انسان سوچتا ہے: نمرود نے لوگوں کو اپنی خدائی کا کیسے قائل کیا ہو گا حتیٰ کہ ابراہیم علیہ السلام سے باقاعدہ مناظرہ کیا، اس کا ذکر قرآنِ کریم میں ہے: ''(اے رسولِ مکرّم!) کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا، جس نے ابراہیم کے ساتھ اس کے رب کے بارے میں اس بات پر جھگڑا کیا کہ (ابراہیم نے کہا:) اُسے بادشاہت اللہ نے دی ہے‘‘ (البقرہ: 258)۔ اسی طرح فرعون نے اپنی ربوبیت کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا: ''اَنَا رَبُّکُم الْاَعْلٰی‘‘، ترجمہ: ''میں تمہارا بلند تر ربّ ہوں‘‘ (النازعات: 24)۔ قومِ نوح نے ''وَدّ، سُوَاع، یَغُوْث، یَعُوْق اور نَسْر‘‘ کو معبود بنا لیا، نیز قریشِ مکہ نے لات، مَناۃ، عُزّٰی اور ہُبل نامی بتوں کو معبود بنا لیا، سامری نے بنی اسرائیل کو بچھڑے کی پوجا پر آمادہ کر لیا، الغرض انسانی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ ایسی قوموں کو متوجہ کیا جاتا رہا ہے: (1) ''ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا: کیا تم اللہ کے سوا اُن کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں نفع دے سکتے ہیں اور نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں، تُف ہے تم پر اور اُن پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کرعبادت کرتے ہو، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے‘‘ (الانبیاء: 66 تا 67)، (2) ''اے لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، اسے غور سے سنو: بے شک تم اللہ کو چھوڑ کر جن (بتوں) کی عبادت کرتے ہو، وہ سب مل کر بھی ہرگز ایک مکھی پیدا نہیں کر سکتے اور اگر مکھی اُن سے کوئی چیز چھین لے تو یہ اُس سے واپس بھی نہیں لے سکتے، طالب اور مطلوب (یعنی ان بتوں کے پجاری اور یہ نام نہاد معبود) دونوں کمزور ہیں‘‘ (الحج: 73)۔
لیکن ان پر اندھی عقیدت کا اس قدر غلبہ تھا کہ یہ روشن دلیلیں دیکھ اور سن کر بھی وہ شرک سے بازنہ آئے۔ الغرض ہر دور کے ''ائمۂ تلبیس‘‘اور ''ائمۂ ضلالت‘‘ نادان اور جاہل لوگ نہیں تھے، وہ اپنے عہد کے فلسفی، اہلِ عقل و خِرد اور دانا لوگ تھے، وہ لوگوں کو اپنے دامِ عقیدت میں پھنسانے کے ماہر ہوتے تھے، وہ لوگوں کی نفسیاتی کمزوریوں سے بھی آگاہ ہوتے تھے اور ذہن سازی کے ماہر تھے، نیز ماضی کے مقابلے میں موجودہ دور میں ایسے مؤثر ذرائع ابلاغ ہیں جو ماضی میں دستیاب نہیں تھے۔ اسی طرح دجال بھی کرتب دکھا کر لوگوں کو اپنی جانب مائل کرے گا۔
اگرماضی میں لوگوں کی آنکھوں پر پٹی باندھی جا سکتی تھی، اُن کے ذہنوں کو مائوف کیا جا سکتا تھا، تو آج یہ کام ماضی کی بہ نسبت بہت آسان ہے۔ ان جدید حربوں اور آلاتِ تشہیر و ترغیب سے کام لے کر کسی کا بھی ایسا ہیولیٰ تراشا جا سکتا ہے کہ اُسے قوم کے لیے ایک نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا جائے اور اس کی عقیدت کا ایسا نقش لوگوں کے دل و دماغ پر ثبت کیا جائے کہ آنکھیں خیرہ ہو جائیں۔ کسی کی معاصر سیاست دانوں اور لیڈروں پر برتری ثابت کرنا یا دل و دماغ پر ثبت کرنا تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن اس میں اس حد تک بڑھ جانا کہ بلاخوف وخطر دینی مقدّسات سے تشبیہ دی جائے اور کسی کے والدین کو رسول اللہﷺ کے والدین کریمین اور اس شخص کو اللہ تعالیٰ کے مبعوث کردہ افراد کی ذاتِ مبارک کا مثیل و نظیر قراردیا جائے تو انسان ہل کر رہ جاتا ہے: کیا مسلم معاشرے میں ایسا بھی ہو سکتا ہے، جبکہ اُس جماعت میں پیر بھی ہوں، عالم بھی ہوں، لیکن زبانیں گُنگ ہو جائیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے۔ اس سے پہلے اسی جماعت کے ایک لیڈر نے‘ جو آج کل منحرف ہیں‘ انہی کو اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے بڑا لیڈر قرار دیا تھا، جبکہ سید المرسلینﷺ کے لیے امت کا ہمیشہ سے یہ عقیدہ رہا ہے، حضرت حسّان بن ثابتؓ نے کہا:
''وَاَحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَقَطُّ عَیْنِیْ٭ وَاَجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَائُ٭ خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِّنْ کُلِّ عَیْبٍ٭ کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَآئُ‘‘۔
ترجمہ: ''(یارسو ل اللہﷺ!) آپ سے زیادہ حسین میری آنکھ نے کبھی دیکھا نہیں، آپ سے زیادہ حسین کسی ماں نے جنا نہیں، آپ کو ہر عیب سے پاک پیدا کیا گیا ہے، گویا آپ کو ایسا ہی بنایا گیا جیساکہ آپ نے چاہا‘‘۔
شیخ سعدی نے کہا ہے: ''یَا صَاحِبَ الْجَمَالِ وَ یَا سَیِّدَ الْبَشَر٭ مِنْ وَّجْہِکَ الْمُنِیْرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَر٭ لَا یُمْکِنُ الثَّنَائُ کَمَا کَانَ حَقُّہٗ٭ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘۔
ترجمہ: ''اے صاحبِ جمال اور اے عالمِ انسانیت کے سردارﷺ! آپ کے رُخِ انور کی تابانی سے چاند کو روشن کیا گیا ہے، آپ کی ایسی تعریف بیان کرنا تو ممکن ہی نہیں جیسا کہ تعریف کا حق ہے، ہم مختصراً یہ کہہ سکتے ہیں: اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد آپ ہی کی ذات سب سے بڑی ہے‘‘۔
امام احمد رضا قادری نے کہا ہے: ''وہ کمالِ حُسنِ حضور ہے کہ گمانِ نقص، جہاں نہیں٭ یہی پھول خار سے دور ہے، یہی شمع ہے، کہ دھواں نہیں٭ لَمْ یَاتِ نَظِیْرُکَ فِیْ نَظَرٍ، مثل تو نہ شد پیدا جانا٭ جگ راج کو تاج تورے سر سَو ہے، تجھ کو شہ دوسرا جانا‘‘۔ آپ نے ایک عظیم الشان نعت لکھی اور اس شعر پراس کا اختتام کیا: ''لیکن رِضا نے ختم سخن اس پہ کر دیا٭ خالق کا بندہ، خَلق کا آقا کہوں تجھے‘‘۔ قتیل شفائی نے کہا تھا: ''ہر ابتدا سے پہلے، ہر انتہا کے بعد٭ ذاتِ نبی بلند ہے، ذات ِ خدا کے بعد٭ دُنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ٭ میں سب کو مانتا ہوں، مگر مصطفی کے بعد‘‘۔ محمد علی ظہوری قصوری نے کہا تھا: ''دنیا تے آیا کوئی، تیری نہ مثال دا٭ لَبھ کے لے آواں کِتھوں، سوہنا ترے نال دا‘‘۔
غور کرنے کے بعد ہم قرآن کریم میں بیان کردہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں: (1) ''توکیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ اُن کے لیے دل ہوتے، جن سے وہ سمجھتے، اُن کے کان ہوتے جن سے وہ سنتے، حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں، جو سینوں میں (دھڑکتے) ہیں‘‘ (الحج: 46)، (2) ''اور ہم نے جہنم کے لیے بہت سے جنّات اور انسان پیدا کیے، اُن کے دل ایسے ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے وہ (عبرت کی نظر سے) دیکھتے نہیں اور اُن کے کان ایسے ہیں جن سے وہ (حق کو) سنتے نہیں، وہ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ اُن سے بھی زیادہ گمراہ، یہی لوگ غافل ہیں‘‘ (الاعراف: 179)‘‘۔
لوگوں کا حق ہے: سیاسی امور میں جسے چاہیں اپنا رہنما بنائیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ پاکستان کے آئین و قانون کی پابند جس جماعت میں چاہیں شمولیت اختیار کریں، کوئی بھی اس کا ممبر بن سکتا ہے، سب کی اپنی اپنی ترجیحات، اپنا اپنا منشور اور اپنی اپنی پسند اور ناپسند ہوتی ہے، لیکن یہ حق کسی کو نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنے کسی رہنما کے والدین کو رسول اللہﷺ کے والدین کا اور اُس شخص کو اللہ کے انبیاء کا مثیل و نظیر قرار دے، ''امتناعِ نظیر‘‘ پر برصغیر پاک و ہند کے بعض علماء نے کتابیں لکھی ہیں، ان میں یہ ثابت کیا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کا مثیل و نظیر ہونا عملاً ممکن ہی نہیں ہے۔یہ کہنا کہ ''ہم یہاں فلاں کی عبادت کے لیے آئے ہیں‘‘ (غیر اللہ کی عبادت توشرک ہے) یا کسی جماعت کے کارکنوں کو صحابۂ کرام سے تشبیہ دینا بہت بڑی جسارت ہے۔ اس طرح کے اقدامات عَلانیہ ہوتے رہے۔ لیکن جس جماعت کے سربراہ کی شان میں شریعت کے خلاف یہ مبالغہ آرائی کی جا رہی تھی، اُسے یہ توفیق نصیب نہ ہوئی کہ اس پر روک ٹوک عائد کرتا، عَلانیہ اس سے برأت کا اعلان کرتا اور نہ اُس جماعت میں شامل پیر صاحبان اور علماء کو یہ توفیق ہوئی۔ آج جو اُس جماعت سے علیحدگی کا اعلان کر رہے ہیں، وہ بھی 9 مئی کے واقعات کی روشنی میں کر رہے ہیں، ایسا کوئی سامنے نہیں آیا جو اِن ناپاک جسارتوں کے سبب اُس جماعت سے برأت کا اعلان کرتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے: ''لوگ طاقت کے سامنے تو جھک جاتے ہیں، لیکن حق کے سامنے نہیں جھکتے ‘‘، بلکہ سوشل میڈیا پر جو لشکرِ جرّار پال رکھا ہے، وہ نشاندہی کرنے والے کی ذات پر ناروا حملے کرتے ہیں۔ امامِ اہلسنت نے کہا تھا:''اگر میری ذات ناموسِ مصطفی کے لیے ڈھال بن جائے، تو اس سے بڑھ کر اعزاز کی بات کیا ہو سکتی ہے‘‘۔
ہمارا مسئلہ کسی جماعت کی حمایت یا مخالفت نہیں ہے، بلکہ حق کی نشاندہی ہے اور ناحق پر متنبہ کرنا ہے۔ قرآنِ کریم نے خواہشِ نفس کو معبود بنانا، اسی کو قرار دیا ہے۔ آج بظاہر زوال کا سبب 9 مئی کے واقعات ہیں، لیکن ہمارے نزدیک یہ خلافِ شرع باتوں پر اللہ تعالیٰ کی گرفت ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے: '' تمہارے رب کی گرفت یقینا بڑی سخت ہے، بے شک وہی (تخلیق کی) ابتدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ زندہ فرمائے گا اور وہی بہت بخشنے والا، بہت محبت والا ہے، (وہی) عرش کا مالک عظمت والا ہے اور جو چاہتا ہے خوب کرگزرتاہے‘‘ (البروج: 12 تا 16)۔
اہلِ ایمان کا شِعار یہ ہے کہ جب انہیں کسی خطا پر مطلع کیا جائے، تو وہ تسلیم کرتے ہیں، اس کا اعتراف کر کے اس پر نادم ہوتے ہیں اور اس سے رجوع کرتے ہیں، غلطی پر اڑ جانا اور اس کا جواز ثابت کرنے کے لیے عقلی دلائل کا سہارا لینا شیطانی خصلت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ''(ابلیس!) جب میں نے تمہیں حکم دیا تھا تو تجھے (آدم کو) سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا، ابلیس نے کہا: میں اُس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اُسے مٹی سے پیدا کیا‘‘ (الاعراف: 12)، یعنی اُس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو ردّ کرنے یا اُس کی تعمیل نہ کرنے کا جواز جوہرِ تخلیق کو بناتے ہوئے کہا: آدم کا جوہرِ تخلیق مٹی ہے، میرا جوہرِ تخلیق آگ ہے، آگ مٹی سے لطیف ہوتی ہے اور لطیف چیز کثیف سے افضل ہوتی ہے تو میں آدم کو کیسے سجدہ کر لیتا، اسی کو کہتے ہیں: ''عقلی دلیل کا سہارا لے کر حق کا انکار کرنا اور اُسے ردّکرنا‘‘۔
مومن کی کسی سے محبت یا نفرت اللہ کی رضا کے لیے ہوتی ہے، اس میں نفسانیت کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔ حدیثِ پاک میں ہے: ''اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سات طبقات پر اپناخصوصی سایۂ رحمت قائم فرمائے گا، جبکہ اُس کے سایۂ رحمت کے سوا کوئی اور جائے پناہ نہیں ہو گی، اُن سات طبقات میں ایک طبقہ آپﷺ نے یہ بیان فرمایا: ایسے دو اشخاص جو اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کریں، وہ باہم مل بیٹھیں تو اللہ کی رضا کے لیے اور اسی تعلق کے قائم رہتے ہوئے جدا ہوں (یعنی یہ تعلق دائمی رہنا چاہیے)‘‘ (بخاری: 660)۔
نوٹ: بعض حضرات نے ''تفقہ فی الدین‘‘ پر کچھ مزید لکھنے کی فرمائش کی ہے، ان شاء اللہ کچھ وقفے کے بعد اس کی تعمیل کریں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved