حالات بدل جائیں‘موسم خراب ہو تو لوگ ادھر اُدھر اڑان کرلیتے ہیں‘ یہ کوئی نئی بات نہیں‘ ایسا عمل ہم نے کئی بار دیکھا ہے۔پی ٹی آئی کے حالات بدل چکے ہیں اور جیسا ہم دیکھ رہے ہیں اُس کے خلاف ایک پورا کریک ڈاؤن زور وشور سے جاری ہے۔منجھے ہوئے سیاسی کردار بہت کچھ جھیل لیتے ہیں لیکن کئی فصلی بٹیرے کچھ زیادہ برداشت نہیں کرسکتے۔ابھی تک تو ایسے ہی لوگ ہیں جو پی ٹی آئی کو چھوڑ کے جا رہے ہیں۔
ان پہلوانوں کو دیکھئے تو سہی۔ عامرکیانی مجھے ہمیشہ ہی عجیب قسم کا شخص لگتا تھااور ایک عدد بار جو بنی گالہ جانے کا اتفاق ہواتو میں نے سوچا کہ اس شخص میں کیا خوبی ہے کہ عمران خان نے اسے اپنے قریب لگایا ہوا ہے۔خیر یہ تو عمران خان کی چوائس تھی اوراس پر کیا کہا جاسکتا ہے۔بطورِوزیرِصحت عامرکیانی پر مال بنانے کے بہت الزامات بھی لگے لیکن میرے پاس کوئی ڈائریکٹ پروف نہیں ہے لہٰذا اس موضوع پر زیادہ بات کرنا مناسب نہ ہوگا۔اسدعمر بھی مجھے عجیب لگتے تھے۔ یہ صاحب پی ٹی آئی کے دانشور تھے اورانہیں بہت بڑامعاشی ایکسپرٹ سمجھا جاتا تھا۔وزیرخزانہ بنے تو کافی دیر تک یہ فیصلہ نہ کرپائے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہئے یا نہیں۔روپے کی قدر جو کم ہونا شروع ہوئی انہی کے دورِ دانشوری میں ہوئی۔عمران خان نے اسے بڑا مقام دیا اور اپنے قریب رکھا لیکن بُرے دن آئے تو تھوڑا پریشر بھی برداشت نہ کرسکا۔البتہ سب نے دیکھا ہوگا کہ اپنی الوداعی پریس کانفرنس میں دانشوری کے پھول بکھیرنے سے باز نہ آیا۔
فواد چودھری کا مجھے پتہ تھا کہ یہ چلا جائے گا اوراس خیال کا اظہار میں نے چند دوستوں سے بھی کیا۔یہ جہلم کے ہیں ہم چکوال سے‘ ایک زمانے میں ایک ہی ضلع ہوا کرتا تھا اور ہمارے والد صاحب اور چودھری الطاف حسین کے قریبی تعلقات تھے۔ایک وقت تھا کہ فواد چودھری پرویز مشرف کا دم بھرتے تھے‘ ق لیگ میں گئے‘غالباًپیپلز پارٹی میں بھی وقت گزارا اور پھر پی ٹی آئی میں ایسے آئے کہ عمران خان کے بہت ہی قریب ہو گئے۔اندازہ لگائیے کہ پنجاب کا چیف منسٹر بننے کے خواب بھی دیکھا کرتے تھے۔چودھری پرویزالٰہی صحیح کہتے ہیں کہ فواد چودھری جیسے لوگ ہی تھے جنہوں نے عمران خان کے کان بھربھر کے پنجاب اسمبلی تحلیل کروائی۔تھوڑا سا پریشر پڑا تو سہہ نہ سکے۔جن کا ذکر یہاں ہو رہا ہے سیاسی وزن ان کا کرا لیں‘ ہرایک کا چھٹانک سے زیادہ نہیں بنتا۔
دوسری طرف یاسمین راشدہیں‘ وہ بھی جیل میں ہیں لیکن تاحال ڈٹی ہوئی ہیں۔ اس ایک خاتون کا مقابلہ کرلیں ان سارے اڑان بھرنے والوں سے‘ اس کا مقام کہیں زیادہ بنتا ہے۔عمرسرفراز چیمہ کو بھی دیکھ لیں‘ چارروز کی گورنری کی تو دبنگ انداز سے‘ ہتھکڑیاں لگیں عدالت میں پیشی ہوئی تو سوال پوچھنے پر ڈٹ کر کہا کہ پی ٹی آئی کا نظریاتی ورکر ہوں اور ہمیشہ رہوں گا۔اور تو اور چودھری پرویز الٰہی کو دیکھ لیں‘ وہ اور اُن کے بیٹے مونس الٰہی دونوں کے پاؤں نہیں ڈگمگائے‘ حالانکہ چودھری پرویز الٰہی کے بارے میں کیا کیا باتیں ہم جیسے کرتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کے آدمی ہیں‘ مصلحت پسند ہیں وغیرہ وغیرہ۔ آگے جو بھی ہو اپنی عزت تو اُنہوں نے بچالی ہے۔چودھری وجاہت حسین اس خاندان کے ڈانگ مار سمجھے جاتے تھے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بُرا وقت آیا تو ساری ڈانگ ماری بھول گئے۔
شیریں مزاری کے بارے میں مجھے ضرور افسوس ہوا۔ بڑبولی وہ تھی اور امریکہ سے کم کبھی بات نہیں کرتی تھی۔خان نے اُسے بہت مقام دیا اور یہ بھی پی ٹی آئی کی صفوں میں ایک hawk کے طور پر سمجھی جاتی تھی‘ یعنی بات کرنی یا تجویز دینی تو انتہا کی دینی۔ وقتِ امتحان آیا تو پاس نہ ہوسکیں۔ایک خاصی لمبی فہرست ہے اُن لوگوں کی جنہوں نے پی ٹی آئی سے اڑان بھری ہے لیکن نام ایسے ہیں کہ کسی گنتی میں نہیں آتے۔شاید ہمارے دوست سِرل اَلمیڈا نے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ بھائی لوگ تو پی ٹی آئی پر احسان کررہے ہیں کہ اُس میں سے سارا کچرا نکال رہے ہیں۔ ذاتی طور پر میں بہت ہی خوش ہوں کہ اسدعمراورعامرکیانی سے پی ٹی آئی کی جان چھوٹ گئی۔فواد اور شیریں ذاتی دوست ہیں اس لئے ان کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال نہیں کرسکتا۔ہاں‘ بھولنے لگا تھا شاہ محمود قریشی کو بھی دیکھئے‘ وہ بھی ڈٹا ہوا ہے اور اُس نے کوئی کمزوری نہیں دکھائی۔
خان نے البتہ اپنی پارٹی کو بے جا امتحان میں ڈالا ہے۔یہاں تک نوبت آنی نہیں چاہئے تھی۔ قومی اسمبلی میں اس کے ممبروں کی ایک اچھی خاصی تعداد تھی۔پنجاب کی حکومت‘ خیبرپختونخوا کی حکومت‘ پی ٹی آئی کا جھنڈا آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھی لہرا رہا ہو‘ انسان کو اور کیا چاہئے۔ تھوڑا انتظار کرتا‘ صبر سے کام لیتا اور قومی اسمبلی میں جانے کی کچھ عادت بناتا۔یہ گھر بیٹھنا اور تقریریں کرتے رہنا اور اور ٹویٹ پہ ٹویٹ دیتے رہنا یہ پریکٹس پی ٹی آئی کو لے بیٹھی۔ جلسوں کی حد تک تو ٹھیک تھا کہ عوام موبلائز ہوئے اور عوام کی ایک بہت بڑی تعدادخان کے ساتھ کھڑی ہوگئی لیکن پچھلے سال مئی میں اسلام آباد پر چڑھائی کی کوشش ایک احمقانہ عمل تھا۔اور بھی بہت سی باتیں ہیں جن کا ذکر اس وقت مناسب نہیں لگتالیکن افسوس تو ہے کہ ہرچیز کو بیچ شاہراہ پٹخ کر دے مارا۔
اور ذرا دوسری طرف دیکھیں‘ عمران خان کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔گرفتار کرسکتے ہیں لیکن نہیں کررہے‘ عمران خان کو خراب کررہے ہیں۔یہ جو نیب راولپنڈی میں حالیہ پیشی تھی‘ ساڑھے چار گھنٹے پوچھ گچھ ہوتی رہی اور بشریٰ بی بی باہر گاڑی میں بیٹھی رہیں۔ مزید پیشیاں ہوں گی‘ مختلف عدالتوں کا آنا جانا لگا رہے گااور اب کوئی ہجوم یا لشکر ساتھ نہ ہوگا۔اور جو سافٹ ٹارگٹ ہیں اُن کی اُڑان جاری رہے گی۔
چلیں پی ٹی آئی تو گرفت میں آ گئی لیکن اصلی یا نقلی سرکار سے یہ تو پوچھا جاسکتا ہے کہ آگے کی منصوبہ بندی کیا ہے؟اب تو وہ کیا جارہا ہے جو مزاجِ یار میں آرہا ہے لیکن آگے چل کے کیا کرنا ہے؟فصلی بٹیرے تو جا رہے ہیں لیکن کہاں بیٹھیں گے؟ مگر تمام شواہد بتاتے ہیں کہ ووٹر اپنی جگہ پر قائم ہیں۔حضوراس وقت پنجاب میں انتخابات کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے لیکن آگے اکتوبر میں کیا کرنا ہے؟الیکشن کرانے ہیں یا پھر مزاجِ یار والی بات کرنی ہے؟اور اگر نہیں کرانے تو کون سا عذر تلاش کیا جائے گا؟ عدالتی احکامات کی تو میرا خیال ہے زیادہ پروا نہیں ہوگی۔ عدالتی احکامات کا کیا بنا ہے وہ تو ہم دیکھ رہے ہیں اور آئندہ چل کے تو اس محاذ پر بھی زیادہ آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔لیکن حالات کیسے ٹھیک ہوں گے ؟
پی ٹی آئی کو نکیل ڈال لی گئی ہے لیکن معاشی حالات تو وہی ہیں اور قومی کشکول کی بے توقیری بھی جاری ہے۔مہنگائی وہاں پہنچ چکی ہے کہ لوگوں نے اس کا ذکر کرنا چھوڑ دیا ہے۔رونا پیٹنا ایک حد تک ہوتا ہے۔ ان ساری چیزوں کا کیا ہوگا؟ حکومتی کارکردگی کیسے بہتر ہوگی؟جتنے پانی میں موجودہ تیس مار خان ہیں وہ ہم جانتے ہیں‘ ان سے کوئی بہتری کی توقع رکھنا بے وقوفی ہوگی۔لہٰذا کریک ڈاؤن تو مبارک ہو لیکن کچھ آگے کا بھی بتلایا جائے کہ اس بدنصیب ملک کے ساتھ مزید کیا ہونا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved