انتخابات اپنے وقت پہ ہی ہوں گے اور ہونے بھی چاہئیں کیونکہ اس کے علاوہ کوئی حل نہیں‘ اورانتخابات ہر صورت صاف و شفاف ہونے چاہئیں‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ تمام پارٹیوں کو یکساں موقع ملے۔ میڈیا اور عدالت مکمل طور پہ غیر جانبدار ہوں اور عسکری ادارے نگران حکومت کی اتنی اعانت کریں جو سکیورٹی کے حوالے سے ضروری ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا ان حالات میں کیا کیا جائے؟ پی ٹی آئی قیادت اور خان صاحب پر مقدمات کے حوالے سے سب کچھ قانون کے مطابق ہونا چاہئے۔ خان صاحب کو عدلیہ پر اعتماد ہے‘ انہیں اشتعال انگیزی کی بجائے عدالتوں سے ریلیف حاصل کرنا چاہئے۔ اگر خان صاحب پر لگائے گئے الزامات سچ ثابت ہوتے ہیں تو سزا کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا چاہئے۔ اگر الزامات سیاسی انتقام تک محدود رہتے ہیں اور وہ عدالتوں سے سرخرو ہو جاتے ہیں تو انہیں الیکشن لڑنے دیا جائے کیونکہ خان صاحب سے زیادہ اہم اس ملک کے عوام ہیں جو عمران خان کے ساتھ ہیں‘ان سے کسی بھی صورت یہ حق نہیں چھینا جا سکتا۔
خان صاحب اور پی ٹی آئی قیادت سے نو مئی کو سنگین غلطی سرزد ہو چکی۔ نو مئی کے پرتشدد واقعات میں پی ٹی آئی قیادت کی پلاننگ کے مبینہ شواہد سامنے آ چکے ہیں۔ پی ٹی آئی نے تین قسم کی جگہوں پہ حملے کئے جس کا ملک کی افواج یا ہیروز کے ساتھ تعلق ہے‘ جس کا ملک کی ترقی کے ساتھ کوئی تعلق ہے جس کی تاریخی اہمیت ہے یا جو آرکیالوجیکل سائٹس ہیں۔یہ غیر معمولی عمل ہے اورمنظم کارروائی ہے جس کی پہلے سے تیاری کی گئی تھی‘ تاہم بطور سیاسی جماعت پابندی درست نہیں ہو گی کیونکہ تجربہ بتاتا ہے کہ اس طرح اگر کیا گیا تو پی ٹی آئی کا منتشر ہجوم انتہاپسند گروہوں کے ہاتھوں میں جائے گا۔ اس لیے عام ووٹرز‘ سپورٹرز کو راستہ دینا ضروری ہو گا۔
خان صاحب کے متعلق مشکل لگتا ہے کہ وہ ایک غیر جانبدار عدلیہ کی موجودگی میں مقدمات میں سے بچ سکیں کیونکہ جتنے کیسز ہیں ان کے ثبوت موجود ہیں۔ خان صاحب سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے وائٹ کالر کرائمز کو بلیک طریقے سے سرزد کیا‘ اس امید پر کہ قومی ادارے دس پندرہ سال تک ان کے ساتھ ہیں اوروائٹ کالر کرائمز میں پکڑ مشکل ہوتی ہے‘ مثلاً یہ ثابت کرنا کہ کس نے کس پراجیکٹ میں کمیشن لیا ہے؟ سب سے پہلی بات یہ کہ کن زمینوں کے انتقال اور بینکوں کے ذریعے برطانیہ سے رقم آئی اور اس کو ایک ایسے اکاؤنٹ میں جمع کروانا جہاں کسی کے جرمانے کی قسط دینی ہو اور پھر چنددن بعد اپنے اور اہلیہ کے نام پہ ٹرسٹ بنا کے اسی شخص سے جسے فائدہ دیا گیا تھا‘ چار پانچ سو کنال زمین حاصل کر لینا۔ خان صاحب اپنے دورِ حکومت میں ایسی مشکوک ٹرانزیکشنز اور پروجیکٹس کی بنا پر حریف سیاسی قائدین پر الزامات عائد کرتے رہے ہیں مگر خود کو کسی طرح کی جوابدہی سے بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ یہ دہرا معیار ہے اور ناقابل قبول بھی۔
موجودہ حکومت نے معاشی سطح پر کوئی بڑی کامیابی تو حاصل نہیں کی ہے جس کے فوری نتائج آ سکیں البتہ خارجہ سطح پر جو کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں ان کے نتائج حاصل ہوں گے۔ جس دن وزیر اعظم شہبازشریف پاک ایران سرحد پر بجلی ٹرانسمیشن لائن اور مارکیٹ کا افتتاح کر رہے تھے اسی دن اسلام آباد میں ''روڈ ٹو مکہ‘‘کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہو رہے تھے‘ جس سے 26ہزار حجاج کرام مستفید ہوں گے۔ روڈ ٹو مکہ پروگرام کے تحت عازمین حج کی امیگریشن کے مراحل اور قانونی تقاضے روانگی سے پہلے متعلقہ ایئرپورٹ پر پورے کر لئے جاتے ہیں جس کے بعد حجاج کرام کم سے کم وقت میں اپنے ہوٹل میں پہنچ جاتے ہیں۔ اسی طرح واپسی پر بھی امیگریشن کے مراحل سے نہیں گزرنا پڑتا۔ چینی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان اور منصوبوں پر اہم پیش رفت سے بھی آنے والے وقت میں فوائد حاصل ہوں گے۔ جہاں تک مہنگائی اور بے روزگاری کا تعلق ہے تو الیکشن میں اتحادی اسے بھگت لیں گے‘ اپنے کئے کی سزا انہیں ملے گی‘ کیونکہ انہوں نے جان بوجھ کے یہ کانٹوں کا ہار اپنے گلے میں ڈالا۔ ہمیں ان سے بھی کوئی ہمدردی نہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ انہیں اس کی سزا ملنی چاہئے‘ تاہم یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم کسی بھی ایسے عمل کی حمایت نہیں کر سکتے جس میں غیر منتخب فاشسٹ ہم پہ حکمرانی کریں۔ ہمیں غیر منتخب فاشسٹ حکومت سے الیکشن کے ذریعے منتخب شدہ فاشسٹ حکومت قبول ہے کیونکہ اس صورت میں عوام اپنے کئے کی سزا بھگتیں گے۔ہم کسی طور ناکردہ گناہ یعنی غیر منتخب فاشسٹ کو نہیں مان سکتے۔ ماضی کے تلخ تجربات کی بنا پر اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت ملک کو مزید تباہ کرے گی لیکن وہ عوام کی چوائس ہو گی جسے عوام کو بھگتنا چاہئے۔ جیسا کہ برطانوی حکمرانوں نے Brexit کو مانا اور امریکا میں ٹرمپ کو مانا گیا‘ انڈیا میں مودی سرکار نے گو کہ ملک کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں مگر عوام ساتھ ہیں تو کوئی کیا کر سکتا ہے‘ عوام جب اپنے شعور کی بنیاد پر کسی کو منتخب کرتے ہیں تو یہی حل ہے کہ عوام کو بھگتنے دیا جائے۔ ہم نے پہلے بھی عوام کی رائے نہیں مانی تھی اور جواز یہ پیش کیا تھا کہ مجیب الرحمان کو حکومت دے دی تو ملک ٹوٹ جائے گا‘ جبکہ مجیب الرحمان کو حکومت دی جاتی تو ملک بچ سکتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہونا تھا کہ مجیب الرحمان داخلی خود مختاری لے لیتا۔
خان صاحب بیانیہ تشکیل دینے میں ماہر ہیں اس لیے انہوں نے عالمی میڈیا کے سامنے یہ مؤقف پیش کیا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو خطرات لاحق ہیں۔ خان صاحب نے الزام عائد کیا ہے کہ پی ڈی ایم فوج کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے انہیں سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کیلئے کوشاں ہے۔ خان صاحب کے بقول آ ج 23مئی کو اسلام آباد میں ان کی گرفتاری کے 80 فیصد امکانات ہیں۔ آج خان صاحب کا سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ الیکشن سے پہلے انہیں بے جا مقدمات میں ملوث کیاجا رہا ہے۔اسی طرح کا شکوہ مسلم لیگ (ن )کی قیادت کو بھی تھا کہ پچھلے دورِ حکومت میں خان صاحب نے متقدر قوتوں کی اشیر باد سے ان پر مقدمات قائم کر کے ان کی مقبولیت کو کم کرنے کی کوشش کی۔ خان صاحب مگر اپنی ذات سے بالا تر ہو کر سوچنے کیلئے تیار نہیں۔ انہیں کھل کر اعتراف کرنا چاہیے کہ ماضی میں ان کی ایما پر بلاجواز مقدمات قائم کئے گئے۔
یہی موقع ہے کہ خان صاحب میاں نواز شریف کی واپسی کو قبول کریں تاکہ الیکشن میں سب کو لیول پلیئنگ فیلڈ میسرآئے۔ اگر خان صاحب نے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ نہ کیا اور ان کی سوچ اپنے تک محدود رہی تو بعید نہیں کہ پی ٹی آئی کیلئے جیسے حالات اب ہیں اس سے مشکل حالات کا انہیں سامنا کرنا پڑے۔ خان صاحب صرف اتنا سچ بولنا چاہتے ہیں جس میں انہیں اپنا فائدہ نظر آتا ہے‘ مگراس سے سیاسی کشیدگی کم ہو گی اور نہ ہی حالات معمول پرآئیں گے۔ہمیں اپنے حصے کا بوجھ اٹھانے اور پورا سچ بولنے کی عادت اپنانا ہو گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved