خوش قسمتی ہے کہ زندگی کے سفر میں عبقری صفات کے حامل انسانوں کی نیاز مندی کا شرف حاصل رہا۔ ان میں ہمارے ملک اور بیرونی دنیا کے اساتذہ اور مشاہیر اور ایسی اعلیٰ شخصیات جنہوں نے علوم‘ فنون کی دنیا میں اپنا نا م پیدا کیا ہے۔ مقام ایسے ہی نہیں بنتے‘ نہ شرفِ کمال نصیب ہوتا ہے۔ ایک جہدِ مسلسل کے ساتھ خلوصِ نیت‘ فراخ دلی‘ جذبہ‘ ایثار اور انسانیت کی خدمت کی لگن انسانوں کو فرشتہ تو نہیں لیکن ان کی ذات میں انمول نیکی کا رنگ بھردیتی ہے۔ ڈاکٹر پرویز حسن مُلک کے نامور قانون دان اور اپنے شعبے میں عالمی پہچان رکھتے ہیں۔ مگر ان کی زندگی کا ایک گوشہ ہے جس کی کبھی نہ وہ تشہیر کرتے ہیں اور نہ ہی اُنہیں ایسا کرنے کی ضرورت ہے کہ جو ادارے اُنہوں نے ابھی تک بنا دیے ہیں یا ان کے بنانے میں ان کا کلیدی کردار ہے‘ وہ ہمیشہ ان کی انسان دوستی کی روایت کو زندہ رکھیں گے۔ میرا ان سے ذاتی تعلق تقریباً بیس برس پہلے ہوا جب میں نے لمز کو اپنا دوسرا گھر بنا یا۔ مگر ان کے نام سے واقفیت نصف صدی پہلے ہوئی جب بطور استاد میں نے اسلام آباد یونیورسٹی‘ اب قائد اعظم یونیورسٹی میں پہلا کورس پڑھایا۔ بین الاقوامی قانون میں مجھے خاص دلچسپی تھی۔ شوق سے پڑھاتا تھا۔ بعد میں پنجاب یونیورسٹی میں تین سال تک یہ مضمون پڑھاتا رہا۔ اُن دنوں انٹر نیشنل لاء کے کورس کو دیکھنے کا موقع ملا تو اس پر ڈاکٹر پرویز حسن کا نام لکھا ہوا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اپنے خرچ پر صبح کی فلائٹ پر اسلام آباد آتے‘ لیکچر دیتے اور شام کو اسی طرح لاہور واپس چلے جاتے۔ نئی یونیورسٹی تھی ا ور انٹر نیشنل ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ بالکل نیا تھا۔ صرف چند استاد اس وقت دستیاب تھے۔ شاید اُس وقت وہاں کسی کو معلوم نہ ہو کہ اس شعبہ کی تعمیر میں ڈاکٹر پرویز حسن نے کس جذبے سے کام کیا‘ مگر انتظامیہ کی روایتی بے اعتنائی کی وجہ سے وہ اسے جاری نہ رکھ سکے۔ بعد میں انٹر نیشنل لاء کے حوالے سے ان کی تحریریں پڑھنے کو تو ملیں مگر ملاقات کبھی نہ ہوسکی۔
دل میں ایک خواہش ضرور رہی کہ آخر یہ کون ہیں جنہوں نےYale University سے 1963 ء میں قانون کی ڈگری لی اور اسے خیرباد کہہ کر وہ ہاورڈ چلے گئے۔ علم کی دنیا میں ان دو امریکی جامعات کا بڑا مقام ہے۔ آج بھی اگر کوئی Yale سے قانون کی ڈگری کرلے تو امریکہ کی ہر بڑی سے بڑی عالمی کارپوریشن اس کے آگے پیچھے پھرے گی۔ ہم آج سے ساٹھ سال پہلے کی بات کررہے ہیں۔ لاہور کے نوجوان پرویز حسن پی ایچ ڈی کر کے ڈاکٹر پرویز حسن ہوگئے۔ امریکہ میں رہ کر بھی وہ اس نئی دنیا میں اپنی دنیا بسا سکتے تھے‘ مگر لاہور اور پاکستان تو ان کے دل پر کندہ ہوچکے تھے۔وہ کچھ بڑا کام کرنا چاہتے تھے۔
تقریبا ً دس سال یا اس سے زیادہ پہلے کی بات ہے کہ لمز میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ چلتے چلتے باتیں ہورہی تھیں تو عرض کیا کہ یونیورسٹی کے باہر جو گندہ نالہ ہے‘ اس کا کوئی بندوبست ہم ابھی تک نہیں کرسکے۔ کہنے لگے کہ نالے کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا مگر دیوار کے اس پار ہم کسی دن بیٹھ کر پکنک منائیں گے۔ اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ ان کے ذہن میں اس جگہ کے لیے کیا منصوبہ بندی ہے۔ چند ہی برسوں میں دیکھتے ہی دیکھتے اس جگہ ایک عالی شان تین منزلہ عمارت کھڑی کردی گئی۔ یہ عمارت لاہوری طرزِتعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔ اب یہ شیخ احمد حسن سکول آف لاء ہے‘ جو اس وقت پاکستان کا بہترین ادارہ ہے۔ ایک دو سال تک اس کمیٹی کا رکن رہا جس کی سربراہی ڈاکٹر پرویز حسن کررہے تھے۔ ہم کسی موزوں شخص کی تلاش میں تھے جو اس کے ڈین مقرر ہوں۔ اس خطیر رقم کا مجھے اندازہ تھا مگر اس کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ اس لیے کہ ڈاکٹر صاحب تشہیر پسند نہیں کریں گے۔ سرمایہ اپنے ذاتی ذرائع سے فراہم کیا۔ کچھ دوست احباب نے بھی حصہ ڈالا۔
چند ماہ قبل اچانک فون آیا کہ وہ میرے پاس تشریف لارہے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح ہنستے مسکراتے‘ چہرے پر تازگی لیے آئے۔ اپنی تازہ کتاب‘ ''شکرگزاری کی کہانیاں‘‘ بھی عنایت فرمائی۔ کتاب تو انگریزی میں ہے مگر میری دانست میں اس کا اردو عنوان یہی بنتا ہے۔احسان مند شکرگزاری میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔ یہ بڑے لوگوں کی بڑی خوبیوں میں سے ہے۔ کتاب کا ہر باب کسی کی شفقت کا اعتراف ہے۔ شروع اپنے اساتذہ اور والدین سے کرتے ہیں جن کی تربیت ہی تو تھی کہ اُنہوں نے وہ مقام پایا جو دنیا میں چیدہ چیدہ لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ اپنی کم علمی کا اعتراف کرتا ہوں کہ ان کے کام‘ خدمات اور رفاعی اداروں کی تعمیر میں معلو مات بالکل سطحی تھیں۔ کتاب پڑھی تو احساس ہوا کہ پاکستان کے بحرانوں اور ابتلا کے کئی ادوار میں ڈاکٹرپرویز حسن صاحب جیسے لوگ وقت کی آلودگی سے دامن بچا کر فلاحی کاموں میں مصروف رہے۔ جامعہ پنجاب جہاں ہم نے تعلیم حاصل کی اور تدریس بھی کی‘ اس ادارے پر کوئی جتنا فخر کرے کم ہے‘ وہاں ڈاکٹر صاحب نے 2003 ء میںEnvironmental Law Centreکی عمارت تحفتاً بنا کر دی۔ یہ سنٹر انہی سے منسوب ہے۔ اس عمارت کا رنگ ڈھنگ جامعہ کی روایتی عمارت سے بالکل جدا ہے۔ یہ اُس طرز کی علامت ہے جو مشہور ماہرتعمیرات نیئر علی دادا سے منسوب ہے۔ ماحولیات کے میدان میں ڈاکٹر صاحب کی کاشوں کا ذکر چند سطروں میں تو نہیں ہوسکتا اس کے لیے تو ایک دفتر دکار ہے۔ عالمی سطح پر وہ کون سا ادارہے اور وہ کون سی منصوبہ بندی ہے جس کا وہ حصہ نہ رہے ہوں۔قوانین کو عالمی سطح پر بدلنے سے لے کر قومی استعداد پیدا کرنے تک اُنہوں نے بھرپور کوششیں جاری رکھی ہیں۔اس شعبے میں وہ عالمی شناخت رکھتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے کوئی دوست بیکن ہائوس نیشنل یونیورسٹی میں شعبہ آرکیٹیکچر کی عمارت کی بات کررہا تھا کہ وہ دیکھنے کے قابل ہے۔ ایسی شاندار عمارت شاید ہی کسی جامعہ میں ہو۔ رضیہ حسن سکول آف آر کیٹیکچر بھی ڈاکٹر پرویز حسن صاحب کی قومی خدمات میں سے ایک ہے۔ اس جامعہ کے لیے ایک ڈنر میں کراچی کے ایک بڑے بزنس مین سے دس کروڑ کا عطیہ دلوایا۔ نمل کالج‘ شوکت خانم ہسپتال اور لمز کے لیے تو اُنہوں نے عشروں سے تحریک چلا ئے رکھی۔ پاکستان میں متمول افراد کی کمی نہیں اور نہ ہی جائزو ناجائز ذرائع سے دولت کے انبار جمع کرنے والوں کی۔ یہ سب خاک ہوجائیں گے۔ گنتے گنتے تھک ہار کر ہمیشہ کے لیے سو جائیں گے۔ اصل سرمایہ وہ ہے جو لوگوں کے کام آئے۔ اس طرح وقت‘ صلاحیت‘ فن‘ علم اور عقل و فراست سے بھی وہ جس سے انسانوں کا فائدہ ہو۔ ایثار‘ خدمت‘شکر گزاری کے بارے میں پڑھا تو بہت ہے مگر ایسی روشن مثالیں بالکل ہمارے سامنے ہوں اور نیاز مندی بھی ہوتو اثر دل کی گہرائیوں میں چلا جاتا ہے۔ ایسے ہی جذبات اور تحریکیں جنم لیتی ہیں۔ اثر تو اہلِ علم اور فلاحی اداروں کی تعمیر اور انسانیت کی خدمت میں مامور لوگوں کا ہوتا ہے جو اپنے سرمائے کا ایک خطیرحصہ دوسروں کے لیے وقف کردیتے ہیں۔ آپ میں سے اگر کوئی ڈاکٹر پرویز حسن سے ملا ہے تو جانتا ہو گا کہ مسکراہٹ بادلوں سے پھوٹتی روشنی کی لکیروں کی طرح ان کے چہرے پر کوندتی رہتی ہے۔ ایسا اطمینان‘ سکون اور آنکھوں میں چمک آج کے دور میں خال خال چہرے پر ہی دکھائی دیتی ہے۔ کاش ہم بھی کچھ شکرگزاری کرجاتے۔ دوسروں کے لیے جینے کا فن کسی سے کسب کرتے اور علم کے ایسے چراغ روشن کرجاتے جیسے ڈاکٹر پرویز حسن نے کیے۔ دعا ہے کہ وہ ہمیشہ مسکراتے رہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved