دنیا میں جتنی بھی نیرنگی دکھائی دے رہی ہے سب کی سب سوچ کے فرق کی پیدا کردہ ہے۔ کوئی سے بھی دو انسانوں کے درمیان سوچ یکساں نہیں ہوتی۔ سوچ کا فرق ہی ہمیں زندگی کے تنوع سے رُوشناس کراتا ہے۔
سوچ کا فرق کیوں پایا جاتا ہے؟ کیا یہ صرف مزاج کا نتیجہ ہے؟ کیا محض قریبی ماحول انسان کو ایک خاص انداز سے سوچنے کی تحریک دیتا ہے؟ کیا سوچ کا ایک خاص انداز محض مجبوری ہے یا سوچ سمجھ کر اپنایا جانے والا معاملہ؟ کیا خالص غیر جانبدارانہ سوچ ہوا کرتی ہے؟ کوئی انسان یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ بالکل اُسی طرح سوچتا ہے جس طرح سوچنا چاہیے یا جیسا کہ سوچنے کا حق ہے؟ سوچ کے فرق کو ہر معاملے میں قبول کیا جانا چاہیے؟ یہ اور ایسے ہی دوسرے بہت سے سوال ہر انسان کے ذہن کے پردے پر ابھرتے رہتے ہیں۔ جب تک سانسوں کا تسلسل برقرار ہے تب تک انسان کو کسی نہ کسی درجے میں سوچنا تو ہے۔ اب آئیے اِس بات کی طرف کہ عمومی سطح پر ہم جسے سوچ کہتے ہیں وہ فی الواقع سوچ ہے بھی یا نہیں۔ کیا ذہن میں ابھرنے والے ہر تصور یا تاثر کو سوچ کا درجہ دیا جاسکتا ہے؟ عام آدمی واقعی سوچتا ہے یا محض سوچنے کے گمان میں مبتلا رہتا ہے؟ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ کسی بھی معاشرے میں واقعی سوچنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ ٹھوس انداز سے اور اخلاص کے ساتھ سوچنا کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ یہ نصیب سے زیادہ اکتسابِ فن کا معاملہ ہے یعنی سیکھنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی بیٹھے بیٹھے سوچنا نہیں سیکھ جاتا۔ عام آدمی دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے کے بارے میں فکر مند رہتا ہے اور ہم اِسے سوچ کا نام دے لیتے ہیں۔ یہ سوچ نہیں، محض پریشانی ہے۔ عمومی سطح پر ذہن میں جو کھچڑی پکتی رہتی ہے وہ محض گمان ہوتے ہیں یا پھر وسوسے اور پریشانیاں۔ جب ذہن میں کوئی گِرہ پڑ جائے تو انسان مبتلائے تفکر دکھائی دیتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں وہ سوچ رہا ہے، کوئی منصوبہ تیار کر رہا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا! کسی بھی مسئلے کے بارے میں محض فکر مند رہنے اور پریشان ہوتے رہنے کو ہم سوچنے کے عمل سے تعبیر نہیں کرسکتے۔
آپ نے بھی محسوس کیا ہوگا کہ جب کبھی کوئی مشکل صورتِ حال درپیش ہوتی ہے تب ابتدائی لمحات میں ذہن سوچنے سے یکسر انکار کردیتا ہے اور خیالات منتشر ہونے لگتے ہیں۔ یہ بدحواسی انسان کو مزید پریشان کرتی ہے۔ کوئی بھی مسئلہ جتنی مشکل پیدا کرسکتا ہے اُس سے کہیں زیادہ مشکل ہمارا ذہن اُس کے ردِعمل میں پیدا کر بیٹھتا ہے۔ ذہن کی تربیت کی گئی ہو تو کسی بھی مسئلے کو حقیقت پسندی کے ساتھ قبول کرنے کی صورت میں معاملات درستی کی طرف جاتے ہیں اور ہم ڈھنگ سے کام کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ڈھنگ سے سوچنا کیا ہوتا ہے اور مسائل کو حقیقت پسندی کے ساتھ قبول کیونکر کیا جاسکتا ہے۔ عمومی سطح پر ہم سب محض فکر مند رہنے کو سوچنے کے عمل سے تعبیر کرتے ہیں جو ایک بنیادی غلطی ہے۔ جب تک ہم اس غلطی کی نوعیت سمجھ نہیں پائیں گے تب تک ڈھنگ سے سوچنے کی طرف جا نہیں پائیں گے۔ سوچنے کا عمل ترتیب طلب کرتا ہے۔ جب ہم کسی مشکل صورتِ حال کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں تب ذہن میں پائی جانے والی ترتیب بگڑنے لگتی ہے۔ اِس نازک مرحلے کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کوئی بھی مسئلہ اصلاً اِس لیے نہیں ہوتا کہ اُسے سامنے پاکر بدحواس ہوا جائے۔ یہ تو کوئی بات ہی نہ ہوئی! ہر مسئلہ حل کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ اِس کے لیے حل طلب سوچ درکار ہوتی ہے۔ ذہن کی تربیت کی گئی ہو تو وہ کسی بھی مسئلے کو سامنے پاکر سوچنے پر مائل ہوتا ہے۔ جس طور کسی معمے کو مکمل کرنے کے لیے ٹکڑے جوڑے جاتے ہیں بالکل اُسی طور ذہن بھی کسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے بہت سے ٹکڑے جوڑتا ہے۔ مسائل کا حل اِسی طور تلاش اور تیار کیا جاتا ہے۔
کوئی بھی ذہن مسائل کا حل تلاش کرنے پر اُسی وقت مائل ہوسکتا ہے جب اُسے اِس حوالے سے تربیت کے مرحلے سے گزارا گیا ہو۔ عام آدمی بہت سے مسائل کا سامنا کرتا رہتا ہے مگر اُن کا حل تلاش کرنے کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ جن معاملات میں حقیقت پسندی ناگزیر ہو اور کسی کو اُس کا حق دینا ہو اُنہیں انسان سرد خانے میں رکھنے پر بضد رہتا ہے۔ معاملات نمٹائے نہ جائیں تو محض مسائل نہیں رہتے بلکہ رفتہ رفتہ بحران کی شکل اختیار کرتے جاتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں واقعی سوچنے والوں کی تعداد برائے نام ہوتی ہے مگر ہاں‘ ترقی یافتہ معاشروں میں سوچنے کی عمومی سطح بھی چونکہ خاصی بلند ہوتی ہے اور لوگ بالعموم مثبت طرزِ فکر کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں اِس لیے ہمیں وہاں سوچ کے حوالے سے خرابیاں کم دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان جیسے معاشروں میں سوچنے کا معاملہ بھی انتہائی حد تک رُلا ہوا ہے۔ عام آدمی سوچنے پر مائل ہی نہیں ہوتا۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ اگر اُنہیں سمجھائیے کہ باضابطہ سوچنا سیکھیں اور اپنے مسائل کی بہتر تفہیم ممکن بنائیں تو شدید لا اُبالی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات کو ٹالتے رہنے کی وکالت کرتے ہیں اور ''دیکھا جائے گا‘‘ والی ذہنیت کے ساتھ زندگی بسر کرتے رہنے کو ترجیح دیتے رہتے ہیں۔
بچے سوچنا کب سیکھتے ہیں؟ سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ کچھ لوگ بہت چھوٹی عمر سے سوچنے پر مائل رہتے ہیں جبکہ بیشتر کا یہ حال ہے کہ 70، 80 سال کے ہو جانے پر بھی کوئی پورے یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ سوچنا جانتے ہیں! کوئی بھی بچہ اُسی وقت (باقاعدگی سے، منظم طور پر) سوچنا سیکھتا ہے جب گھر کے بڑے اور خاندان کے بزرگ ایسا کرنے کی تحریک دیتے ہیں۔ اِس کے لیے پہلے مرحلے میں یہ لازم ہے کہ بڑوں کو سوچنا آتا ہو! بچے وہی تو سیکھتے ہیں جو اُن کے ماحول میں پایا جاتا ہے۔ اگر بڑے ہر وقت غیبت کرتے رہیں تو یہ عادت بچوں میں بھی پروان چڑھ جاتی ہے۔ اگر بڑوں کو ہر وقت حالات کا رونا روتے رہنے کی عادت ہو تو بچے بھی گلے شکوے کرتے رہنے کو زندگی کا مقصد سمجھنے لگتے ہیں۔ بڑے اگر کتابیں پڑھیں اور سوچ سمجھ کر بولیں تو بچے بھی اِس طرف آتے ہیں۔ یوں سوچ کا فرق پیدا ہوتا ہے۔ علم دوست گھرانوں کے بچے دور سے پہچانے جاتے ہیں۔ اُن کی طرزِ تخاطب اور وضع قطع بہت کچھ بتارہی ہوتی ہے۔ سوچنے کا فرق خاندان کی بخشی ہوئی تربیت سے بھی پیدا ہوتا ہے اور انسان کی اپنی کوششوں سے بھی۔ جب بڑوں کی طرف سے سوچنے کی بنیادی تربیت مل گئی ہو تو انسان مطالعے اور مشاہدے کی طرف جاتا ہے۔ وسیع اور وقیع مطالعے سے سوچ نکھرتی ہے کیونکہ انسان امکانات کے بارے میں سوچتا ہے۔ بالکل اِسی طور مشاہدہ بھی بہت کچھ سکھاتا ہے۔ معیاری مشاہدہ بھی انسان کو امکان پسندی کی طرف لے جاتا ہے۔ ایسے میں وہ کسی بھی مسئلے کو سامنے پاکر محض پریشان ہونے پر اکتفا کرنے کے بجائے حل کے بارے میں سوچتا ہے اور میدانِ عمل میں نکلنے کا ذہن بناتا ہے۔
بچپن ہی سے جنہیں امکانات تلاش کرنے کے بارے میں بتایا گیا ہو اور سوچنے کے ڈھنگ سے رُوشناس کرادیا گیا ہو وہ ہر معاملے کو اُس کی اصلیت کے ساتھ دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سوچ بالعموم مثبت ہوتی ہے یعنی وہ بلا ضرورت پریشان نہیں ہوتے اور مسائل کا حل تلاش کرنے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ اُن کی طرزِ فکر و عمل دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اِس دنیا میں جو کچھ بھی آنکھوں کے سامنے ہے وہ صرف اور صرف سوچ کا فرق ہے۔ یہ سوچ کا فرق ہی تو ہے جو ہمیں کسی بھی صورتِ حال میں امکانات تلاش کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ جو سیڑھیاں نیچے لاتی ہیں وہی سیڑھیاں اوپر بھی لے جاتی ہیں۔ یہ اور ایسی ہی بہت سے دوسری عمومی باتیں اور چیزیں ہمارے لیے زیادہ قابلِ توجہ نہیں ہوتیں جبکہ اُن سے ہمیں بہت کچھ سیکھنا ہوتا ہے۔ زندگی قدم قدم پر سوچنا سکھاتی ہے، سوچتے رہنے کی تحریک دیتی ہے۔ سوچنا کیا ہوتا ہے اِس موضوع پر سینکڑوں کتابیں مفت دستیاب ہیں۔ اِن کتابوں کا مطالعہ کیجیے تاکہ اندازہ ہو کہ آپ سوچ کے حوالے سے کون سے پائیدان پر کھڑے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved