بلاشبہ سانپ گزرجانے کے بعد لکیر پیٹتے رہنا‘ کارِدانش نہیں لیکن ستم یہ ہے کہ لکیر بھی ہمیں سانپ ہی کی طرح پیہم ڈنک مارے جارہی ہے۔ اس کے ہر پیچ وخم سے زہریلی آبشار والی پھنکاریں اٹھ رہی ہیں اورپراجیکٹ عمران خان محروم ِاقتدار ہو کر بھی آکاس بیل بنا ہوا ہے۔ دس بارہ برس پہلے ''طفلانِ خود معاملہ‘‘ نے کھیل ہی کھیل میں جس منصوبے کی نیو ڈالی تھی وہ آج سرطان کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ کہتے ہیں روحانی اساس پر بسنے والے شہروں کے سنگ وخشت میں بھی دل دھڑکتا ہے۔ وہ بھی اپنی بے چارگی پہ کڑھتے اور اپنی کم نصیبی پر آنسو بہاتے ہیں۔ شاید اُنہی کی آہیں آج 'طفلان خود معاملہ‘ کا تعاقب کررہی ہیں۔ وہ رسوائیوں کے بھنور میں ہیں لیکن پاکستان کے کسی ادارے میں اتنی سکت نہیں کہ انہیں کٹہرے میں لائے اور اُن سے پوچھے کہ تم لوگوں نے پاکستان کو کیوں اِس آتش کدے میں جھونک دیا ہے؟
آج فوج بطور ادارہ اس بے ثمر پراجیکٹ سے کنارہ کش ہوچکی ہے لیکن 2017ء کا پاکستان کیسے واپس لایا جائے؟ عدلیہ کے کچھ دل پھینک عناصر آج بھی ستر سالہ محبوبہ کے شکن آلود چہرے میں عارض و رُخسار کی لہک مہک دیکھ رہے ہیں۔ مقدمے کی نوعیت اور جرم کی شدت دیکھے بغیر ''گُڈ ٹو سی یو‘‘ کہتے ہوئے زمان ومکان کی حدود سے ماوراضمانتیں نچھاور کی جارہی ہیں۔ اُدھر عالمی استعمار بھی سینہ تان کر سامنے آگیا ہے‘ جو کسی نہ کسی انداز میں اس پراجیکٹ کا شراکت دار ہے۔ گوانتا نامو جیسی عقوبت گاہ کے مظالم بھی مصفّٰی پانی کی طرح ہضم کرجانے والوں کے پیٹ میں پاکستان کی صورتحال پر مروڑ اٹھنے لگے ہیں۔ اندرونِ ملک پراجیکٹ عمران خان‘ آتش مزاج نونہالانِ بے راہ وسمت‘ چند قاضیانِ انصاف پرور اور تھوڑے سے مبلغّین ابلاغیات تک محدود ہوچکا ہے لیکن جانے کیوں امریکہ کے ہاتھ پائوں پھول گئے ہیں۔ امریکی لے پالک اور مرغِ دست آموز زلمے خلیل زاد کے بیانات دیکھیں۔ ایک ایک لفظ خان صاحب سے والہانہ محبت کے شیرے اور پاک فوج سے نفرت کے ملغوبے میں لتھڑا ہوا ہے۔ کیا زلمے خلیل زاد‘ جو ہمیشہ ''ہِز ماسٹرز وائس‘‘ والے کالے توے کی طرح بجتا رہا‘ یہ سب کچھ اپنے طور پر کررہا ہے؟ کیا ماضی میں کبھی اُس نے تنخواہ دار امریکی کارندے سے ہٹ کر کوئی مشن اپنایا ؟ اُس کی حیثیت امریکی خلائی ادارے ناسا سے چھوڑے جانے والے راکٹ کے سوا کچھ نہیں۔ بے ننگ ونام اور مشکوک کردار کی حامل سنتھیا رچی کیوں پی ٹی آئی کی ترجمان بن کر ہماری مسلح افواج کو کوسنے دے رہی ہے ؟ کیا وجہ ہے کہ آئی ایم ایف ہماری رگوں کا آخری قطرۂِ خوں نچوڑ لینے کے بعد بھی‘ بالا خانے کی شاطر مزاج زنِ بازار کی طرح نت نئی شرائط عائد کئے جارہا ہے اور ہلکی سی چھَب بھی نہیں دکھا رہا؟ امریکی ادارے ہر روز ہمارے دیوالیہ ہو جانے کی خبریں کیوں دے رہے ہیں؟ امریکی سفارت کاروں کی تحریکِ انصاف کے عہدیداروں سے ملاقاتوں کا موضوع کیا ہوتا ہے؟ دفاعِ پاکستان کی ہر علامت پھونک ڈالنے اور شہدا کی یادگاریں تک اُدھیڑ ڈالنے والے مجرموں کو انسانی حقوق کی آڑ میں معصومیت کی قبائیں کیوں پہنائی جارہی ہیں ؟ان سارے سوالوں کا جواب ایک ہی ہے۔ ''پراجیکٹ عمران خان‘‘ آج بھی اُن قوتوں کی واحداُ مید ہے جو پاکستان کو بے دست وپا دیکھنا چاہتی ہیں۔ وجوہات واضح ہیں۔ اس پراجیکٹ نے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی چین کو آنکھیں دکھانا شروع کردی تھیں۔ 2014ء کے دھرنوں میں عمران خان نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری لانے والے چینی صدر کا دورہ موخر کرایا۔ اقتدار میں آئے تو سی پیک کا دفتر لپیٹ دیا جوامریکہ اور بھارت سمیت تمام چین مخالف ممالک کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے پورے دور میں چینی سفارت کار پریشان اور آزردہ خاطر رہے۔ ہمارے بدخواہوں کے دلوں میں عمران خان کا عہدِحکمرانی اس لئے بھی لالہ و گُل کھلاتا رہا کہ پاکستان مسلسل زوال کی پستیوں میں لڑھکتا رہا۔ معیشت برباد ہوتی رہی۔ کرپشن پھولتی پھلتی رہی۔ دہشت گردی سراٹھاتی رہی۔ بھارت کو شہ ملتی رہی۔ اُس نے مقبوضہ جموں وکشمیر کو ضم کر لیا۔ خان صاحب نے کشمیر ہائی وے کی تختی اتار کر سرینگر ہائی وے کی تختی لگائی اور مطمئن ہوگئے۔ عالمی برادری تو کیا‘ وہ دوست اسلامی ممالک کو بھی متحرک نہ کرسکے۔
موجودہ حکومت جو بھی ہے‘ جیسی بھی ہے‘ گرتی پڑتی آگے بڑھ رہی ہے۔ آئی ایم ایف نے اُسے دبوچ رکھا ہے لیکن وہ سانس لے رہی ہے۔ متلاطم پانیوں میں گھری کشتی کو سنبھال رہی ہے۔ اس نے چین‘ روس اور ایران سے رابطوں میں نئی گرم جوشی پیدا کی ہے اور معیشت کی استواری کیلئے متبادل راہیں تراش رہی ہے۔ یہ سب کچھ بدخواہوں کیلئے قابلِ قبول نہیں۔ وہ ہم پر دبائو بڑھانا چاہتے ہیں۔ ہمیں منقسم اور منتشر رکھنا چاہتے ہیں۔ فوج کے قلعے میں دراڑیں ڈالنا چاہتے ہیں۔ انتشار‘ افراتفری اور عدم استحکام کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔ ہمیں شام‘ لیبیا‘ سوڈان‘ افغانستان‘ روانڈابنانا چاہتے ہیں۔ طوائف الملوکی اور خانہ جنگی کو اس انتہا پر پہنچا دینا چاہتے ہیں کہ خدانخواستہ‘ ان کے مکروہ ہاتھ ہمارے ایٹمی اثاثوں تک پہنچ جائیں۔ یہ ہیں وہ اہداف جن کیلئے پراجیکٹ عمران خان کو کسی نہ کسی طور زندہ رکھنا ضروری ہے۔ اس لئے نہیں کہ عمران خان کو پھر سے اقتدار میں لایاجائے‘ اس لئے کہ یہ آتش فشاں ٹھنڈا نہ ہونے پائے۔ مسلسل دہکتا اور آگ اگلتا رہے۔ مسلسل فوج پر برہنہ حملے کرتا رہے۔ مسلسل انتشار اور طوائف الملوکی کو ہوا دیتا رہے۔ گزشتہ برس‘ عدمِ اعتماد کا بگل بجا تو عمران خان نے امریکہ کو نشانے پہ دھرلیا۔ اُسے ''رجیم چینج‘‘ منصوبے کا سرغنہ قرار دیا۔ اس کے باوجود امریکیوں کا دل کھٹّا نہ ہوا کیونکہ عمران خان اُن کے مطلوبہ پاکستان کیلئے انتہائی کارآمد پرزہ تھا۔ جلد ہی خان صاحب کو بھی اندازہ ہوگیا کہ اُن کی خانہ خرابی کو کہاں اماں ملے گی۔ سو اُنہوں نے ایک سے زیادہ لابنگ کمپنیوں کی خدمات خریدیں۔ رابطے بڑھائے۔ مشترکہ اہداف طے کئے۔ اور اب بلی پوری طرح تھیلے سے باہر آچکی ہے۔ امریکی کانگریس کی خاتون رکن سے اُن کی گفتگو اُن کی حالتِ زار کی تصویر کشی کررہی ہے۔ کس لجاجت سے وہ اپنی سرپرستی کی التجا کر رہے ہیں؟ کس بیدردی سے پاکستان پر تازیانے برسانے کا تقاضا کررہے ہیں؟ کس حیا باختگی سے افواجِ پاکستان کو مطعون کررہے ہیں؟
ادھر نجانے عزم وارادہ کی ناپختگی ہے یا اہلیت کا فقدان کہ 9 مئی کو لگ بھگ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود نہ کسی پہ تاخت وتاراج کا ٹھوس مقدمہ بنا‘ نہ کوئی عدالت لگی‘ نہ کسی کو کٹہرے میں لایاگیا۔ ایسے معاملات میں تاخیر ہمیشہ مجرم کے حق میں جاتی ہے۔ 2011ء کے لندن فسادات زیادہ دور کی بات نہیں۔ یہ محض لوٹ مار کے واقعات تھے جو پولیس کے ہاتھوں ایک شخص کے قتل کے بعد شروع ہوئے۔ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے نہ اپوزیشن کی سُنی‘ نہ انسانی حقوق کی دہائی دینے والے اداروں کی‘ نہ میڈیاکی۔ پہلا حکم یہ جاری کیا کہ متعلقہ عدالتیں چوبیس گھنٹے کھلی رہیں گی۔ کیمروںاور موبائل فونز کے ذریعے چند گھنٹوں میں تین ہزار سے زائد افراد گرفت میں آگئے‘ سمری کورٹس کو کہاگیا کہ ان افراد کو عدل کے روایتی پیمانوں پر نہ جانچا جائے۔ نہ کوئی جے آئی ٹی بنی‘ نہ کوئی کمیشن‘ صرف حکومت اور متعلقہ اداروں کا عزم بروئے کار آیا۔ سو چند دنوں کے اندر اندر تمام مجرم کیفرِکردار کو پہنچا دیے گئے۔ ان میں کھڑکی کا شیشہ توڑنے والی گیارہ سالہ بچی بھی تھی‘ شراب کی ایک بوتل اٹھا کر بھاگنے والا بارہ سالہ لڑکا بھی اور چُرائے گئے دو جانگیے تحفہ لینے والی خاتون بھی اور ادھر ہماری ساری تگ ودو تقریروں‘ پریس کانفرنسوں‘ بیانوں‘ اعلامیوںاور اُن کی توثیق ِ مزید کے درمیان آنکھ مچولی کھیل رہی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved