چند روز پہلے کی بات ہے کہ میں نے دو چھوٹی چھوٹی خبریں دیکھ کر‘آنے والے دنوں کے بارے میں کچھ اندازے لگائے اور ایک مختصر سا تجزیہ لکھا۔ پہلے وہ ملاحظہ فرما ئیں۔ ’’بڑی بڑی سرخیوں اور چنگھاڑتی خبروں کے درمیان دوچھوٹی سی خبریں عام قارئین کی توجہ حاصل نہیں کر سکی ہوں گی لیکن میرے نزدیک یہ دونوں بہت بڑی خبریں ہیںجو حالات میں کسی کلیدی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ خبریں یہ ہیں کہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جوادظریف نے ایک بیان میں کہا ہے ان کا ملک کبھی یہودیوں کے خلاف نہیں تھا۔ہم صہیونیوں کے خلاف ہیں جو کہ ایک معمولی اقلیت ہے۔ہم نازیوں کی طرف سے یہودیوں کے قتل عام (ہولو کاسٹ) کی بھی مذمت کرتے ہیں اور فلسطینیوں کی ہلاکتوں اور ان پر صہیونیوں کے حملوں کی بھی مذمت کرتے ہیں۔دوسری خبر یہ ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ نے یہودیوں کے نئے سال کے موقع پر انہیں مبارک باد کا پیغام بھیجتے ہوئے لکھا ’’ہیپی روش ہاشانا‘‘ (Happy Rosh Hashana)۔ ایران اور اسرائیل کے تعلقات کی تاریخ دیکھی جائے تو انقلاب کے بعد سرکاری طور پر اس طرح کی پیغام رسانی پہلی مرتبہ ہو رہی ہے۔ایران اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا۔سرکاری طور پر دونوں ملکوں کے درمیان کھلے رابطوں کی بھی روایت نہیں ہے۔البتہ ایران عراق جنگ کے د وران‘ ایران نے تیسرے فریق کے ذریعے اسرائیلی اسلحہ ضرور خریدا تھا لیکن اس دوران با ضابطہ پیغام رسانی نہیں ہوئی تھی۔ دنیا میں جہاں بھی طویل اور شدید کشیدگی کی آہنی دیواروں کے اندر سے رابطوں کی لہریں گزاری جاتی ہیں‘ تو وہ کچھ اسی قسم کی ہوتی ہیں۔ویت نام کی جنگ کے دوران ہوچی منہہ اور امریکی صدر کے گمنام نمائندوں کے درمیان پیرس کے کافی ہائوسز میں رابطے ہوئے تھے‘ یہی آگے چل کر باضابطہ غیر رسمی مذاکرات کی بنیاد بنے۔ چین اور امریکہ کے درمیان جب شدید کشیدگی اور محاذ آرائی چل رہی تھی تو اس و قت وہ بھی ایک دوسرے کے سامنے خنجر بدست کھڑے تھے ‘ان دو حریفوں کی ٹیموں کے مابین پنگ پونگ کے میچ کرائے گئے‘ یہ بھی درحقیقت دو جانے پہچانے دشمنوں کے درمیان رابطے کا پہلا اشارہ تھا۔ان دنوں پاکستان اور بھارت کے درمیان جبکہ لائن آف کنٹرول پر مسلسل فائرنگ ہو رہی ہے اور بھارتی پارلیمنٹ اور میڈیا میں پاکستان کے خلاف اشتعال انگیزیاں کی جا رہی ہیں ۔پاکستان اور بھارت کے دو سابق سفارت کار شہریا ر خان اور مسٹر لامبھا‘ غیر سرکاری بات چیت میں مصروف ہیں۔ایران کی طرف سے یہودیوں کیلئے یہ اشارے انتہائی معنی خیز ہیں ۔خصوصاً ایسے وقت میں جبکہ امریکہ کی طرف سے شام پر فضائی حملوں کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ یہ خبریں سورج کی انتہائی مہین کرنوں کی طرح ہیں‘ جو طلوع صبح کے وقت دکھائی بھی نہیں دیتیں‘ صرف ان کی ہلکی سفیدی کا غبار نظر آتا ہے مگر اسی کے پیچھے سورج ہوتا ہے۔امید کرنا چاہیے کہ یہ اشارے آگے چل کر اچھی خبروں کے راستے ہموار کریں گے۔‘‘ صاف ظاہر تھا کہ ایرانی وزیرخارجہ کی طرف سے یہودیوں کو جو پیغام دیا گیا‘ یہ بہت بڑی تبدیلی کی نشاندہی کر رہا تھا۔ ایران کی طرف سے یہ پیغام اس لئے اہمیت کا حامل تھا کہ اسرائیل کے ساتھ اس کی کشیدگی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ مجھے یاد نہیں کہ ایران کی انقلابی حکومت نے یہودیوں اور صہیونیوں کے درمیان کبھی فرق روا رکھا تھا۔ لیکن ایرانی وزیرخارجہ نے یہودیوں کے نئے سال کے موقع پر اچانک جو پیغام بھیجا‘ اس میں صہیونیوں اور یہودیوں کی تقسیم کا بطور خاص اعتراف کیا گیا۔ صہیونی ان انتہاپسند یہودیوں کو کہتے ہیں‘ جو فلسطین کو اپنی ملکیت قرار دے کر ‘ وہاں کسی دوسری قوم کو اپنے برابر کا شہری تسلیم نہیں کرتے۔ فلسطین کی ساری جنگ صہیونیوں نے ہی شروع کی تھی اور ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فلسطین میں اسرائیل قائم کرنے کی سازش بھی اسی گروہ نے کی تھی۔ جبکہ عام یہودی ‘ ان کے ساتھی نہیں تھے۔ ایران نے تمام یہودیوں کے خلاف محاذ آرائی کر کے بنیادی غلطی کی تھی۔ خود یہودیوں کے اندر بھی صہیونیوں کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں اور تمام یہودی ‘ ان کے انتہاپسندانہ نظریات کو قبول نہیں کرتے۔ یورپ اور امریکہ میں رہنے والے یہودی بھی صہیونیوں کی انتہاپسندی اور فلسطینیوں کے ساتھ ان کے غیرانسانی سلوک کو ناپسند کرتے ہیں۔ امریکہ میں تو ایک اور طرح کی انتہاپسندی پائی جاتی ہے۔ عوام کی اکثریت ہم جیسے لوگوں کی طرح صہیونیوں اور عام یہودیوں میں فرق روا نہیں رکھتی۔ جس کی وجہ سے روزمرہ کی زندگی میں یہودیوں کونفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایران کی انقلابی حکومت ہماری طرح ہر یہودی کو صہیونی تصور کرتے ہوئے‘ اس سے نفرت کرتی ہے۔ اس طرح کا نسلی تعصب ہمارے لئے جائز نہیں۔ کیونکہ ہمارے نبی پاک ﷺ نے مدینہ میں جو اسلامی حکومت قائم کی تھی‘ اس میں یہودیوں کے لئے بھی بطور شہری وہی حقوق رکھے گئے تھے‘ جو مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو حاصل تھے۔ رواداری کا یہ عالم تھا کہ ایک بار خود رسول پاکﷺ نے یہودیوں کو اجازت دی تھی کہ وہ مسجد نبویؐ میں اپنی عبادت کر لیں۔ فلاحی ریاست جو مراعات اپنے شہریوں کو دیا کرتی‘ وہی یہودیوں کو بھی حاصل تھے۔ ہم انہیں اہل کتاب سمجھتے ہیں اور ہمارا دین ہمیں کسی دوسرے مذہب سے نفرت کا سبق نہیں سکھاتا۔ ایران کی انقلابی حکومت نے‘ یہودیوں کے بارے میں جو پالیسی اختیار کی تھی‘ وہ غیرمنطقی اور انتہاپسندانہ تھی۔ جب اچانک ایران کے وزیرخارجہ کی طرف سے یہودیوں کے لئے نئے سال کا پیغام بھیجا گیا‘ تو اس کی سنگل کالمی خبر پڑھ کے میں نے امکانات کے اندر جھانک کر دیکھ لیا کہ آنے والے دنوں میں کیا امکانات ظاہر ہونے والے ہیں؟ اسی طرح ایران کے ایٹمی پروگرام کے متعلق نئے صدر کے دفتر سے ایک اشارہ باہر آیا‘ جس میں ایران کے ایٹمی پروگرام کے موضوع پر بات چیت کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔اس میں نئی بات یہ تھی کہ اشارہ نومنتخب صدر کی طرف سے آیا تھا۔ ماضی میں کسی ایرانی صدر نے ایٹمی پروگرام کے متعلق کسی لچک کا شبہ تک نہیں پیدا ہونے دیاتھا۔ یہاں بھی پس منظر میں کوئی نہ کوئی ’’نیا پن‘‘ کروٹ بدلتا نظر آیا۔ چند ہی روز بعد خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ صدر اوباما اور ایرانی صدر کے مابین رابطے شروع ہو گئے ہیں۔ اگلے ہی دن خبر آ گئی کہ صدر اوباما نے ‘ نومنتخب ایرانی صدر کو ایک انتہائی اہم خط ارسال کیا ہے۔ اب حقیقت کھل کر سامنے آنا شروع ہو چکی ہے۔ پہلے خبریں آئیں کہ صدر حسن روحانی سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لئے جب امریکہ جائیں گے‘ تو صدر اوباما سے ملاقات بھی کریں گے۔ ان خبروں کی تردید یوں آئی کہ اس دورے میں صدر روحانی ‘ وہائٹ ہائوس نہیں جائیں گے۔اس سے یہ تو ظاہر ہو گیا کہ دونوں صدور میں باضابطہ سرکاری ملاقات نہیں ہو گی لیکن اقوام متحدہ کی راہداریوں یا ہوٹل کے کسی گوشے میں دونوں کا آمنا سامنا ہو سکتا ہے۔ ابتدائی رابطے اسی طرح ہوا کرتے ہیں۔ میرے نزدیک امریکی پالیسی میں تبدیلی کی دو وجوہ ہیں۔ اول یہ کہ صدر حسن روحانی اقتدار میں آنے سے پہلے بھی ‘ دنیا سے کٹ کر رہنے کی پالیسی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ نئی حکومت آنے کے بعد یقینی طور پر کچھ خفیہ اشاروں کا تبادلہ ہوا ہو گا۔ جس کی روشنی میں صدر اوباما نے خط لکھنے میں پہل کی۔ ورنہ کسی درپردہ اشارے کے بغیر صدر امریکہ کسی ایسے سربراہ مملکت کو خط نہیں لکھ سکتے تھے‘ جس کے ساتھ برسوں سے ایسے تعلقات چلے آ رہے ہوں جنہیں شدید دشمنی پر مبنی کہا جا سکتا ہے۔ دوسری وجہ شام کے حالات ہیں۔ امریکہ ‘ شام پر حملہ آور ہو یا مذاکراتی حل نکالے‘ دونوں صورتوں میں وہ ایران کے منفی کردار سے بچنا چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہو گی کہ شام میں جو بھی صورتحال بنے‘ ایران اس میں منفی کردار ادا کرنے سے گریز کرے۔ شرق اوسط کے حالات میں اس وقت ابال کی سی کیفیت ہے۔ ہر طرح کے مواقع کی مچھلیاں‘ ہر طرف تیرتی پھر رہی ہیں۔ کس کے ہاتھ میں ‘کیسی مچھلی آتی ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔اگلے چند روز میں ایک نئے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved