کوئی اسے توہم پرستی سمجھتا ہے یا مذہبی رویہ تو سمجھتا رہے! مگر یوں لگتا ہے کہ اس طائفے کی بربادی کا فیصلہ اُسی دن ہو گیا تھا جس دن اس طائفے کے سٹیج سے سرکارِ دو عالمﷺ کے مقدس والدین کی توہین کی گئی تھی!
اس طائفے کی خوش قسمتی تھی یا اس کا خوف کہ بے ادبی کے کئی واقعات کے باوجود کسی نے نوٹس لیا نہ گرفت کی!'' صادق اور امین‘‘ ایک اصطلاح ہے۔ایک ٹائٹل ہے۔ ایک لقب ہے جو آپؐ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جب اس مقدس لقب کو ایسے لوگوں پر تھوپا جاتا ہے جن کا ماضی سب پر عیاں ہے تو اس پر کہیں سے مذمت کی صدا نہیں اٹھتی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ دینی فہم رکھنے والے حلقے بھی‘ کم و بیش‘ اس پر خاموش رہتے ہیں۔اس جماعت کے سربراہ نے عمرہ پر جانے والوں کی سرزنش کی‘ اس پر بھی کسی نے گرفت نہ کی۔پھر اسی سٹیج سے کہا گیا کہ قبر میں پوچھا جائے گا کہ اس کا ساتھ دیا تھا یا نہیں۔( الفاظ ہو سکتا ہے مختلف ہوں‘ مفہوم یہی تھا) تب بھی کسی نے گرفت نہ کی۔ پھر پارٹی کے سربراہ نے جہاد کی اصطلاح کوبارہا استعمال کیا۔ تب بھی مذہبی طبقات نے عوام کی رہنمائی نہ کی اور اس دعوے کی تائید یا تردید نہ کی۔اس سے حوصلے بڑھے۔ یہاں تک کہ اس پارٹی کے سٹیج سے ایک بچے کے منہ سے وہ بات کہلوائی گئی جس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایک پلے بوائے کے والدین کو ( میرے منہ میں خاک) اُس ہستی کے والدین کے ساتھ جا ملایا گیا جس ہستی کا ثانی کوئی ہے نہ ہو گا! انا للہ و انا الیہ راجعون!
تاریخ میں کیسی کیسی شخصیات گزری ہیں ! عظیم اور مقدس شخصیات!جنہوں نے راتیں عبادت میں گزاریں اور دن خدا کے راستے کی جدو جہد میں! کچھ نے جنگی معرکے سرانجام دیے۔ کچھ نے علم کے راستے میں ایسے نقوش پا چھوڑے جو قیامت تک جگمگاتے رہیں گے۔ خالدؓ بن ولید‘ ابو عبیدہؓ بن جراح‘اورحضرت عمر ؓبن العاص جیسے فاتحین ! صلاح الدین ایوبیؒ اور سلطان محمد فاتحؒ جیسے زعما! جنہوں نے مسلمانوں کا کھویا ہوا وقار واپس لیا۔امام جعفر صادقؒ جن کے سامنے امام ابو حنیفہؒ نے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔امام احمد بن حنبلؒ جو عزیمت کی مثال تھے۔ عمر بن عبد العزیزؒ جنہیں راہِ حق پر چلنے کی پاداش میں زہر دیا گیا۔
ہمعصر تاریخ دیکھ لیجیے۔ کمال اتاترک نے ترکی کو آزادی دلوائی ورنہ یونانی اور دیگر اہلِ مغرب کچھ اور چاہتے تھے۔قائد ا عظم نے برصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت کو ہندو غلبے سے نجات دلوائی۔ کیا کبھی کسی کو ہمت ہوئی کہ ان زعما کے والدین کے حوالے سے ایسا موازنہ کرے؟ وہ جو سٹیج پر پارٹی کے چار رہنما کھڑے تھے انہوں نے بچے کی زبان کیوں نہ پکڑی؟ نعوذ با اللہ کیوں نہ کہا ؟ صرف یہی نہیں‘ انہوں نے تالیاں بجائیں! مسکراہٹیں بکھیریں! بعد میں عذر لنگ سامنے آیا کہ وہ تو بچہ تھا۔ وہ چار جو سٹیج پر کھڑے تھے‘ کیا وہ بھی بچے تھے ؟ کیا ساری کی ساری پارٹی بچوں پر مشتمل ہے؟ کیا پارٹی کا سربراہ بھی بچہ ہے؟ سربراہ نے جواب طلبی کیوں نہ کی ؟ جو کھڑپینچ سٹیج پر کھڑے تھے انہیں سزا کیوں نہ دی ؟ یہ مائنڈ سیٹ ہی کیوں تیار کیا ؟ زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ اس پر کوئی گرفت کی گئی نہ حرفِ احتجاج ہی بلند کیا گیا۔ایک سیاسی جماعت نے بھی‘ جو مذہبی بھی ہے‘ خاموشی اختیار کی بلکہ اب وہ اس پارٹی کے ساتھ جنوب میں اتحاد و اشتراک بھی کر رہی ہے!!
اس بے ادبی پر جب اس لکھنے والے نے انہی صفحات پر اعتراض کیا تو اندھیرے میں ایندھن کے لیے لکڑیاں چننے والوں نے واویلا مچایا کہ یہ مذہب کا کارڈ کھیل رہا ہے اور زہر بکھیر رہا ہے! اول تو ان کا یہ اعتراض اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ انہیں اس پر نہ صرف رنج نہیں ہے بلکہ وہ بالواسطہ تائید بھی کر رہے ہیں ! اور پھر‘ مذہب کا کارڈ کون کھیل رہا ہے ؟ اپنے لیڈر کو کس نے لقمہ دیا تھا کہ اسلامی ٹچ دو ؟ کیا یہ مذہب کا کارڈ نہ تھا؟ کس نے کہا تھا کہ قبر میں پوچھا جائے گا کہ فلاں کا ساتھ دیا تھا یا نہیں؟ کیا یہ مذہب کا کارڈ نہ تھا؟ بیسیوں تقریروں میں اپنی نام نہاد جدو جہد کو جہاد کا نام دینا کیا مذہبی کارڈ نہ تھا؟ بزدار اور گجر کی حکومت کے سائے تلے ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا گیا اور مسلسل لگایا گیا! کیا یہ مذہب کا کارڈ نہ تھا؟ تو اب کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تم ہمارے پیغمبر ؐکے مقدس و مطہر والدین کی بے ادبی کرو اور ہم خاموشی کی چادر اوڑھ لیں اور حرفِ احتجاج بھی زبان پر نہ لائیں؟ اہلِ زمین جانتے ہیں اور اہلِ آسمان بھی گواہ ہیں کہ مذہب کا کارڈ جس طرح اس پارٹی نے کھیلا ہے پاکستان کی تاریخ میں کسی پارٹی نے نہیں کھیلا۔
ہم تو فانی انسان ہیں ! آقائے دو جہانؐ کی شان میں بے ادبی تو ربِِّ کائنات بھی نہیں معاف کرتا! تاریخ کا ایک ایک ورق گواہ ہے کہ جس نے بھی اس طرف ہاتھ بڑھایا‘ وہ ہاتھ کاٹ دیا گیا! جس نے بھی زبان چلائی‘ اُس زبان پر پھوڑے نکلے! جو قدم بری نیت سے اس طرف چلا‘ وہ توڑ دیا گیا! کیا اس کائنات میں کوئی اور ہستی بھی ہے جس پر اللہ تعالی خود درود بھیجتے ہوں؟ اور ان کے فرشتے بھی! حضرت عبد اللہ اور حضرت آمنہ تو وہ مقدس جوڑا ہے کہ کوئی اور میاں بیوی ان کی شان اور ان کے مقام کے ہزارویں‘ کروڑویں‘ حصے تک بھی نہیں پہنچ سکتے ! اور دیکھنے والوں نے دیکھ لیا کہ قدرت نے یہ بے ادبی نہیں بخشی! ان کے حواری خود ہٹے یا کسی اور نے ہٹائے‘ اس خدائے برتر کے حکم سے ہٹے اور ہٹائے گئے جو آپ ؐ کی اور آپؐ کے والدین کی عزت کا محافظ ہے! آپؐ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے ابرہہ سے اپنے اونٹ مانگے تھے تو اس نے طعنہ دیا تھا کہ کعبہ کی فکر نہیں اور اونٹوں کی فکر ہے۔ جواب دیا کعبہ جس کا ہے وہ خود حفاظت کرے گا! تم ہمیں تو اپنی بد زبانی سے اور دشنام طرازی سے ڈرا لو گے مگر آپؐ کی اور آپؐ کے والدین کی عزت کا جو نگہبان ہے‘ اس کا کیا کرو گے؟
اب بھی وقت ہے! توبہ کرو! تمہارا لیڈر بھی بر سر عام توبہ کرے اور وہ جو سٹیج پر کھڑے تھے وہ بھی توبہ کریں اور اظہارِ ندامت کریں۔ورنہ اقبال کی یہ وارننگ ذہن میں رکھیں
گمان مبر کہ بپایان رسید کارِ مغان
ہزار بادۂ ناخوردہ در رگِ تاک است
پیرِ مغاں کا کام ختم نہیں ہوا۔ ہزاروں قسم کی مے ابھی انگور کی بیلوں کے ریشوں اور رگوں میں موجود ہے!
ہمارے دامن میں اور ہے بھی کیا! صرف ناموسِ رسالت ہی تو بچا ہے! اسے ہم کسی قیمت پر نہیں کھو سکتے! کل اس ناموس پر حسینؓ قربان ہوئے تھے! آج حسین ؓکے غلام سر بکف ہیں !
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved