تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     26-05-2023

ڈیفالٹ: کون، کیوں اور کیسے؟

ذکر ہو رہا ہے دنیا کی سب سے بڑی معاشی و عسکری طاقت یعنی امریکہ کا‘ جس کو اپنی دو صدیوں سے زیادہ پہ محیط تاریخ میں پہلی دفعہ ایسی تلخ حقیقت یعنی ''معاشی دیوالیہ پن‘‘ کا سامنا ہے کہ جس کے شواہد سامنے آنے پر بھی لوگ اس پر یقین نہیں کرتے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو امریکہ میں کچھ عرصہ قیام کر کے آئے ہیں‘ یا اب بھی وہاں قیام پذیر ہیں‘ وہ ان سب ٹھوس حقائق کو یکسر نظر انداز بلکہ رد کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک وہ مخصوص گروپ یا لابی ہے‘ جو کسی نہ کسی صورت اپنے خیالات دوسروں تک پہنچا سکتی ہے۔ یہ لوگ لکھنے اور بولنے والوں کے علاوہ کسی ایسے پلیٹ فارم پر کام کرتے ہیں‘ جہاں سے وہ لوگوں سے مخاطب ہوتے ہیں۔ اب یہ بات ہے تو تلخ مگر حقیقت ہے کہ ان میں سے بیشتر وہ لوگ ہیں جو امریکی سکالرشپ پر وہاں سے تعلیم حاصل کر کے آئے ہیں۔ اس حوالے سے عموماً ایک فقرہ کسا جاتا ہے کہ ''Once in America, American forever‘‘۔ یعنی ایک بار جو امریکہ سے ہو آئے‘ وہ ہمیشہ کیلئے امریکی بن جاتا ہے، یعنی وہ امریکہ سے اس قدر مرعوب ہو جاتا ہے کہ ذہنی طور پر امریکی نظام، امریکی پالیسیوں اور امریکہ کی حمایت کرنے اور دوسروں کو اس پر قائل کرنے والا بن جاتا ہے۔ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والوں میں ایک خاص ایجنڈے کے تحت ''امریکیت‘‘ بھری جاتی ہے، اس عمل کو وہ Americanization کا نام دیتے ہیں۔ اسی طرح امریکہ کو ایک Melting Pot بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد یہ لیا جاتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے، کسی بھی مذہب، کسی بھی نسل سے تعلق رکھنے والا یا کوئی بھی زبان بولنے والا جب امریکہ پہنچ جاتا ہے تو وہ پگھل کر یعنی اپنی تمام شناختوں کو پگھلا (بھلا) کر امریکی سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ بلاشبہ امریکہ دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جہاں پوری دنیا کے لوگ موجود ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر آپ تمام دنیا کی زبانوں، نسلوں، مذاہب اور کلچر کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ پوری دنیا گھومنے کے بجائے صرف امریکہ چلے جائیں، آپ کو سب کچھ اسی ایک ملک میں مل جائے گا۔ اسی لیے امریکہ کو ''Nation of Nations‘‘ بھی کہا جاتا ہے یعنی امریکہ سبھی اقوام پر مشتمل ایک قوم ہے۔
امریکہ ڈیفالٹ کیوں کرے گا ؟
کیا امریکہ معاشی طور پر ڈیفالٹ کر سکتا ہے‘ اگر ہاں تو امریکہ کیوں ڈیفالٹ کرے گا؟ یہ شاید سب سے اہم اور مشکل سوال ہے، لیکن اس کا جواب آج تک اس لیے چھپا رہا ہے اور اب بھی واضح نہیں کہ کسی طاقتور اور امیر کی خامیاں بیان کرنا تو در کنار‘ ان خامیوں کو سامنے ہی نہیں آنے دیا جاتا، مطلب ان پر کھل کر بات نہیں کی جاتی۔ مذکورہ سوالوں کا جواب یہی ہے کہ یقینا امریکہ معاشی طور پر ڈیفالٹ کر سکتا ہے، جہاں تک کیوں کی بات ہے تو اس کا پہلا سبب امریکہ کی عسکری یا جنگی حکمت عملی ہے۔ اس بات کو ثابت یا واضح کرنے کیلئے پوری دنیا کے دفاعی بجٹ کا مطالعہ ہی کافی ہے۔ گزشتہ سال امریکہ نے دفاعی یا جنگی بجٹ کیلئے 730 بلین ڈالر مختص کیے تھے، جبکہ امریکہ کے سب سے بڑے حریف یعنی چین نے صرف 260 بلین ڈالر اس مد میں رکھے تھے۔ اب آپ کو دنیا کے تیسرے بڑے دفاعی بجٹ کا انتظار ہو گا‘ تو عرض ہے کہ یہ نہ تو جاپان ہے اور نہ ہی کوئی یورپی ملک‘ بلکہ یہ ہمارا ہمسایہ بھارت ہے جس نے 70 بلین ڈالر رکھے تھے۔ ملاحظہ کیجیے کہ پہلے سے تیسرے نمبر تک آتے آتے یہ بجٹ دس فیصد ہو گیا ہے۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا کہ امریکہ کا دفاعی بجٹ کتنا زیادہ ہے۔ اس لسٹ میں اگلا نمبر 65 بلین ڈالر کے ساتھ روس کا ہے، پھر سعودی عرب 62 بلین ڈالر۔ فرانس 50 بلین ڈالر، جرمنی 49 بلین ڈالر، برطانیہ 48 بلین ڈالر اور جاپان 47 بلین ڈالر۔ دسویں نمبر پر 46 بلین ڈالر کے ساتھ جنوبی کوریا ہے۔ اب ذرا حساب لگائیں کہ امریکہ کے بعد آنے والے نو بڑے ممالک کا کل دفاعی بجٹ ملا کر بھی امریکی بجٹ سے کم ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ نے اس سال دفاعی بجٹ میں مزید اضافے کا اعلان کیا ہے۔ خبر کے مطابق‘ اگلے مالی سال میں یہ بجٹ 885 بلین ڈالر سے بھی زائد ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ یہ صرف امریکی فوج کا بجٹ ہے، اگر دیگر امریکی سکیورٹی اداروں کا بجٹ بھی اس میں شامل کر لیا جائے تو یہ دو ٹریلین یعنی دو ہزار بلین ڈالر سے بھی تجاوزکر جاتا ہے۔ اگر موجودہ امریکی صدر کی جانب سے دفاعی بجٹ میں اضافے کے عندیے کا تجزیہ کریں تو بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ وہ طاقت کے بل پر پوری دنیا پر اپنی حکمرانی کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اس میں نمایاں پالیسی ایشیائی ممالک میں دخل اندازی ہے۔ اس بات کو ایک اور نظر سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت دنیا کے تقریباً 80 ممالک میں امریکہ کی 700 سے زائد ملٹری بیسز موجود ہیں۔ ان میں سب سے پرانی اور اہم فوجی موجودگی جنوبی کوریا میں ہے۔ چین کا ایک اہم ترین تنازع تائیوان کی شکل میں ہے۔ چین اس علاقے کو اپنا حصہ مانتا ہے لیکن امریکہ تائیوان کی ہر طرح سے مدد کرکے چین کیلئے ایک تنازع زندہ رکھنا چاہتا ہے۔ افغانستان میں بیس سال تک امریکی موجودگی اور جنگ کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے؟ اس جنگ میں کل کتنا سرمایہ خرچ ہوا‘ اس کا اصل ڈیٹا آج تک نہیں ملا۔ ایک تخمینہ یہ ہے کہ دو ٹریلن ڈالر سے زائد رقم دیگر علاقائی ممالک کو جنگ میں شامل رکھنے پر صرف کی گئی۔ اس وقت امریکہ کا کل قرضہ 31 ٹریلن ڈالر ہے۔ یہاں بجا طور پر یہ خیال آتا ہے کہ اگر افغان جنگ میں کم از کم یہ دو ٹریلن ڈالر ضائع نہ کیے جاتے تو امریکی قرضہ چھ سے سات فیصد تک کم ہو سکتا تھا۔ البتہ یہ بھی درست ہے کہ جنگوں سے امریکہ نے کمایا بھی خوب ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی خراب صورتحال کے بعد امریکہ نے خوب مال بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ حالات کو اس نہج تک لانے کا ذمہ دار بھی امریکہ ہی ہے۔ اس حوالے سے بہت سارے ثبوت سامنے آ چکے ہیں۔ یہاں کشیدگی پیدا کرنے اور برقرار رکھنے کیلئے داعش جیسی تنظیمیں کھڑی کی گئیں۔ ظاہر ہے کہ ان کاموں کے لیے بھاری رقوم و اسلحہ فراہم کرنا پڑتا ہے۔ جنگیں ایسا بھانک فعل ہوتی ہیں کہ ان کا قرض ایک تاوان بن جاتا ہے، اور یہ تاوان محض زندگیاں ہی نہیں بلکہ نسلیں بھی کھا جاتا ہے۔ اپنے خطے میں دنیا کے تیسرے بڑے دفاعی بجٹ والے ملک یعنی بھارت ہی کو دیکھ لیں‘ جس نے اس خطے کی آزادی سے لے کر آج تک یہاں جنگی ماحول پیدا کر رکھا ہے، جبکہ اسی ملک میں دنیا کی سب سے بڑی غریب آبادی بس رہی ہے۔ کروڑوں افراد کے پاس رہنے کو گھر تک نہیں ہے مگر بھارت امریکی ایما پر چین جیسی طاقت سے خود کش قسم کی جارحیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کا انجام
امریکہ ایک جمہوری اور سرمایہ دارانہ نظام والا ایسا ملک ہے جو اس جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کو ایک عقیدہ سمجھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کے ممکنہ زوال میں سرمایہ دارانہ نظام کا کتنا کردار اور قصور ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ دنیا کی بیس فیصد آبادی دنیا کے تقریباً 82 فیصد وسائل اور دولت پر قابض ہے۔ صرف امریکہ میں امیر ترین بیس فیصد لوگوں کے پاس اپنے ملک کی کل دولت کا 86 فیصد ہے جو بہت بڑا تضاد ہے۔ ظاہر ہے کہ باقی 80 فیصد لوگوں کے حصے میں صرف 14 فیصد وسائل ہی بچتے ہیں۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ امریکہ کے اصل امیر اور خوشحال لوگ صرف یہ بیس فیصد لوگ ہی ہیں اور امریکہ کی ترقی اور خوشحالی انہی لوگوں کے قبضے میں ہے۔ چند خاندان اور بینک اتنی زیادہ طاقت حاصل کر چکے ہیں کہ وہ حکومتوں کو اپنا مقروض حتیٰ کہ یرغمال تک بنا لیتے ہیں۔ ممکنہ ڈیفالٹ کا اصل اثر اُن 80 فیصد لوگوں ہی پر پڑنا ہے جن کے پاس ملکی دولت کا صرف چودہ فیصد بچتا ہے۔ آپ ان کو امریکی معیار کے مطابق روزانہ یا ماہانہ بنیادوں پر کمانے اور خرچ کرنے والے لوگ کہہ سکتے ہیں۔ اس تقسیم کو اگر مزید واضح کریں تو پچاس فیصد امریکی ایسے ہیں جن کے حصے میں کل ملکی دولت کا صرف 3 فیصد آتا ہے، امریکی ڈیفالٹ کا مطلب درحقیقت ان پچاس فیصد امریکیوں کا ڈیفالٹ ہونا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved