرکھا اور نئے سِرے سے کچھ کرنے کے بارے میں سوچا۔ یہ سوچ اُن کے لیے کامیابی کی طرف لے جانے والا راستہ ثابت ہوئی۔
حالات کس طور بدلتے ہیں؟ حالات کا تو کام ہی بدلتے رہنا ہے۔ وہ بہت سے طریقوں سے بدلتے ہیں اور کبھی کبھی تو بے طور ہی بدل جاتے ہیں یعنی کچھ سمجھ ہی میں نہیں آرہا ہوتا کہ آخر ہوا کیا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہم حالات کو بدل نہیں سکتے۔ ہاں، اپنے آپ کو ضرور بدل سکتے ہیں اور بدلتے ہی ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی معاملہ جیسے کوئی کہے کہ وہ ٹائم مینجمنٹ کا ماہر ہے یعنی وقت کو اچھی طرح manage کرسکتا ہے۔ کیا واقعی؟ کوئی وقت کو بھی مینج کر سکتا ہے؟ ایسا صرف سوچا جاسکتا ہے، کیا نہیں جاسکتا۔ وقت کو قابو میں کرنا اور اُس پر متصرف رہنا کسی کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ جب کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ٹائم مینجمنٹ کا ماہر ہے تو وہ دراصل یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ اُس نے سیکھ لیا ہے کہ اپنے وجود کو وقت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے کس طور تیار کرنا ہے۔ انسان اپنے آپ کو مینج کرکے کچھ فوائد حاصل کر رہا ہوتا ہے اور گمان یہ کرتا ہے کہ اُس نے وقت کو مینج کرنا سیکھ لیا ہے۔ حالات کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ حالات کے بیل کو سینگوں سے پکڑ کر بٹھانا یا قابو میں رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ حالات کو بدلنے اور اُن پر متصرف ہونے سے کہیں آسان ہے اپنے آپ کو بدلنا۔
ہم زندگی بھر معمولی نوعیت کے یا پھر شدید نوعیت کے ناموافق حالات کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔ یہ کسی بھی درجے میں کوئی انوکھی بات نہیں کیونکہ ہر انسان کے ساتھ ایسا ہوتا رہتا ہے۔ ہر اعتبار سے کامیاب سمجھے جانے والے افراد کے لیے بھی حالات کا دباؤ کبھی کم نہیں ہوتا۔ وہ بھی کبھی کبھی ایسی الجھن محسوس کرتے ہیں کہ بیان کریں تو کوئی یقین بھی نہ کرے۔ کبھی کبھی معاملات ایسا پلٹا کھاتے ہیں کہ ہم دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ایسے میں ابتدائی لمحات کے دوران تو حواس کام ہی نہیں کرتے۔ ذہن ماؤف سا ہو جاتا ہے۔ تب ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ روئے ارض پر ڈھنگ سے جینا کتنا بڑا معاملہ ہے، کتنی بڑی آزمائش ہے۔ یہ آزمائش سبھی کے لیے ہے اس لیے اِس پر حیرت یا تاسّف کا اظہار کرنے کے بجائے اِس سے نمٹنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
ہمارے پاس کئی آپشن ہوتے ہیں۔ ایک ہی معاملے کو مختلف طریقوں سے نمٹایا جاسکتا ہے۔ ایک آسان آپشن رونے دھونے، گِلے شِکوے کرنے کا بھی تو ہے۔ اپنے گرد و پیش پر اُچٹتی سی نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ لوگ گلوں شکووں کا آپشن زندگی بھر اپناتے رہتے ہیں۔ یہ آپشن اس لیے اپنایا جاتا ہے کہ اِس میں کچھ لگتا تو ہے نہیں۔ جب جی میں آئے، حالات کو لتاڑنا اور کوسنا شروع کیجیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہم خیال لوگ جمع ہوجائیں گے اور میلہ سا لگ جائے گا۔ حالات کا رونا روتے رہنے کا آپشن چونکہ آسان اور مفت ہے اس لیے اِسے اپنانے میں کبھی کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔
کیا آپ نے کبھی کسی ایسے انسان کو ترقی کرتے دیکھا ہے جو ہر وقت حالات کا رونا روتا رہتا ہو؟ ماحول میں موجود تمام لوگوں سے ناخوش افراد کبھی پنپ سکتے ہیں؟ آپ کتنی ہی کوشش کر دیکھیے، ان سوالوں کا جواب نفی ہی میں ہو گا۔ اثبات میں ہو بھی کیسے سکتا ہے؟ جو لوگ حالات کے بارے میں شکوہ سنج رہتے ہیں وہ اپنے ذہن کو پراگندہ کرتے رہتے ہیں۔ جب کوئی بھی انسان اپنے حالات کو قبول کرنے سے گریز کرتا ہے اور رونا دھونا مچائے رکھتا ہے تب اُسے آپشن نہیں سُوجھتے۔ آپشن صرف اُس وقت سُوجھتے ہیں جب انسان مثبت سوچ کے ساتھ حالات کو اُن کی تمام اچھائیوں اور بُرائیوں کے ساتھ قبول کرتا ہے۔ اِس مرحلے سے گزرنے کے بعد ہی حالات کو بدلنے کی سوچ پیدا ہوتی ہے اور ذہن آپشن پیش کرتا ہے۔
معقول طرزِ فکر یہ ہے کہ انسان رونے دھونے اور ناخوش رہنے سے گریز کرے اور صرف مثبت معاملات کے بارے میں سوچے۔ جو کچھ بھی ہوچکا ہے وہ اب تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ہم گزرے ہوئے زمانے میں جی نہیں سکتے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ اپنا وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر ہم ہر وقت رونا دھونا کریں اور گزرے ہوئے زمانوں کو کوستے رہیں تو ایسا کرنے سے گزرے ہوئے زمانوں کا تو کچھ نہیں بگڑتا، ہاں ہمارا حال ضرور بے حال ہو جاتا ہے۔
زندگی جیسی نعمت اس لیے نہیں ہے کہ رو دھوکر ضائع کریں۔ مثبت سوچ کا تقاضا ہے کہ آپشنز کے بارے میں سوچا جائے۔ کسی بھی معاشرے میں وہی گھرانے کامیاب ہوتے ہیں جو حالات کو خوش دِلی سے قبول کرتے ہوئے اپنے لیے آپشنز تیار یا تلاش کرتے ہیں۔ بہت سے گھرانے غیر معمولی افرادی قوت کے حامل ہوتے ہیں مگر حالات سے شِکوہ سنج رہنے کی ذہنیت کے ہاتھوں ناکامی کے گڑھے میں گِرے رہتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ اِس زندگی میں شِکوہ سنج رہنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ کام کسی اور دنیا کے لیے اٹھا رکھیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved