سال 1992ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک تاریخ ساز فیصلہ صادر کیا۔ یہ شریعت اپیلٹ بینچ کا فیصلہ تھا جس میں دنیا کے سب سے بڑے منصف‘ جن کے ذریعے انصاف کی عظیم ترین ڈاکٹرائن سامنے آئی‘ یہی کہ''العدلُ بالاحسان‘‘‘اجازت دیں میں اس کا ترجمہ انگریزی میں کرنا چاہتا ہوں یعنی Justice must be tainted with Mercy۔
آپ ہیں محسنِ انسانیت خاتم المرسلین حضرت محمد مصطفیﷺ‘ جن کے ذریعے جو قانون اور نظامِ انصاف دنیا کو ملا وہ مغرب کے پیمانہ ٔانصاف سے یکسر مختلف ہے۔ مغربی دنیا میں انصاف کی ساری دیویوں اور دیوتوںکی مورتیوں کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوتی ہیں‘جو اس بات کا اعلان ہے کہ انصاف اندھا ہوتا ہے‘ جبکہ مسلم تصورِ انصاف کی بنیاد منصفی اور رحم دلی کو ملا کر رکھی گئی۔
میں اور پچھلی صدی کے جو لوگ اس وقت پاکستان میں بستے ہیں اُن کی سوچ اور ہمارے بعد آنے والی تین نسلوں‘ جوان‘ نوجوان اور Teenager کی سوچ میں فاصلے بھی صدیوں سے کم نہیں ۔یہ تینوں نسلیں ایک سے بڑھ کر ایک ذہین‘ فطین‘ جدید علوم سے آراستہ اور اظہار و بیان پر مکمل قدرت رکھتی ہیں۔ جس کی وجہ سمارٹ فون‘ کمپیوٹر اور سوشل میڈیا کے درجنوں ذرائع ہیں ۔ ان ذرائع نے دنیا کو بین الاقوامی گائوں نہیں رہنے دیا بلکہ آج ہر شخص خواہ وہ کسی براعظم میں رہتا ہو ایک دوسرے کا محلہ دار بن گیا ہے۔
1992ء کے جس فیصلے کا ذکر اوپر آیا اس میں جنابِ رسالتِ مآب ﷺ کی دو حدیث مبارک عدل کے حوالے سے درج کی گئی ہیں‘ ان احادیث ِمبارکہ کا ترجمہ درج ذیل ہے :
پہلی حدیث شریف:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا‘قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک جنت میں جائے گا اور دو جہنم میں۔ جنتی قاضی وہ ہے جو حق کو پہچانے اور اس کے مطابق فیصلہ کرے۔ رہا وہ قاضی جو حق کو تو پہچانے لیکن فیصلہ صادر کرنے میں زیادتی کرے وہ دوزخی ہے۔ اسی طرح وہ قاضی جو جہالت کے باوجود فیصلے کرے وہ بھی جہنمی ہے۔
دوسری حدیث شریف:اللہ کے رسول ﷺ کے ایک ارشاد ِ گرامی کا مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے دن منصف قاضی بھی ایک وقت ایسا آئے گا جب وہ حسرت سے کہے گا کہ اے کاش میں نے دو آدمیوں کے درمیان ایک کھجورکے بارے میں بھی فیصلہ نہ کیا ہوتا۔
ہمارے عدالتی نظام میں جوڈیشل افسران اور ججز کی بھاری اکثریت بے شمار مشکلات کا شکار ہے‘ اس کے باوجود مجھے چار عشروں کے ذاتی تجربات کی بنیاد پر اُن پر ہمیشہ فخر رہا ہے۔المیہ یہ ہے کہ ایک جج کی بحالی کے لیے چلنے والی سیاسی تحریک میں سیاسی جماعتیں اور کچھ جج صاحبان ایک ہی ٹرک پر چڑھ کر ایک دوسرے کی جانثاری کے نعرے سنتے سناتے رہے۔ آج آپ کسی پروفیشنل پریکٹسنگ لائیر سے بات کریں‘ وہ اُس دور کو پاکستان میں نظامِ انصاف کی بے توقیری کا نقطہ ٔآغاز کہے گا۔اس کی دوسری وجہ وہ سیاسی عہدے ہیں جو سیاسی ذہن رکھنے والے بے شمار ججز کو ملے اور وہ کوئی معمولی عہدے نہیں‘ صدر‘ وزیراعظم ‘ گورنر ‘ چیف منسٹر اور نجانے کیا کیا۔آپ اگر پاکستان میں بار ایسوسی ایشن جوائن کرنے والے نوجوان وکلا کو دیکھیں تو آپ کہہ اُٹھیں گے کہ ریٹائرڈ ‘ پنشن یافتہ بزرگوارانِ قانون و انصاف تاحیات دوسرے‘ تیسرے ‘چوتھے عہدوں پر جمے ہوئے ہیں۔ ان عہدوں سے ریٹائرمنٹ کا راستہ صرف قدرتِ کاملہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ نوجوان اہلیت والے ہوں یا صلاحیت والے ‘ وہ اپنی باری کے بارے میں یوں سوچتے ہیں:
میں انتظار کروں گا ترا قیامت تک
خدا کرے کہ قیامت ہو اور تو آئے
ان دنوں عالمی سطح پر ایک جج سب سے زیادہ معروف ہیں‘یہ ہیں مسٹر فرینک کیپریو جو نامور امریکن جیورسٹ تھے اور Cheif Judge of the Municipal Court of Providence کے ممتاز عہدے پر بھی فائز رہے۔ 24نومبر 1936ء کو پیدا ہونے والے جسٹس فرینک مغربی نظامِ انصاف کے باغی ہیں۔ اُن کی عدالت میں انصاف کی تلاش میں آنے والے سائل اور قانون توڑنے کے ذمہ دارملزم‘ دونوں کو احسان کے ساتھ عدل ملتا ہے۔ آپ جسٹس فرینک کی عدالت کے سینکڑوں ریکارڈ شدہ مقدمات میں سے کوئی مقدمہ نکال کر دیکھ لیں ‘یوں لگتا ہے جیسے وہ سب کے جاننے والے ‘ سب کو چاہنے والے اور سب پر احسان کرنے کی قسم کھا کر کرسی ٔانصاف پر بیٹھتے ہیں۔ آئیے آپ کو ایک تازہ مقدمے کی جھلکیاں دکھا دیں۔ مکالمہ یوں ہے:
جج: آپ کی موٹر گاڑی بوٹ ہوگئی ہے۔
موٹرسٹ: جی ہاں‘ میرے ساتھ سب صحیح نہیں جا رہا ہے ۔ میرا کوئی پیچھا کرتا رہا‘ بے گھر ہوں۔
جج: کیا آپ کے پاس رہائش ہے؟
موٹرسٹ: نہیں۔
جج: آپ کے پاس 5 ڈالر ہیں؟
موٹرسٹ: جی ہاں‘ یہ ہی کچھ میرے پرس میں ہے۔
جج: میں حکم دینے جارہا ہوں‘ یہ لازمی ہے۔ میں 100 ڈالر بوٹ فیس کا حکم دینے جا رہا ہوں اورمیں ٹکٹ کیلئے آپ کو 300 ڈالر چارج کرنے جا رہا ہوں۔
موٹرسٹ: بہت بہت شکریہ۔
جج: آپ 400 ڈالر کا مقروض ہونے جارہی ہیں۔ جس میں سے 300 ڈالر فلومینا فنڈ کی طرف سے ادا کیا جائے گا۔
موٹرسٹ: فلومینا فنڈ کی طرف سے؟
جج: فلومینا فنڈ ایک فنڈ ہے جو میری ماں کے نام سے وابستہ ہے۔ یہ اُن رقومات پر مشتمل ہے جو پوری دنیا سے بھیجی جاتی ہیں عدالت کیلئے ‘جو کہ عدالت ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنے کیلئے اپنی صوابدید سے استعمال کرتی ہے۔
موٹرسٹ: شکریہ
جج: آپ کے پاس کھانے کیلئے کوئی پیسہ ہے؟
موٹرسٹ: میں ریسٹورنٹ میں کام کر رہی ہوں۔جو میری گزر بسر کا ذریعہ ہے۔ میں دن میں صرف ایک وقت کا کھانا کھا رہی ہوں کیونکہ وہ ایک مفت کھانا دیتے ہیں۔
جج: ہرمستحق کو زندگی میں موقع ملنا چاہیے۔ آپ جانتے ہیں کہ سختی سے پیش آنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن میری کوشش ہوتی ہے لوگوں کے ذاتی حالات کو مدنظر رکھا جائے۔ مجھے لگتا ہے آپ کو کچھ چیلنجز درپیش ہیں جن کا سامنا کرنا بہت مشکل ہے۔ آپ اُن کے بارے میں بہت پختہ اور ایماندار ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ میں آپ کی مدد کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
موٹرسٹ: شکریہ
جج: آپ کے عدالت کے کمرے سے نکلنے سے پہلے ہم آپ کو فلومینا فنڈ سے نقد رقم دینے کیلئے 50 ڈالر کا بندوبست کرنے جارہے ہیں‘ آپ کے پاس کچھ رقم ہوگی لہٰذا آپ کچھ دن کیلئے کھانے پینے کا بندو بست کر سکیں۔
موٹرسٹ: جی ‘ آپ کا شکریہ۔
جج: دوسروں کی مدد کرنا ہی زندگی کا اصل مقصد ہے لہٰذاجب حالات تمہارے حق میں ہوں توآپ دوسروں کی مدد کریں۔ ٹھیک ہے آپ جا سکتی ہیں۔
موٹرسٹ: جی ٹھیک ہے‘ شکریہ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved