تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     24-05-2023

سیاسی پارٹی سے کالعدم جماعت تک

''پی ٹی آئی کالعدم ہوکر رہے گی اور عمران خان کا مستقبل جیل ہے۔ نو اور دس مئی کے واقعات کے پیچھے کوئی دشمن ملک ہوتا تو بات سمجھ میں آتی مگر دکھ تو یہ ہے کہ ان پُرتشدد واقعات کا ماسٹر مائنڈ عمران خان تھا۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی! سزا تو ملے گی اور ضرور ملے گی۔ حکومت فیصلہ کر چکی ہے، اس بار معافی کی کوئی گنجائش نہیں‘‘۔
یہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر کی نجی محفل میں کی گئی گفتگو تھی، جسے سنتے ہی پی ٹی آئی رہنما بھڑک اٹھے۔ دونوں کے بیچ تند و تیز مکالمہ آدھ گھنٹے تک جاری رہا۔ مجھے دونوں حضرات کی گفتگو سن کر مستقبل کا منظر نامہ صاف دکھائی دینے لگا۔
رہنما پی ٹی آئی: کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ شہباز حکومت کی کوئی حیثیت نہیں کہ وہ عمران خان کو جیل میں بھیجے۔ اصل فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں۔ یہ حکومت تو کٹھ پتلی ہے۔ جو حکم ملتا ہے اس کو سر جھکا کر قبول کر لیتی ہے۔
وفاقی وزیر: سیاست میں آم کھائے جاتے ہیں‘ پیڑ نہیں گنے جاتے۔ فیصلہ ہم کریں یا کوئی اور‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہمارے لیے اہم یہ ہے کہ عمران خان جیسا شخص سیاست سے مائنس ہونے جا رہا ہے۔ منفی سیاست کا باب جتنی جلدی ختم ہو جائے ملک کے لیے اتنا ہی اچھا ہے۔
رہنما پی ٹی آئی: کون سی منفی سیاست؟ عمران خان کبھی منفی سیاست نہیں کرتے۔ منفی سیاست تو یہ ہے کہ اپنے مخالف کو راستے سے ہٹا دو۔ اس کے پارٹی رہنماؤں کی وفاداریاں زور‘ زبردستی سے تبدیل کراؤ اور پھر بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوں تو سیاسی جماعت ہی کو کالعدم قرار دے دو۔ آپ لوگ عمران خان پر بہت تنقید کرتے ہیں مگر کیا کبھی حکومت نے اپنی اداؤں پر غور کیا ہے؟
وفاقی وزیر: ہم آپ کی پارٹی نہیں توڑ رہے۔ جس طریقے سے تحریک انصاف پروان چڑھی تھی اسی طریقے سے اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ یہ لوگ آپ کے کبھی تھے ہی نہیں۔ میاں نواز شریف نہیں چاہتے پی ٹی آئی کو کالعدم قرار دیا جائے مگر قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔ پی ٹی آئی کے ورکرز اور اکابرین کو بتانا ہوگا کہ جلاؤ گھیراؤ کی منصوبہ بندی کس نے کی تھی؟ عسکری تنصیبات پر حملے کا حکم کس نے دیا تھا؟ کورکمانڈر ہاؤس کو جلانے کے اصل ذمہ دار کون ہیں؟ اگر پی ٹی آئی کی لیڈرشپ سچ کا ساتھ دے اور عمران خان سے اظہارِ لاتعلقی کر لے تو پی ٹی آئی کالعدم نہیں ہو گی۔
رہنما پی ٹی آئی: عمران خان کے بغیر تحریک انصاف کا وجود صفر ہے۔ پارٹی ورکرز اور ورٹرز کسی اور کو قبول نہیں کریں گے۔ حکومت عمران خان کی مقبولیت سے خائف ہے اسی لیے انہیں راستے سے ہٹاناچاہتی ہے۔ آج الیکشن کروا دیں‘ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
وفاقی وزیر: مقبولیت مثبت سیاست کا معیار نہیں ہوتی۔ شہرت تو چراغ بالی کی بھی بہت تھی۔ اس کے حالاتِ زندگی پر فلمیں بھی بنیں مگر کیا ایک ڈاکو کو اس کی مقبولیت کے باعث وزیراعظم بنایا جا سکتا ہے؟ اگر ملک کو مکمل تباہی سے بچانا ہے تو عمران خان جیسے لوگوں کے سامنے دیوار کھڑی کرنا انتہائی ضروری ہے۔
یہ سنتے ہی پی ٹی آئی کے رہنما کو شدید غصہ آ گیا۔ ان کی آنکھوں میں لالی تھی اور چہرے پر کرب۔ قدرے توقف کے بعد وہ دوبارہ گویا ہوئے: یہ مثال انتہائی غیر مناسب اور غیر متعلقہ تھی۔ آپ ایک ڈاکو کا ایک قومی لیڈر سے موازنہ کیسے کر سکتے ہیں؟ خان ستر فیصد پاکستان کا ہیرو ہے۔
وفاقی وزیر: یہ تودن دہاڑے ڈاکا مارتے وقت سوچنا چاہیے تھا۔ توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ کیس میں جتنے کردار بھی ملوث ہیں ان کو سزا ضرور ملے گی۔ آپ لوگوں نے کیسے سوچ لیا کہ احتجاج کرنے سے ساٹھ ارب کی کرپشن کا حساب نہیں دینا پڑے گا۔ عمران خان، ان کی اہلیہ اور فرح خان‘ سب ایک دن کٹہرے میں ہوں گے۔ آپ جتنی مرضی امریکہ سے مدد مانگیں‘ انصاف ہوکر رہے گا۔
رہنما پی ٹی آئی: کیا عام شہریوں پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلانا انصاف ہے؟ کیا پنجاب اور اسلام آباد میں آرٹیکل 245 کا نفاذ جائز ہے؟ ملک بھر میں انصاف کے نام پر انسانی حقوق کی جو خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں‘ آپ کیا چاہتے ہیں ہم چپ چاپ یہ سب سہتے رہیں؟ دنیا میں اس پر آواز بھی نہ اٹھائیں؟ ہم ان ناانصافیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں آواز اٹھا رہے ہیں تو آپ کوکیا اعتراض ہے؟
وفاقی وزیر: آپ لاکھ بار سپریم کورٹ جائیں‘ آپ کا حق ہے مگر جس امریکہ پر آپ نے اپنی حکومت کو گرانے کا الزام لگایا تھا‘ اس سے مدد مانگنا کہاں کی سیاست ہے؟
رہنما پی ٹی آئی: ہم نے امریکہ سے مدد نہیں مانگی‘ اسے صرف آگا ہ کیا ہے۔ مدد تو ہم سپریم کورٹ سے مانگ رہے ہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ سپریم کورٹ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموش نہیں بیٹھے گی اور قانون کے مطابق انصاف کرے گی۔
وفاقی وزیر: یہ کیس انصاف کے لیے نہیں ہے‘ آپ شرپسندوں کا تحفظ چاہتے ہیں۔ ایک طرف آپ املاک کو جلانے والے افراد سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں اور دوسری طرف آرمی ایکٹ کے تحت ان پر مقدمات چلانے کی مخالفت ہے۔ اس دہرے معیار سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ آپ ہی کے لوگ تھے۔ ایک منصوبہ بندی کے تحت انہیں عسکری تنصیبات پر حملہ آور ہونے کے لیے بھیجا گیا تھا۔
رہنما پی ٹی آئی: ہمار ی قانونی ٹیم کی رائے ہے کہ عام شہریوں پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات نہیں چل سکتے۔ پھر حکومت یہ سب کیوں کر رہی ہے؟
وفاقی وزیر: گزشتہ ایک سال میں پانچ افراد کو آرمی ایکٹ کے تحت پھانسی دی گئی ہے جن میں چار افراد سویلین تھے اور محض ایک کا تعلق آرمی سے تھا۔ اگر عام لوگوں پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات نہیں بن سکتے تو پھر انہیں پھانسیاں کیوں دی گئیں‘ اس وقت سپریم کورٹ نے روکا کیوں نہیں؟
رہنما پی ٹی آئی: میں ایسی کسی دلیل کو نہیں مانتا۔ ہمارے ساتھ ظلم ہو رہاہے۔ پنجاب حکومت سب سے زیادہ ناانصافی کر رہی ہے۔ عمران خان نے کہہ دیا ہے کہ اگر ہم دوبارہ اقتدار میں آئے تو پنجاب انتظامیہ کی جوابدہی ہو گی‘ انہیں اس کا حساب دینا پڑے گا۔
وفاقی وزیر: پی ٹی آئی نے شدت پسند جماعت کا روپ دھار لیا ہے۔ اب عمران خان کو کبھی دوبارہ موقع نہیں ملے گا۔ ان کے سہولت کار بھی بے نقاب ہوں گے۔ آڈیو لیکس انکوائر ی میں ساری حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی۔ انہیں معلوم ہے کہ اس انکوائری کا ان کے بیانیے پر کیا اثر پڑے گا‘ اس لیے وہ نہیں چاہتے کہ یہ انکوائری ہو۔ انکوائری رکوانے کی ان کی درخواست نے سارے عقدے کھول دیے ہیں۔
رہنما پی ٹی آئی: یہ انکوائری بھی غیر آئینی ہے۔ چیف جسٹس کی اجازت کے بغیر ججز پر مشتمل انکوائر ی کمیشن نہیں بن سکتا۔
وفاقی وزیر: انکوائر ی کمیشن ایکٹ 2016ء اور 2017ء‘ دونوں میں ایسی کوئی بات نہیں لکھی۔ کمیشن بنانا وفاقی حکومت کا اختیارہے۔ چیف جسٹس سے اجازت لینا لازم نہیں ۔ پی ٹی آئی اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اس معاملے کو غلط رنگ دے رہی ہے۔
یہ بحث مزید طوالت اختیار کرتی اگر میں بیچ بچاؤ کے لیے آگے نہ بڑھتا۔ میں نے دونوں رہنماؤں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کہا: ایک دوسرے کو دوش دینے کا وقت بیت چکا۔ حالات کی تلخی جس نہج پر ہے وہاں سے واپسی مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ اگر اداروں، حکومت اور اپوزیشن کو ملک کا وقار اور عوام کا مفاد عزیز ہے تو اپنی اپنی اناؤں کی قربانی دینا ہو گی۔ ملک مزید سیاسی کشیدگی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved