ملک میں کہیں بھی‘کسی سے بھی بات کریں‘ کچھ باتوں پر قومی اتفاق نظر آتا ہے۔ اختلاف کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ ہم خطے کے جن ممالک کے ساتھ اپنا موازنہ کرکے خوش ہوتے تھے‘ اب ان کی ترقی‘ عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے قدوقامت اور طاقت کو دیکھ کر اپنی حالتِ زار پر ترس آتا ہے۔ ہم ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے۔ کچھ رومانوی تصورات نے ہماری زبوں حالی میں رنگ بھرے تو قومیت کے جذبے نے بنگال سے لے کر بلوچستان کے پہاڑوں تک لوگوں کو متاثر کیا۔ ہزاروں برسوں کے بندھن اور تہذیبی رشتے جذبات کی رو میں معنی کھو بیٹھے۔ ہم تو اب بھی کہتے ہیں کہ خواب ضروری ہیں کہ ان کے بغیر عمل ممکن نہیں‘ مگر صرف خوابوں پہ تو گزارہ نہیں ہوتا۔ خواب نظریات کی شکل میں ڈھلتے ہیں جن کی بنیاد پر منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ ریاست کا تصور اور خواب بہت اچھا تھا۔ کم و بیش ایک صدی قبل اس کی عملی شکل ابھری جو مختلف سماجی‘ ادبی اور تعلیمی تحریکوں کی صورت رواں تھی۔ تقریباً دو صدیاں قبل بیداری کی شمعیں مسلمان معاشروں میں روشن ہوچکی تھیں۔ وہ سب علم و دانش کی روشنی کے مینار تھے۔ ان کے افکار اور نگارشات اب بھی ہماری روحوں میں تازگی بھر دیتے ہیں۔ اسد اللہ خان غالب ہوں یا ان کے دور کے دیگر شعرا‘ ادیب‘ مصنف اور سماجی اور سیاسی تحریکوں سے وابستہ اہلِ علم۔ وہ خوابِ غفلت کا شکار لوگوں کو جھنجھوڑتے ہیں‘کہ زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔
سرسید احمد خان سے ہمارے روایتی طبقے چڑ اِس لیے کھاتے ہیں کہ علم کے ہر میدان میں وہ تحقیق‘ جستجو اور فکرِ نو کی دعوت دیتے تھے۔مغربی علوم کی روشنی میں انسانی تہذیب و تمدن کو یکسر تبدیل ہوتا دیکھ چکے تھے۔جانتے تھے کہ روایت پسندی اور ماضی کے کھنڈرات نئے وقتوں کے مسافروں کے لیے زادِ راہ نہیں۔ سیاسی طاقت مغل بادشاہوں اور دربار سے وابستہ بر صغیر کے طول و عرض میں طفیلی امرا کے پاس نہ رہی‘ اور پہلی جنگِ آزادی کے بعد اُمرا کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ وہ بھی چشم کشا تھا۔سوچ بچار میرے نزدیک ایک کل وقتی پیشہ ہے‘ اور وہی اسے اختیار کرنے کا حق ادا کرسکتے ہیں جنہیں عقل و دانش سے محبت اور علم و ادب سے رغبت ہے۔ ایسے معاشرتی رویے اور ایسے لوگ نظام کی پیداوار ہوتے ہیں۔ یہ کوئی خود رو جھاڑیوں کی طرح موسم برسات میں روئے زمین پر نمودارنہیں ہوتے۔ مسلمانوں کی سات‘ آٹھ سو برس کی حکمرانی کو لوگ مختلف انداز میں دیکھتے ہیں اور اکثر اس مغالطے میں ہیں کہ دیکھیں اُس وقت مغرب کہاں پہنچ چکا تھااور ہمارے بادشاہ اور اُمرا عیش و عشرت میں مگن تھے۔ یہ اہم سوال ہے۔ سیر حاصل جواب حاصل کرنے کے لیے تہذیبوں کا مطالعہ ضروری ہے۔ مغرب میں بیداری کی تحریک عقلیت پسندی‘ مذہبی افکار کی تشریح‘ علوم وفنون میں تخلیقی عمل اور سرمایہ دارانہ نظام کی ابتدا اور صنعتی ترقی کو سمجھے بغیر ہم اٹھارہویں صدی کے وسط میں طاقت کے توازن کی تبدیلی کا علمی ادراک نہیں کرسکتے۔ صورتحال کا تجزیہ سامراجی دور یا آج کل کی کیفیت میں کرنے کے لیے مغربی تہذیب کے سب پہلوئوں اور دھاروں کا جائزہ لازم ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اکابرین اور مفکرین مغرب کو مذہبی حوالوں سے دیکھتے آئے ہیں۔ وہ تو اپنی ترقی اور تبدیلی کا راز‘ سکیولرازم سے مراد مذہب کو رد کرنے میں نہیں بلکہ ریاست کے امور اور حکومتی عمل سے مذہب کو دور رکھنے میں دیکھتے ہیں۔دوسری طرف ہم اسے ترکِ مذہب کے بے معنی طعنے دیتے رہتے ہیں۔ ایک اور مغالطہ بھی ہے جس کا ذکر کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ آپ ہمارے اوپر تہمتیں لگانا شروع نہ ہوجائیں۔ جدید ریاست کی ہیئت وہ نہیں جو قدیم مذہبی معاشروں کی ہوا کرتی تھی۔ دوسری بات‘مذاہب کی عالمی تاریخ دیکھیں تومذاہب کو مذہبی لوگوں نے اپنے اپنے رنگوں میں زندہ رکھا ہے‘ حکمرانِ وقت نے نہیں۔ اسلام کے ابتدائی دور کی بات بالکل مختلف ہے۔ لیکن اس وقت یہ میرا موضوع نہیں۔ ہم تو بات اپنے زوال در زوال کی کرنا چاہتے ہیں۔
ہمیں تین مواقع ملے کہ اپنا راستہ بنا کرعالمی ترقی کے دھارے میں اپنے آپ کو شامل کر سکیں۔ اس سے پہلے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے بانی وہ ہیں جنہوں نے مغربی علوم سے فیض حاصل کیا تھا۔ ہر نوآبادیاتی ملک میں قومیت‘ آزادی اور جدید ریاست کی تحریکوں کے بانی اور رہنما مغربی جامعات کے طلبا رہے تھے۔ یہ فضول باتیں ہیں کہ کوئی مشرقی یا اسلامی ملک مغربیت اپنا سکتا ہے۔ تہذیبیں ایسے تبدیل نہ ہوتی ہیں‘ نہ اس کی ضرورت ہے۔ صرف ترقی‘ معاشرتی استحکام‘ خوشحالی اور علم کے عالمگیر اصول جو بنی نوع انسان کی میراث ہیں‘ حاصل کرکے اپنی صورتحال کو تبدیل کرنا ہے۔ چین‘ جاپان‘ برازیل اور دیگر ابھرتے ہوئے ممالک اپنی تہذیبیں کھو نہیں چکے۔ اور نہ ایسا ہونا ممکن ہے۔
اب ہم نے جو مواقع ضائع کردیے‘ ان کی طرف آتے ہیں۔ اگر 1958 ء میں طے شدہ پروگرام کے مطابق انتخابات ہوجاتے تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ نہ مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوتانہ جنگیں ہوتیں‘ نہ ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات کی وہ نوعیت ہوتی جو ہماری عجیب و غریب قومی شناخت بن چکی ہے۔ کسی نے اعلان فرمایا کہ پاکستان کے مسائل وہی سمجھتا ہے اور ان کا حل بھی وہ اپنے پاس بریف کیس میں لیے پھرتا ہے۔ شاید آپ کومعلوم نہ ہو‘ یہ ان کے مضمون کا عنوان تھا جو ان کے مطابق انہوں نے امریکہ کے دورے کے دوران لکھا تھا۔ جب جدید ریاستیں اپنی گوناں گوں مشکلات کے باوجود جمہوری اقدار‘آئین‘حکومت اور عوامی تائید کی شاہراہوں پر اپنا سفر جاری کر چکی تھیں تو ہمارے ہاں ایک نئی شکل میں ''بادشاہ‘‘ اپنے حکم سے تخت پر جلوہ افروز ہوئے۔ اس کے بعد جو ہوا اس کے نتائج ہم آج کل دیکھ رہے ہیں۔اس بادشاہ کو اپنی بادشاہت‘جس کے معانی کچھ نادان لوگ نادانی بھی لیتے ہیں‘کا دوبارہ جائزہ لینے کا موقع 1964ء کے انتخابات میں ملا۔ تاریخی دھاندلی اگر نہ کرتے تو محترمہ فاطمہ جناح کی سربراہی میں پاکستان دوبارہ آئینی اور جمہوری راستے پر سفر جاری رکھ سکتا تھا۔ اگر قوم زندہ ہوتی اور آزاد خیال لوگوں کی قدر ہوتی تو جو سیاسی خاندان ایوب خان کے ساتھ ایک عشرے تک چمٹے رہے ان کا تاریخ میں کوئی نام نہ ہوتا۔ تیسرا موقع آخری موقع تھا جب 1970ء کے انتخابات ہوگئے تو اقتدار اکثریتی جماعت کا حق بنتا تھا۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ آج کل جو ملک میں حالات ہیں ان کا موازنہ 1970ء سے نہ کریں تو ہم پوچھتے ہیں کہ کیوں؟ ہم تب طالب علم تھے اور اُس زمانے میں بھی ان کے خلاف تھے جوسیاسی تصفیے کی بجائے خود کشی پر اتر آئے تھے کہ اقتدار صرف اس صورت ان کے ہاتھ آسکتا تھا۔خود سوچیں وہ اتحاد کس کاکس کے ساتھ تھا اور پھر کیا نتائج ہمارے لئے نکلے؟
اجازت ہو تو کچھ فقرے جو اُس زمانے کے اخبارات اور جلسوں میں باربار دہرائے جاتے تھے ان کا ذکر کر دوں: شیخ مجیب الرحمٰن ملک کا غدار ہے‘انتخابات کے نتائج کو تسلیم کر لیا جائے تو ملک ٹوٹ جائے گا‘ ریاست کو بچانا ضروری ہے جمہوریت کو نہیں‘ عوامی لیگ کے چھ نکات کی بنیاد پر آئین بنے گا تو ملک کے ٹکرے ٹکرے ہو جائیں گے‘ عوامی لیگ کا مقصد پاکستان کو توڑنے کو سوا کچھ نہیں‘ غداروں کے خلاف فوجی آپریشن ضروری ہے‘ عوامی لیگ نے ریاستی اداروں اور عوام کے درمیان فاصلے پیدا کئے ہیں۔ موجودہ حالت پر اور کیا تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں ہوش اُس وقت بھی نہیں آیا جب طاقت کے سب نشے ٹوٹ چکے۔ ہم تو ذمہ داروں کا تعین نہیں کر سکتے‘ تاریخ اور وقت کریں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved