موسمِ گرما کے ساتھ ہی ایک بار پھر بجلی بحران سر اٹھا چکا ہے۔ کئی علاقوں میں طویل لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ ٹرپنگ کی شکایات بھی عام ہیں۔ لاہور اور راولپنڈی سمیت تمام بڑے شہروں میں گرمی کی شدت کے بڑھنے کے ساتھ ہی بجلی کی بندش کا دورانیہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ ہر روز 4 سے 5 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ یوں تو کئی سال سے یہی روایت ہے کہ موسم گرما کا آغاز ہوتے ہی بجلی کی لوڈشیڈنگ بڑھ جاتی ہے لیکن حالیہ گرمی کی لہر میں بجلی کی بندش کا سلسلہ خاصا بڑھ گیا ہے۔ مختلف علاقوں میں تکنیکی خرابی کے نام پر بھی بجلی کئی کئی گھنٹے بند رکھی جا رہی ہے۔ طویل لوڈشیڈنگ کے باوجود بجلی کے بل ہیں کہ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
وطن عزیز میں توانائی بحران کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بجلی و گیس کی قلت اور لوڈشیڈنگ نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ ایک طرف لوڈشیڈنگ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی دوسری طرف مارکیٹوں میں ضرورت سے زیادہ نمائشی بتیاں جلتی نظر آتی ہیں۔ 2017ء تک ہم نے کسی حد تک توانائی بحران پر قابو پا لیا تھا لیکن اس کے بعد دوبارہ اس بحران نے سر اٹھایا اور اب یہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ زیادہ تر بجلی چونکہ درآمدی تیل سے بنائی جا رہی ہے‘ لہٰذا ملک کی موجودہ معاشی صورتحال میں اس پر قابو پانا آسان نہیں ہے، اس کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنانے اور سورج کی روشنی کا صحیح استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت نے گزشتہ برس برس کے اواخر میں توانائی بچت پالیسی کا اعلان کیا تھا لیکن اس وقت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں وفاقی حکومت کی حریف سیاسی جماعت کی حکومتیں تھیں اور تب حکومت کی جانب سے یہی باور کرایا جا رہا تھا کہ صوبائی حکومتوں کے عدم تعاون کے سبب اس قومی پالیسی پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ مگر اب تو پانچ ماہ سے ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور دونوں صوبوں میں مخالف حکومتیں بھی ختم ہو چکی ہیں۔
بجلی شارٹ فال کے فوری اور آسان حل کے لیے حکومت نے کئی بار سورج کی روشنی کا صحیح استعمال کرنے اور رات کو 70 فیصد غیر ضروری لائٹنگ کی بچت کے لیے کاروباری مراکز رات کو جلد بند کرنے کے احکامات جاری کیے، کئی بار اس پالیسی پر کامیابی سے عملدرآمد بھی شروع ہوا لیکن پھر اس فیصلے پر عملدرآمد روک دیاگیا، حالانکہ یہ واحد پالیسی تھی جس سے نہ صرف بجلی کی بچت ہو سکتی ہے بلکہ قوم میں نظم و ضبط بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ اس وقت ہماری 80 فیصد مارکیٹیں دوپہر سے پہلے کھلتی ہی نہیں اور پھر کم از کم نصف شب تک تمام بازار اور شاپنگ مالز کھلے رہتے ہیں جس سے بجلی لوڈ 70 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ وفاقی حکومت نے دسمبر 2022ء میں ملک بھر میں توانائی بچت پروگرام کے تحت شادی ہالز رات 10 بجے اور مارکیٹیں رات 8 بجے بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ توانائی کفایت شعاری کیلئے بھی ایک پلان دیا گیا تھا۔ اس حوالے سے وفاقی وزرا نے بڑے زور و شور سے اعلان کیا تھا کہ سنگین معاشی صورتحال کے تناظر میں ہمیں اپنی عادتوں میں تبدیلی لانا ہو گی‘ توانائی کی بچت کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں، ہمیں اپنے وسائل کے ضیاع کو روکنا ہوگا، وغیرہ وغیرہ۔ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ نئی پالیسی کے تحت سرکاری اداروں میں 20 فیصد افرادی قوت گھر سے کام کرے گی‘ جس سے 56 ارب روپے کی بچت ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران اس پالیسی پر کس قدر عمل درآمد ہوا؟ اس وقت کہا گیا تھا کہ پرانے پنکھے 120 سے 130 واٹ بجلی استعمال کرتے ہیں جبکہ نئے پنکھے تقریباً 40 سے 60 واٹ بجلی استعمال کرتے ہیں، ان پنکھوں کے استعمال سے 15 ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے‘ ایل ای ڈی بلب کے استعمال سے 23 ارب روپے کی بچت ہو گی، گھروں میں پنکھے اور ایئرکنڈیشنڈ کے استعمال میں بچت سے 8 سے 9 ہزار میگاواٹ بجلی بچائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح گیس فراہم کرنے والی کمپنیاں گیزر کے لیے بچت کے آلات فراہم کریں تو ان سے 92 ارب روپے سالانہ کی بچت ہو سکتی ہے۔ متبادل ذرائع سے چلنے والی سٹریٹ لائٹس سے 4 ارب روپے کی بچت ہو گی۔ حکومت نے پٹرول کی بچت کے لیے الیکٹرک بائیکس درآمد کرنے کا بھی اعلان کیاتھا لیکن بدقسمتی سے ابھی تک کسی ایک بھی پالیسی پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ یقینا اس حوالے سے بنیادی ذمہ داری حکومت کی ہے مگر بطور ذمہ داری شہری کچھ فرائض ہم پر بھی عائد ہوتے ہیں کہ قومی مفاد کی حامل پالیسیوں پر ہم از خود عمل کریں۔
ہمارا مذہب ہمیں صبح سویرے اٹھنے اور تلاشِ رزق کی ترغیب دیتا ہے۔ دن کے ابتدائی حصے کو بابرکت بتایا گیا ہے۔ ہمیں دن کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی تلقین کی گئی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دنیا کے کئی غیر مسلم ممالک میں تو ان زریں اصولوں کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کر کے دنیاوی ترقی و کامیابی حاصل کی جا رہی ہے لیکن ہم مسلمان اور حاملِ قرآن ہوکر بھی اسلام کے فطرتی اصولوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور یہی ہمارے بحرانوں کا سبب ہے۔ ہمارے ملک میں شاید ہی کوئی مارکیٹ ہو جو دوپہر بارہ بجے سے پہلے کھلتی ہو، یہی وجہ ہے کہ اب شہریوں کی اکثریت بھی صبح یا دوپہر کے بجائے رات کو مغرب یا عشا کے بعد خریداری کے لیے بازاروں کا رخ کرتی ہے۔ ایک تو اس وقت تک شہری دن بھر کے کاموں سے فارغ ہو چکے ہوتے ہیں‘ دوسرا رات کو رنگ برنگی روشنیاں اپنے دلکش نظاروں سے انہیں متوجہ کرتی ہیں۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کی سماجی زندگی کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں، ان سب میں ایک چیز مشترک ملے گی، یہ سب ممالک دن کی روشنی کا استعمال خوب کرنا جانتے ہیں۔ وہ بھلے فجر کی نماز کے بارے میں نہ جانتے ہوں لیکن سحری کے وقت اٹھنا ان کامعمول ہے اور منہ اندھیرے ہی کام و کاروبار کے لیے گھروں سے نکل پڑتے ہیں اور سورج نکلنے سے پہلے اپنے کام کا آغاز کر دیتے ہیں۔ اسی طرح نوکری پیشہ مرد و خواتین بھی صبح سویرے‘ دفتر لگنے سے کافی پہلے اپنی ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں۔ تازہ دم ہونے کی وجہ سے نہ صرف ان کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے بلکہ ہشاش بشاش چہرے خوش اخلاقی کا تاثر بھی دیتے ہیں۔ وہاںطلوعِ آفتاب کے ساتھ ہی شروع ہو جانے والا کاروبارِ حیات سورج کے غروب ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتا ہے اور شام سے پہلے تمام لوگ اپنا اپنا کام ختم کر کے گھروں میں پہنچ جاتے ہیں۔ شام کے بعد کوئی بازار یا شاپنگ مال کھلا ہوا نہیں ملتا‘ اس لیے جس نے کوئی چیز خریدنی ہو‘ وہ دن کو ہی خرید لیتا ہے۔ اس کے برعکس جب سے ہم نے دن کی روشنی کا صحیح استعمال ترک کیا ہے‘ ہماری کل بجلی کی کھپت کا 70 فیصد حصہ رات کو کمرشل لائٹوں پرضائع ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری بجلی کی طلب پیداوار سے کہیں زیادہ ہے اور اسی کے نتیجے میں ہمیں طویل لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
موجودہ حکومت نہ تو امریکی ڈالر کی اڑان کو روک سکی ہے، نہ مہنگائی میں کمی لا سکی ہے، نہ بیروزگاری کا خاتمہ ہو سکا ہے اور نہ ہی دیگر مسائل کے حل کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ ستم در ستم یہ کہ اب بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں بھی غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے، جس کی وجہ عام شہری سکون کی نیند بھی نہیں سو سکتے اور کاروبار بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ حکومت اگر ایک یہی کام کر لے اور توانائی بچت پالیسی پر عمل درآمد کرا لے تو توانائی بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کو کم از کم لوڈشیڈنگ کے عذاب سے ہی بچا لیا جائے۔ اب تو صوبائی حکومتیں بھی وفاقی حکومت کی حلیف ہیں لہٰذا حکومت کیلئے اپنی پالیسی پر عمل درآمد کرانا قطعاً مشکل نہیں۔ اگر اب بھی ایسا نہ کیا گیا تو پھر معاشی تباہی کے ساتھ توانائی بحران مزید بڑھے گا جس سے آئندہ عام انتخابات میں خود حکمران اتحاد کیلئے بھی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ کم از کم توانائی بچت پالیسی پر ہی عمل کر کے عوام کو اسی ایک شعبے میں کچھ ریلیف دے دیا جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved