نعمتیں کس لیے عطا کی گئی ہیں؟ اِس لیے کہ ہم ان سے مستفید ہوں اور اپنے خالق و مالک کا شکر ادا کرتے رہیں۔ کوئی بھی نعمت محض اِس لیے نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرکے اُسے جوں کا توں رہنے دیا جائے۔ نعمت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنا اور دوسروں کا بھلا کرنا لازم ہے۔ اِس دنیا کا معیار اُسی وقت بلند ہوسکتا ہے جب ہم کسی بھی نعمت کو بطریقِ احسن بروئے کار لائیں۔ ہم میں سے بیشتر کا یہ حال ہے کہ نعمتوں سے کماحقہٗ مستفید تو کیا ہوں گے‘ نعمتوں کو شناخت کرنے میں بھی غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ محسوس کرنے اور سوچنے کی صفت کا بھی یہی معاملہ ہے۔ شعور کی منزل تک ہم اِن دونوں مراحل سے گزرتے ہوئے پہنچتے ہیں۔ کبھی کبھی حالات ایسا پلٹا کھاتے ہیں کہ ہمیں ہر طرف اندھیرا سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ جب بھی کوئی ناموافق بات رُونما ہوتی ہے تب ایسا لگتا ہے جیسے سبھی کچھ ہاتھ سے جاتا رہا ہے۔ یہ محض وقتی کیفیت ہوتی ہے۔ جب حواس بحال ہوتے ہیں تب ہم معاملات کی درست کیفیت کا اندازہ لگا پاتے ہیں۔ کیا کوئی بھی ناموافق معاملہ سب کے لیے یکساں ہوتا ہے؟ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ کسی بھی معاملے سے متعلق شدتِ احساس ہی طے کرتی ہے کہ انسان کیا کرے گا اور کیا نہیں کرے گا۔ ہم جس فکری سانچے میں ڈھل کر زندگی بسر کر رہے ہیں وہ بیشتر معاملات میں ہمارے لیے صرف الجھنیں پیدا کرتا ہے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہمارا فکری سانچا در حقیقت مکمل طور پر فکری سانچا ہے ہی نہیں۔ اس سانچے میں فکر کم اور جذبات زیادہ ہیں۔ اور جذبات بھی محض سطحی نوعیت کے یعنی دور دور تک صرف جذباتیت دکھائی دیتی ہے۔ ہم اِس دنیا سے کماحقہٗ مستفید ہونا چاہتے ہیں؟ عمومی سطح پر ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ بیشتر کا حال یہ ہے کہ اِس دنیا میں پائے جانے والے وسائل سے مستفید ہونے کی تمنا تو رکھتے ہیں مگر قدرے لا اُبالی پن کے ساتھ۔ خالص کارآمد سوچ اول تو کسی کسی میں پائی جاتی ہے اور معاملہ یہاں نہیں رُکتا۔ عمل کی توفیق کا معاملہ بھی اِلّا ما شاء اللہ ہے ع
یہ اُس کی دَین ہے‘ جسے پروردگار دے
خرابی کہاں ہے؟ سوچ میں؟ سوچ میں بھی ہے۔ عمل میں؟ عمل میں بھی خرابی کا پایا جانا اظہر من الشمس ہے۔ معاملہ فکر و عمل سے کچھ ہٹ کر ہے۔ سوال جذبات اور جذباتیت کا ہے۔ عام آدمی جذبات اور جذباتیت کے ریلے میں بہتا رہتا ہے۔ جذبات اپنے آپ میں کوئی بُرا معاملہ نہیں۔ ہم جذبات کی مدد سے بھی بہت کچھ کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ خالص جذبات بھی بہت دور تک ساتھ نہیں نبھا پاتے۔ ہمیں بالآخر فکر و نظر ہی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ یہ سہارا کم لوگ ہی لیتے ہیں۔ کیوں؟ صرف اس لیے کہ خالص فکر و نظر اور سنجیدگی کو اپنانا آسان نہیں۔ محض جذباتیت کے ریلے میں بہتے ہوئے زندگی بسر کرنا انتہائی سہل ہے۔ لوگ ہر معاملے میں آسانی دیکھتے ہیں، سہولت چاہتے ہیں۔ یہ سہل پسندی ہمارے بیشتر معاملات کو بگاڑ کر دم لیتی ہے مگر پھر بھی ہم اِس دامن چھڑانے کو تیار نہیں ہوتے۔ ایسا کیوں ہے کہ عام آدمی کسی بھی معاملے کی اصل کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا؟ لوگ اپنے بیشتر معاملات کو کماحقہٗ یا بطریقِ احسن نبھانے یا نمٹانے کے بجائے محض ٹالتے رہتے ہیں۔ یہ ٹال مٹول کیوں ہے؟ اِس کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ لوگ اپنے حصے کی ذمہ داری سے بچنا چاہتے ہیں۔ اِس کا ایک اچھا اور آسان طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی معاملے کو اُس کی تہہ میں اُتر کر سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی جائے۔ یہی سبب ہے کہ لوگ محض جذباتیت کی سطح پر رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے رہتے ہیں۔
زندگی اپنی اصل میں آسان ہے نہ مشکل۔ یہ تو وہی ہوتی ہے جو ہم اِسے بناتے ہیں۔ ہم زندگی بھر آسانیوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ آسانیاں تلاش کرنے کی ذہنیت ہمیں مشکلات کا سامنا کرنے کی ذہنیت کو پروان چڑھانے سے روکتی ہے۔ بیشتر کا معاملہ یہ ہے کہ سطحی نوعیت کی سوچ اور نری جذباتیت کے ساتھ زندہ رہتے ہیں اور کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ اِس سطح سے اوپر بھی زندگی ہے۔ لوگ سوچنے سے کیوں گھبراتے ہیں؟ محض جذبات اور جذباتیت کے دائرے میں گھومتے ہوئے زندگی بسر کرنے کو ترجیح کیوں دی جاتی ہے؟ اِس سے بھی بڑھ کر ایک اہم سوال یہ ہے کہ لوگ آخر کیوں جذبات کو بھی خیرباد کہتے ہوئے محض جذباتیت کی دنیا کے باسی ہوکر رہ جاتے ہیں۔ یہ تمام سوال ہمیں سوچنے کی تحریک دیتے ہیں۔ سوچنا سبھی پر فرض ہے مگر کم لوگ اِس طرف آتے ہیں۔ سبب اس کا یہ ہے کہ سوچنے کی صورت میں بہت کچھ فرض کی سطح پر محسوس ہونے لگتا ہے۔ انسان جب حقیقی سوچ اپناتا ہے تب اُسے اندازہ ہوتا ہے کہ اُس پر کس معاملے میں کتنی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کسی بھی کامیاب انسان کے معاملات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ وہ عام آدمی کی سطح سے بلند صرف اُس وقت ہوسکا جب اُس نے محسوس کرنے کا وصف پروان چڑھایا، کسی بھی معاملے کو اُسی طرح محسوس کرنا شروع کیا جس طرح اُسے محسوس کرنا چاہیے۔ اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ احساس کا معاملہ یکساں نہیں ہوتا۔ یہ تعلیم اور تربیت کے فرق سے مختلف ہوسکتا ہے۔ بہت سے گھرانے خاصی منظم زندگی بسر کرتے ہیں۔ اُن میں تعلیم کا معیار بھی بلند ہوتا ہے اور شعور کی سطح بھی خاصی بلند رہتی ہے۔ ایسے گھرانوں کے لوگ معاملات کو شدت پوری محسوس کرتے ہیں۔ یہ وصف انہیں معاملات کی تفہیم سکھاتا ہے۔ گھرانے کے بزرگ بھی سکھاتے ہیں کہ زندگی کماحقہٗ شدتِ احساس کے ساتھ بسر کی جانی چاہیے۔ عام آدمی موزوں ترین شدتِ احساس کے ساتھ جینے میں دِقت محسوس کرتا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ بہت حد تک اس بات کو سمجھتا ہے کہ کسی بھی معاملے کو پوری طرح سمجھنے اور محسوس کرنے کی صورت میں اچھی خاصی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ لوگ ذمہ داری قبول کرنے سے گھبراتے ہیں۔ شدتِ احساس ہر ایک کے لیے اچھا معاملہ نہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ جو لوگ زندگی کے بارے میں کماحقہٗ غور کرنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں وہ خاصے الجھ جاتے ہیں۔ الجھن اس لیے پیدا ہوتی ہے کہ جب بھی کوئی انسان کسی معاملے کی اصلیت کو شناخت کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تب اُسے ذمہ داری کا احساس بھی ستاتا ہے۔ ذمہ داری کے احساس سے بچنے کے لیے لوگ شدتِ احساس سے بھی دامن چھڑاتے پھرتے ہیں۔
کسی سے پوچھئے کہ مطالعہ کیوں نہیں کرتے، اہلِ علم کی صحبت اختیار کیوں نہیں کرتے تو جواب آئیں بائیں شائیں ہوتا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ جب انسان مطالعہ کرتا ہے، اہلِ علم سے ملتا ہے اور سوچنے پر مائل ہوتا ہے تب بیشتر معاملات اپنی اصلیت کے ساتھ بے نقاب ہوتے جاتے ہیں۔ اگر معقول انداز سے تربیت نہ کی گئی ہو تو یہ کیفیت بسا اوقات سوہانِ روح ثابت ہوتی ہے۔ اگر گھرانے کا مجموعی مزاج ذمہ داریاں قبول کرنے اور مطلوب کردار ادا کرنے کا ہو تو ٹھیک ورنہ لوگ الجھ جاتے ہیں۔ اِس سے دوسروں کو بہت کچھ ''سیکھنے‘‘ کا موقع ملتا ہے۔ لوگ جب دیکھتے ہیں کہ تعلیم و تربیت کی بنیاد پر معاملات کو ڈھنگ سے سمجھنا ممکن ہوتا ہے تب ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں تو وہ بِدکتے ہیں۔ یہ بدکنا فطری امر ہے کیونکہ انسان اپنے حصے کا کام کرنے سے بھاگتا ہی ہے۔ اِس طرف بہت مشکل سے آیا جاتا ہے۔ یہ تو ایک زمانے کی تعلیم و تربیت اور برسوں کی ریاضت کا معاملہ ہوتا ہے۔ بہت کچھ سمجھنا، سمجھانا ہوتا ہے۔ عمومی سطح پر لوگ اپنے حصے کی ذمہ داریوں سے کتراتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں خرابیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں مگر لوگوں کو اِس کی بھی کچھ خاص پروا نہیں ہوتی۔ بہت بعد کا نقصان اُن کی سمجھ میں نہیں آتا، بس فوری فائدے پر نظر رہتی ہے۔ جینے کا حق ادا کرنا ہے تو پوری یا کماحقہٗ شدتِ احساس کے ساتھ زندہ رہیے۔ شعوری سطح پر جو کچھ آپ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اُس سے دامن چھڑاکر آپ معیاری زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ جینے کا اصل مزا اُسی وقت ہے جب انسان اپنی ذمہ داریوں کو محسوس ہی نہ کرے، اُن سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کوشاں بھی ہو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved