جد ھر دیکھیں ہر ہاتھ ماچس پکڑے ہوئے نظر آتا ہے۔ جسے دیکھو اس کوشش میں ہے کہ اپنے سامنے کھڑے شخص کو جلا کر بھسم کر دے۔ انتقام کے شعلے اس طرح آنکھوں سے لپکتے دکھائی دے رہے ہیں جیسے یہ وجود پانی اور مٹی سے نہیں بلکہ آگ میں ڈھالے گئے ہوں۔ اس آگ پر جس طرح تیل ڈالنے کے لیے سپیکروں کا استعمال کیا جا رہا ہے‘ لگتا ہے کہ اس کے سوا اور کچھ غرض ہی نہیں کہ پورے معاشرے میں اس طرح نفرت پھیلا دو اور مقابل کو دنیا جہاں میں اس قدر رسوا کر دو‘ اس کے گرد جھوٹ اور بہتان کے وہ پہاڑ کھڑے کر دو کہ اس کی آواز ان میں ہی دب کر رہ جائے۔ وہ جو بھی کہتا رہے‘ لوگ اسی بات کو سچ سمجھیں جو ان کے ذہنوں میں انڈیلی جا رہی ہو۔ جھوٹ اس قدر تواتر سے پھیلائو اور دہرائو کہ جو کچھ کہا جا رہا ہو‘ جو بتا یا جا رہا ہو‘ بس وہی لوگوں کو سچ لگنے لگے۔ کیا اس طرزِ عمل سے ریاست کے مقدر کو سنوارا جا سکتا ہے؟ کیا عوام کو دیر تک بے خبررکھا جا سکتا ہے؟ آئی ٹی کے اس دور میں جب ایک ہی بات لوگوں کے ذہنوں میں انڈیلتے چلے جائیں گے تو کیا مقاصد حاصل ہو جائیں گے؟ گوئبلز کی تھیوریاں اُس وقت تو چل گئی تھیں جب خبر کے ذرائع محدود ہوتے تھے لیکن آج تو ہر ایک کے ہاتھ میں ریڈیو، ٹی وی، انٹرنیٹ سے لیس موبائل فون ہے۔ اب لوگ اتنے سمجھدار ہو چکے ہیں کہ ہر بات کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ نجانے ہمارے زعما کو‘ حکومتی اربابِ اختیار کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ لوگ ایک ہی قسم کے الاپ سن سن کر اکتا چکے ہیں۔ اس لیے پرانی باتوں کو دہراتے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اب آگے بڑھیں اور لوگوں کے زخموں کو مندمل کرنے کی کوشش کریں۔ ان زخموں کو مت کریدیں، جلتی پر پانی ڈالیں، تیل نہیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس سے منافرت مزید بڑھے گی۔ پہلے ہی حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ ہر کوئی بلاوجہ ایک دوسرے کا دشمن بن چکا ہے۔ قوم اور ریاست کا نظریہ کمزور پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس منافرت کو مزید بڑھانے کا انجام مزید دردناک ہو سکتا ہے۔ اس سے جو زخم لگیں گے وہ کئی دہائیوں تک ایک دوسرے کو تکلیف دیتے رہیں گے۔ اس میں کسی کا مفاد نہیں ہے۔
ڈار صاحب کو معیشت سنبھالے آٹھ ماہ سے زائد ہو چکے ہیں۔ لندن سے روانہ ہوتے وقت ہمیں خوشخبری دی گئی تھی کہ وہ ڈالر کو گردن سے پکڑ کر زمین بوس کر دیں گے اور آئی ایم ایف کا سب غرور توڑ دیں گے۔ ان کا خود بھی دعویٰ تھاکہ ہم سب کچھ خود ہی درست کر لیں گے‘ ہمیں آئی ایم ایف کی ضرورت ہی نہیں لیکن اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ ملکی سالمیت اور کاروبارِ حیات چلانے کے لیے اگلے مالی سال کا بجٹ پیش کرنے کے لیے یہ انتظار کیا جارہا ہے کہ کب آئی ایم ایف کے چہرے پر مسکراہٹ آئے اور وہ کمال مہربانی سے ڈیڑھ ارب ڈالر کے سرمائے کو ہمارے حوالے کرے تاکہ ہم اپنا بجٹ پیش کر سکیں۔ اس وقت جو حالات ہو چکے ہیں اور جس طرح ان کو درست کرنے کے بجائے ڈنگ ٹپائو پالیسیاں اختیار کی جا رہی ہیں، ان پر کسے مجرم ٹھہرائیں؟ کشکول اٹھائے نظر آنے والا یہ ملک دنیا کی ہر دولت سے اس قدر مالا مال ہے کہ اس کے پاس 600 ٹن سے زائد سونا، 700ملین ٹن لوہا ہے۔ تانبا پیدا کرنے والا دنیا کا یہ ساتواں اور کوئلے کے ذخائر کے حوالے سے چوتھا بڑا ملک ہے۔ فنی ماہرین کا ایک سمندر یہاں آباد ہے۔ بے تحاشا افرادی قوت ہونے کے باوجود یہ ملک ہر کسی کا محتاج کیوں بن گیا ہے؟ توانائی کا بحران ایک بار پھر بڑھتے بڑھتے ملکی معیشت اور پیداوار کے درپے ہو چکا ہے۔ جس تعداد میں ملک میں کوئلے کے ذخائر ہیں‘ اگر اس کوئلے کا 20 فیصد بھی بجلی پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جائے تو پاکستان کو اگلے چالیس سال تک20 ہزار میگا واٹ بجلی ملتی رہے گی لیکن بد قسمتی دیکھئے کہ آج شدید گرمی اور حبس میں پاکستان کے80 فیصد گھر انے دن رات کئی کئی گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کا عذاب جھیلنے پر مجبور ہیں۔ گیس کے وسیع ذخائر رکھنے والا یہ ملک اب سردیاں تو درکنار‘ گرمیوں میں بھی گھریلو صارفین کے حصے کی گیس کارخانوں اور فیکٹریوں کودے کر ان کے گھروں کا چولہا بند کر دیتا ہے۔ کاش کوئی حکومتی ریکارڈ خانوں میں دبی ہوئی ان فائلوں کا مطالعہ کرنے کی ہمت کرے جس میں صرف خیبر پختونخوا میں 40 سے زائد مقامات پر گیس کی موجودگی کا عندیہ دیا گیا ہے۔ ایک دہائی سے زائد عرصہ تک گیس کے نئے ذخائر کی تلاش کے لیے اقدامات ہی نہیں کیے گئے۔ اقدامات تو دور‘ کسی نئی کمپنی کو ایکسپلوریشن کے لیے لائسنس تک ایشو نہیں کیا گیا۔ ان فصلوں کو ایک نہ ایک تو کاٹنا ہی تھا، سو آج ہر دوسرا گھر شدید گرمیوں میں بھی گیس کی لوڈشیڈنگ کا شکار ہے۔ کاش کوئی اٹھ کر اپنے وسیع میدانوں اور سمندری ساحلوں پر موجود ہواکو استعمال کر کے بجلی پیدا کرتا تو اس ملک کو پچاس ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی حاصل ہونے پر صنعتوں کا گیس پر انحصار کم ہو جاتا۔ وہ خطہ جو پورے بر اعظم افریقہ اور جنوبی امریکہ سے کئی گنا زیا دہ گندم پیدا کرنے کے حوالے سے جانا جاتا تھا‘ آج وہاں پر عوام آٹے کے د س کلو کے تھیلے کیلئے لمبی لمبی لائنوں میں کئی کئی گھنٹے کھڑے رہتے ہیں۔ بحیثیت قوم یہ کس قدر شرم کا مقام ہے۔ بہترین افرادی قوت رکھنے والایہ دنیا کادسواں بڑاملک ہے لیکن چار کروڑ سے زائد بیروز گاروں کی فوج کا بوجھ اٹھانے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ 5380 سے زائد پی ایچ ڈی سکالرز بیرونِ ملک بھاگنے کو ہیں۔ جس طرح ایک پلے کارڈ اٹھانے پر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ سکالر پروفیسر کو تشدد کا نشانہ بنا کر ٹانگیں توڑی گئیں‘ اس کے پیشِ نظر اعلیٰ تعلیم کے بعد اس ملک میں بسنے اور اس کو اپنی جائے عافیت سمجھنے والوں کی تعداد میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب نوجوانوں کی تعلیم کیلئے مخلص اور اچھے اساتذہ کا فقدان بڑھ چکا ہے۔ دنیا کی ساتویں بڑی فوج اور ایٹمی قوت کا حامل‘ چوبیس کروڑ آبادی پر مشتمل ملک ہر وقت غیروں کی خیرات کا محتاج کیوں ہے؟
کیا کوئی اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ ہم سب بلا توقف اپنی دھرتی کواپنی بساط سے بڑھ کر لوٹ کھسوٹ ر ہے ہیں۔ اس ملک کی تعمیر کیلئے اپنے حصے کی اینٹ لگانے کے بجائے سب نے مل کر اس میں لگی اینٹوں کو کھرچ کھرچ کر کھوکھلا کر دیا ہے۔ اس ملک میں رہتے ہوئے‘ اسی ملک میں بیٹھ کر اسی کو برا بھلا کہنے میں پیش پیش ہیں۔ جس دن قائداعظم کا پاکستان دو لخت ہوا‘ نہرو کی بیٹی نے لال قلعہ میں کھڑے ہو کرکہا تھا کہ آج میں نے دو قومی نظریے کو بحیرۂ ہند میں غرق کر دیا ہے۔ اس نے اعلان کیا کہ میں نے مشرقی اور مغربی پاکستانیوں کے مابین ہر رشتہ توڑ دیا ہے۔ آج اس زخم کو لگے 52برس ہو چکے ہیں۔ آج پھر دشمنوں کی سازشوں سے اس کے ہر حصے اور ہر کونے میں آگ بھڑک رہی ہے۔ یہ بالکل وہی تحریر ہے‘ وہی تدبیر ہے اور وہی تصویر ہے جس میں انتقام کے شعلے بھڑکتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر کوئی یہ تصور کیے بیٹھا ہو کہ صرف اس کا مخالف ہی اس آگ میں جلے گا تو یاد رکھئے کہ انتقام کے شعلوں سے دامن کسی کا بھی نہیں بچے گا۔ پاکستان کے بڑے بڑے سرمایہ کار اپنا آدھے سے زیا دہ سرمایہ دوسرے ملکوں میں بھیج چکے ہیں اور بے پناہ قدرتی وسائل رکھنے والا پاکستان اس حالت تک پہنچا دیا گیا ہے کہ مالی سال 2024ء کا بجٹ پیش کرنے کیلئے بھی آئی ایم ایف کی طرف دیکھا جا رہا ہے۔ یقینا قدرت کے قوانین اٹل اور بے لچک ہوتے ہیں۔ ہمارے لیے بھی ان میں کوئی استثنا نہیں ہے۔ سید الانبیاﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر میری بیٹی بھی چوری کرے گی تو اس کو بھی وہی سزا ملے گی‘ جو باقیوں کو ملے گی۔ کیا ہم پورے معاشرے کو ایک نظر سے دیکھ رہے ہیں؟ بے لاگ احتساب اور قوانین کا کڑا نفاذ‘ یہی اس ملک کو بچانے کا نسخہ ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved