کیا تحریک انصاف کو ستائیس برس پیچھے دھکیل دیا جائے گا جب اس کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لینے والے کے نام سے بھی کوئی واقف نہیں تھا؟ یہ وہ سوال ہے جو اس وقت سیاسی و سماجی حلقوں میں زیرِ گردش ہے۔ وقت ایسے رنگ بدلتا ہے کہ انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ابھی کل تک زمان پارک کے باہر پی ٹی آئی کا ٹکٹ حاصل کرنے والوں کا ایک ہجوم تھا‘ ایک ایک نشست کے لیے دس‘ دس امیدوار باہم دست و گریباں نظر آ رہے تھے۔ زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر ہمہ وقت کسی بہت بڑے میلے کا گماں ہوتا تھا اور یہ رش اس دن تک ذرا بھی کم نہیں ہوا جب تک چیئرمین تحریک انصاف نے پنجاب اسمبلی کے لیے اپنے امیدواروں کے ٹکٹ فائنل نہیں کر دیے۔ آج وہی زمان پارک ہے جس کی سڑک سے لوگ گزرتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں دھر نہ لیے جائیں۔ البتہ کچھ اکا دکا لوگ‘ جن میں مقامی اور غیر ملکی میڈیا بھی ہوتا ہے‘ اب بھی آتے جاتے دیکھے جا رہے ہیں۔ مجھے پہلے ہی سے علم ہو چکا تھا کہ 29 مئی تک عمران خان کی تحریک انصاف کا وہی حال کر دیا جائے گا جو 2002ء میں پرویز مشرف نے مسلم لیگ نواز کا کیا تھا۔ گزشتہ چند روز میں دو درجن سے زائد رہنما‘ جن میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران بھی شامل ہیں‘ پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ شیریں مزاری اور فواد چودھری تو پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر ہی چکے ہیں‘ گزشتہ رات پارٹی کے اسد عمر نے بھی پارٹی عہدے اور کور کمیٹی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ شنید ہے کہ شاہ محمود قریشی پر بھی خاصا دبائو ہے‘ بچے کچھے سیاسی خاندانوں اور شخصیات پر بھی ہوم ورک کیا جا رہا ہے‘ جو جلدعمران خان سے علیحدگی کا اعلان کر سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے تک سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ چند باخبر حلقوں کا دعویٰ ہے کہ ایک بار پھر 2008ء والا شراکتِ اقتدار کا فارمولہ بروئے کار لائے جانے کا پلان ہے، یعنی مرکزی حکومت مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی کے اشتراک سے بنائی جائے گی اور صوبائی حکومتیں پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں میں بانٹ دی جائیں گی۔
اگر ووٹ بینک کی بات کی جائے تو آج کی تاریخ تک بلاشبہ عمران خان کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے۔ گزشتہ روز بھی اپنی تقریر میں چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ میں جس کو ٹکٹ دوں گا‘ وہی جیتے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے خلاف جو کچھ کیا جا رہا ہے‘ اس سے صرف تحریک انصاف کو ہی نقصان نہیں پہنچ رہا بلکہ جمہوریت بھی ختم کی جا رہی ہے‘ پاکستان میں بنیادی حقوق ختم ہوچکے ہیں۔ عمران خان نے دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف کے 10 ہزار سے زائد کارکنوں کو جیل میں ڈالا گیا ہے‘ یہ لوگ ایک جادو کا جملہ کہہ دیں کہ ''میں تحریک انصاف میں نہیں ہوں‘‘ تو فوری رہا ہو جائیں گے۔ انہوں نے پارٹی کے عہدیداروں اور ٹکٹ ہولڈرز کو یہ مشورہ بھی دیا کہ اپنے گھروں میں نہ رہیں۔ مسلم لیگ (نواز) کے کچھ لیڈران نجی محفلوں میں یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ پورا پنجاب اور کے پی بھی اگر عمران خان کا حامی ہو جائے تب بھی آپ دیکھئے گا کہ کوئی پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے والا نہیں ملے گا۔ نواز لیگ کی بات تو سمجھ آتی ہے‘ پی پی پی پنجاب کے چند رہنما بھی اپنے حلقوں میں یقین دلا رہے ہیں کہ جیسے ہی انتخابات کا ڈھول پیٹا جائے گا‘ تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈرز کے خلاف ایسا کریک ڈائون کیا جائے گا کہ لوگ عمران خان کا ٹکٹ لینا تو دور کی بات‘ اس کا نام لیتے ہوئے بھی گھبرائیں گے۔ اگلا وزیراعظم کون ہو گا‘ اس حوالے سے کئی تھیوریاں مارکیٹ میں چند ماہ قبل سے ہی گردش کر رہی ہیں۔ کچھ لوگ تو یہ تک دعویٰ کر رہے تھے کہ اس سب کی منظوری بھی لی جا چکی ہے۔ چند ہفتے قبل تک ان باتوں پر ہنسی آتی تھی مگر آج حالات کو زور و جبر سے اسی رخ موڑا جا رہا ہے۔
پنجاب سمیت کراچی میں آج حالت یہ ہو چکی ہے کہ کسی گاڑی، دکان پر عمران خان کی تصویر بھی نظر آ جائے تو فوراً متعلقہ بندے کو دھر لیا جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنے گھروں کے اندر دبک کر رہیں اور عمران خان کا نام لیتے ہوئے بھی کانپ اٹھیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے ماحول میں کوئی امیدوار ہی نہیں ملے گا اور اگر کمزور سے کچھ لوگ الیکشن کیلئے پی ٹی آئی کا ٹکٹ لے بھی لیں تو انہیں اتنا خوف زدہ کر دیا جائے گا کہ وہ الیکشن میں حصہ لینا تو دور کی بات‘ اپنی فیملی سمیت حلقہ تو کیا شہر ہی چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ ان حالات میں مرضی کے انتخابی نتائج حاصل کرنا آسان ہو جائے گا اور یہی پی ڈی ایم نئی پیکنگ میں دوبارہ برسر اقتدار آ جائے گی۔ مگر یہ تو ہیں زمین پر بننے والے منصوبے۔ عرش والے نے اہلِ وطن کے بارے میں کیا سوچ رکھا ہے‘ یہ وہی جانتا ہے۔
اس وقت ملکی سیاسی حالات کا تلاطم بہت سوں کو بے چین کیے ہوئے ہے مگر سیاسی تاریخ کا علم رکھنے والوں کے لیے کوئی بھی منظر نیا نہیں ہوتا۔ محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح آئی جے آئی اور (ق) لیگ بناکر پیپلز پارٹی بالخصوص بینظیر بھٹو کو اقتدار سے دور رکھا گیا تھا‘ وہی پلان اب عمران خان کے حوالے سے عمل میں لایا جا رہا ہے۔ 1997ء اور 2002ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا کیا حال ہوا تھا‘ یہ تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کرانے کے بعد انتخابات کا شور مچا تو تحریک انصاف جس کی بنیاد 1996ء میں رکھی گئی تھی‘ اسے اپنے آغاز کے ساتھ ایک سال بعد ہی 1997ء کے عام انتخابات کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ پی ٹی آئی ان انتخابات میں حصہ لینے کے بجائے انہیں قریب سے مانیٹر کرتی لیکن نجانے کس نے مشورہ دیا کہ پی ٹی آئی ان انتخابات میں کود پڑی اور عمران خان نے لاہور سمیت کچھ دوسرے شہروں کی نشستوں سے اپنے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرا دیے اور پھر دھواں دار انتخابی مہم پر چل نکل پڑے۔ لاہور اَپر مال پر ایک بنگلے میں تحریک انصاف کا دفتر تھا۔ جو بھی درخواست لے کر وہاں آتا‘ اسے اس کے حلقے کا پارٹی ٹکٹ جاری کر دیا جاتا۔ اور یہ وہ لوگ تھے جنہیں ان کے حلقے کے لوگ تو دور کی بات‘ اپنی یونین کونسل، اپنے بلاک، اپنے قصبے اور اپنی تحصیل میں بھی بہت کم لوگ جانتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی ایک نشست بھی حاصل کرنا دور کی بات‘ 90 فیصد امیدواروں کی ضمانتیں ہی ضبط ہو گئیں۔ بے خبر اور سیاست سے نابلد امیدوار شاید نہیں جانتے تھے کہ یہ الیکشن پہلے سے ہی فکس کیا جا چکا تھا۔ آج کے تین سینئر اینکر پرسنز سمیت پانچ صحافیوں سے نواز شریف نے الیکشن سے کئی ماہ پہلے ہوئی ملاقات میں کیا کہا تھا اور اس ملاقات سے قبل مری میں بطور اپوزیشن لیڈر انہوں نے کون سی اہم غیر ملکی شخصیت کے ساتھ گھنٹوں پر محیط ملاقات کی تھی‘ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی۔ اس اہم ملاقات کے بعد پانچ صحافیوں کو خصوصی طور پر مدعو کر کے ان سے درخواست کی گئی کہ ہماری حکومت آنے والی ہے‘ ہم سے وعدہ کریں کہ تین ماہ تک آپ ہم پر ہاتھ ہولا رکھیں گے۔ اس میٹنگ میں چودھری نثار کے علاوہ دو موجودہ وفاقی وزرا بھی شامل تھے۔ اس وقت یہ صحافی بھوربن سے اسلام آباد واپس جاتے ہوئے سارا راستہ یہی سوچتے رہے کہ بینظیر ملک کی وزیراعظم ہیں‘ فاروق لغاری صدر‘ پھر حکومت کیسے بدلے گی؟ لیکن کچھ عرصے بعد مرتضیٰ بھٹو کو کراچی کی سڑکوں پر قتل کر دیا گیا اور پھر معاملات بینظیر بھٹو کے ہاتھوں سے کھسک گئے۔ فاروق لغاری نے انہی حالات کو جواز بناتے ہوئے بی بی حکومت کا دھڑن تختہ کر دیا۔ دیکھا جائے تو اگر اس وقت بی بی سے دھوکا نہ کیا جاتا‘ ان کی حکومت کرپشن اور لوٹ مار کے جھوٹے‘ سچے الزامات لگا کر رخصت نہ کی جاتی‘ مقدمات میں پھنسا کر ان کا ملک میں جینا دوبھر نہ کیا جاتا تو شاید وہ کبھی بھی خود ساختہ جلاوطنی اختیار نہ کرتیں۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ان سب کا اختتام بی بی کی المناک شہادت پر ہوا۔ کبھی کبھی کچھ ایسے حالات اور واقعات پیش آ جاتے ہیں جن کے اثرات کہیں سے کہیں جا کر جانکاہ صدمات میں بدل جاتے ہیں۔
1997ء کے انتخابات میں تحریک انصاف حسبِ توقع کوئی نشست نہیں لے سکی تھی لیکن ملک کی سب سے بڑی سمجھی جانے والی پیپلز پارٹی کے حصے میں بھی قومی اسمبلی کی صرف چودہ نشستیں ہی آئی تھیں۔ پنجاب اسمبلی میں صورتحال یہ تھی کہ محض سات یا آٹھ لوگ اپوزیشن میں تھے۔ اپوزیشن تو دور‘ وزیراعلیٰ اپنے ایم پی ایز کو بھی شکل نہیں دکھاتے تھے۔
یادش بخیر! ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دورِ حکومت سے متعلق جالبؔ کی ایک نظم کا یہ مصرع بہت مشہور ہوا تھا ''لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو‘‘۔ نجانے آج کا سیاسی منظر دیکھ کر یہ مصرع کیوں بار بار یاد آ رہا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved