تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     24-05-2023

دنیا سے دل نہیں لگانا مگر …

یہ دنیا کیسی جگہ ہے؟ بہت حسین، بڑی دل کش۔ اِس دنیا کی حقیقی قدر و قیمت کا اندازہ اُنہی کو ہوتا ہے جنہیں موت سامنے دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔ ہم جیے جاتے ہیں اور زندگی جیسی نعمت کو کچھ نہیں گردانتے۔ جیسے ہی کوئی جان لیوا بیماری یا معذوری لاحق ہوتی ہے اور ہمیں ایسا لگتا ہے کہ دنیا سے ہمارا بوریا بستر گول ہونے والا ہے تب اچانک یہ دنیا ہم پر منکشف ہوتی ہے۔ ہمیں اندازہ ہونے لگتا ہے کہ جس دنیا اور جس زندگی کو ہم کچھ بھی گرداننے کے لیے تیار نہیں تھے‘ وہ بہت بڑی نعمت کا درجہ رکھتی ہیں،یہ تو بہت کام کی چیزیں ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا ہمارے لیے ایک بڑی نعمت ہے۔ اِس دنیا کے بارے میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ یہ فطری امر ہے کیونکہ دنیا ہے ہی ایسی نیرنگ کہ اِس کے حوالے سے خیالات میں تنوع پایا جانا چاہیے۔ خالص دینی نقطۂ نظر سے سوچنے والوں کا استدلال ہے ؎
جگہ دل لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے‘ تماشا نہیں ہے
بے شک یہ دنیا قدم قدم پر عبرت کی جا ہے۔ کوئی عبرت پکڑنا چاہے تو متعلقہ واقعات کی کمی نہیں۔ جس نے آنکھیں بند رکھنے کا طے کرلیا ہو اُس کا معاملہ اور ہے۔ جو آنکھیں رکھتے ہیں اور دیکھنا بھی چاہتے ہیں وہ اردگرد دیکھ کر بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ یہ دنیا دل لگانے کی جگہ نہیں ہے؟ یقینا! اِس میں کیا بھلا کیا شک ہے۔ مگر یہ بات تھوڑی سی ادھوری ہے۔ قدرت نے ہمیں اِس دنیا میں عارضی قیام بخشا ہے۔ ہمیں ایک دن یہاں سے چلے جانا ہے۔ یہاں چونکہ ہمیشہ نہیں رہنا اِس لیے اِس سے دل لگانے کی زیادہ گنجائش ہی نہیں۔ یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ دنیا سے دل نہ لگانے کی صورت میں اِسے دُھتکارنے کی گنجائش بالکل نہیں ہے۔ دنیا سے دل نہ لگانا اور بات ہے اور دنیا سے نفرت نہ کرنا اور بات ہے۔ یہ دنیا کسی بھی اعتبار سے اس قابل نہیں کہ اِسے ہمیشہ کے لیے اپنایا جائے۔ یہاں قدم قدم پر امتحان ہے، آزمائش ہے۔ پھر بھی ہم زندہ رہتے ہیں اور آزمائشوں کو بھگتتے ہیں۔ کیوں؟ اِس لیے کہ اِس کا حکم دیا گیا ہے۔ دنیا کی بے ثباتی کے بارے میں ہمارے شعراء بہت کچھ کہہ گئے ہیں۔ علامہ اقبالؔ فرماتے ہیں ؎
یہ مال و دولتِ دنیا‘ یہ رشتہ و پیوند
بُتانِ وہم و گماں لا الٰہ الا للہ
بے شک! اِس دنیا کا مال ہمارے کام نہ آئے گا۔ آخرت کے لیے ہمیں کچھ اور درکار ہے مگر یہ حقیقت ہمیشہ پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اِس دنیا کے مال ہی کی بنیاد پر آخرت کا توشہ تیار ہوگا۔ ہمیں اِس دنیا میں اِس لیے نہیں بھیجا گیا کہ اِس سے نفرت کریں، اِس سے بیزاری کا اظہار کریں، بے دِلی سے جئیں اور جیسے تیسے اپنے سانسوں کی گنتی پوری کرکے یہاں سے رختِ سفر باندھیں۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ دنیا کی اصل یہ ہے کہ اِسے مٹ جانا ہے مگر جو کچھ ہم یہاں کریں گے وہ باقی رہ جانا ہے۔ اِس دنیا میں ہمیں جو سانسیں بخشی گئی ہیں وہی قیامت میں ہمارے لیے وسیلۂ مغفرت بنیں گی۔ ہمیں دنیا میں ایک ایک سانس پوری توجہ کے ساتھ لینی ہے، جو کچھ بھی قدرت نے عطا فرمایا ہے اُسے ڈھنگ سے بروئے کار لانا ہے تاکہ آخرت میں جب حساب لیا جائے تو ہم شرمسار نہ ہوں، افسردہ نہ ہوں اور خسارے کا سوچ سوچ کر دل بیٹھ نہ جاتا ہو۔
اہلِ دانش کہتے ہیں جسے قدرت نے عقلِ سلیم سے نوازا ہے اُسے آخرت کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ یہاں ہمیشہ تو رہنا نہیں ہے اور وہاں ہمیشہ رہنا ہے۔ جہاں ہمیشہ رہنا ہے وہیں کے لیے ہی تیاری کرنی چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ ہمیشگی کی زندگی کے لیے بھی جو کچھ کرنا ہے وہ اِسی عارضی قیام گاہ میں رہتے ہوئے کرنا ہے۔ ہم دنیا میں جو کچھ بھی کریں گے اُسی کی بنیاد پر طے ہوگا کہ وہاں ہمارا کیا بنے گا۔ اس نقطۂ نظر سے دیکھیے تو ہم اس دنیا کو یکسر نظر انداز کرنے کے متحمل ہو ہی نہیں سکتے۔
یہ دنیا دارالمحن ہے، مصیبت کی جگہ ہے۔ یہاں قدم قدم پر فتنے ہیں، آزمائش ہے۔ خرابیاں ہیں کہ بڑھتی جاتی ہیں۔ دنیا کے بارے میں اور بھی بہت کچھ کہا جاسکتا ہے مگر یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ دنیا کے بارے میں اہلِ دانش کی باتیں پڑھتے پڑھتے ہمیں اس سے بیزار نہیں ہونا۔ بے دِلی حل نہیں‘ فرار ہے۔ اس دنیا میں رہنا بھی ہے، اس سے دل بھی نہیں لگانا اور دل کو اس سے اُچاٹ بھی نہیں ہونے دینا۔ دنیا میں دلچسپی بھی لینی ہے کیونکہ دلچسپی لیے بغیر ہم آخرت کے لیے کچھ جمع نہیں کرسکتے۔ جو بھی صلاحیت و سکت قدرت نے عطا فرمائی ہے اُس سے ہمیں پوری دیانت کے ساتھ کام لینا ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو اپنی سانسوں کا حق ادا نہیں کرسکیں گے۔ دنیا کی شکل میں ملے ہوئے کمرۂ امتحان میں ہمیں وقت ضائع نہیں کرنا۔ جب ہم کوئی پرچہ دے رہے ہوتے ہیں تب محض سوال نامے کو نہیں گھورتے رہتے بلکہ جوابات کی کاپی بھرنے پر متوجہ رہتے ہیں۔ پرچے میں پوچھے گئے سوالوں کے جوابات نہ لکھنے کی صورت میں ہمیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے یعنی ہم فیل ہو جاتے ہیں۔ دنیا کا بھی تو یہی معاملہ ہے۔ اِس کمرۂ امتحان میں ہمیں ایک ایک سانس پوری دیانت اور توجہ کے ساتھ بروئے کار لانی ہے۔ جو کچھ ہم یہاں کر گزریں گے وہ قیامت کے دن جانچا جائے گا، ہمارے جوابات کی کاپی ہمارے ہاتھ میں تھمائی جائے گی۔ اعمال نامے دیکھ کر ہم جان سکیں گے کہ ہمیں کب کیا کرنا تھا اور ہم نے کیا کِیا۔
دین کا علم ہمیں سکھاتا ہے کہ آخرت کی منزل کو یاد رکھنا ہے۔ یہ تصور ہمیشہ ذہن کے پردے پر نمودار رہنا چاہیے کہ ایک دن ہمیں یہاں سے جانا ہے اور اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ جنابِ صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ دانش کی معراج یہ ہے کہ انسان آخرت کو یاد رکھے اور اللہ سے ڈرتا رہے۔ جو کچھ طے ہونا ہے‘ وہیں طے ہونا ہے۔ یہاں کا کوئی بھی معاملہ حتمی نہیں۔ یہاں کی خوشی حتمی خوشی نہیں اور یہاں کا غم بھی مستقل نوعیت کا نہیں۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ صرف آخرت کو حرزِ جاں بناکر جیا جائے۔ مگر ہاں! دنیا کو نظر انداز کرنے کی صورت میں ہم آخرت کو بھی خراب کر بیٹھیں گے۔ اِس دنیا کو پوری دیانت اور جاں فشانی سے برتنا ہے۔ دنیا سے نفرت کی گنجائش برائے نام بھی نہیں۔ یہ دنیا بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے اور یہاں بخشی جانی والی سانسیں بھی ہمارے لیے نعمت و امانت ہیں۔ قدرت کی اس امانت کو بحسن و خوبی بروئے کار لانے کی صورت ہی میں ہم اُخروی زندگی کے لیے کچھ جمع کر پائیں گے۔ سوچنا صرف یہ ہے کہ وہاں پیش کرنے کے لیے ہمارے پاس کیا ہونا چاہیے۔ دنیا میں ہمیں جتنی بھی نعمتیں بخشی گئی ہیں اُن کا حساب لیا جانا ہے۔ اگر ہم بے دِلی کے ساتھ جئیں اور قدرت کی نعمتوں سے خود مستفید ہوں نہ دوسروں کو مستفید کریں تو ایسا کرنے میں نقصان کسی اور کا نہیں‘ ہمارا اپنا ہے۔
دنیا کی بے ثباتی کے بارے میں جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے سب برحق ہے۔ اہلِ دانش ہمیں باور کراتے رہتے ہیں کہ دنیا کو حرزِ جاں نہ بنائیں، اِس کی رنگینیوں میں گم ہوکر نہ رہ جائیں۔ بالکل درست! یہ دنیا اپنی پوری جلوہ سامانی اور چمک دمک کے ساتھ اپنی اصل میں تو عارضی ہے اور بہت حد تک غصِ بصر کی حیثیت رکھتی ہے۔ جو لوگ دنیا کی بے ثباتی کے بارے میں زیادہ پڑھتے اور سنتے ہیں وہ دنیا سے بیزاری کی طرف چلے جاتے ہیں۔ یہ بھی اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ دنیا سے بیزاری ہمیں دینی تقاضوں سے بھی بے پروا کرسکتی ہے۔ دنیا کو پورے اخلاص اور سنجیدگی کے ساتھ اپناکر آخرت کے لیے سامان کرنے کی فکر کرنی ہے۔ دانش کی انتہا تو یہی ہے۔ دنیا کو دُھتکارنے والی ذہنیت کو پروان چڑھاتے وقت سوچنا چاہیے کہ یہاں تو انبیائے کرام بھی مبعوث فرمائے جاتے رہے ہیں۔ اور اُن کی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ کس طور یہاں رہتے ہوئے وہاں کی تیاری کرنی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved