عمران خان صاحب کی سیاست‘ زمانی عتبار سے چار ادوار میں منقسم ہے۔
یہ ادوار سیاست میں ان کے ارتقا کی نشاندہی کرتے ہیں۔اس داستان میں یہ سبق ہے کہ اقتدار کی سیاست کس طرح حقیقت پسندی کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔خان صاحب نے جس طرح رومان سے حقیقت کی طرف پیش قدمی کی‘ان کے مداح اس کا ادراک نہیں کر سکے۔وہ ابھی تک خان صاحب کے پہلے دور ہی میں پڑاؤ کیے ہوئے ہیں جو رومانوی تھا۔انہیں اندازہ نہ ہو سکا کہ خان صاحب کئی منازل طے کر چکے۔ان کا کمال یہی ہے کہ وہ خود چلتے رہے مگر انہوں نے اپنے چاہنے والوں کو ذہنی طور پرساکن رکھا۔ مناسب تر الفاظ میں وہ خودتو' عمل‘ کی دنیا میں آ نکلے اور اپنے سادہ لوح حواریوں کو' عقیدے‘ ہی پر جامد کر دیا۔
پہلا دور1990ء کی دہائی سے شروع ہوتا اور2010ء میں تمام ہو جاتا ہے۔اس دور پر رومان کا غلبہ ہے۔کچھ خوش گمانوں نے عمران خان صاحب کو سیاست کی طرف متوجہ کیا اور ترغیب دی کہ اپنی مقبولیت کواس کی اصلاح کے لیے استعمال کریں۔خان صاحب نے ابتدا میں سنجیدگی دکھائی اور یہ چاہا کہ بنیادی مسائل پر ان کی فکری تربیت ہو۔ سیاست کیا ہے‘ مذہب کتنا سنجیدہ معاملہ ہے‘پاکستانی سیاست کا اخلاقی بحران کیا ہے؟ان سوالات کے جواب کے لیے وہ مختلف افراد سے ملنے لگے۔اہلِ خیر نے ان کا خیرمقدم کیا۔دل اور گھر کے دروازے وا کیے اور حسبِ توفیق و حسبِ صلاحیت‘ ان کی راہنمائی اور معاونت کی۔میں چند نام لے سکتا ہوں۔جیسے جاوید احمد صاحب غامدی‘ مجیب الرحمن صاحب شامی‘جنرل حمید گل‘ ڈاکٹر محمد فاروق خان شہید۔
چند سال تواسی تربیت میں گزر گئے۔انہیں کوئی قابلِ ذکر سیاسی کامیابی نہ مل سکی۔پھر کچھ دوسرے کرداروں کو بھی ان کی ذات میں موجود سیاسی امکانات (Political Potential) کا اندازہ ہوا۔ان میں کچھ کردارداخلی تھے اور کچھ خارجی۔اب ان کے گردایک نیا حلقہ جمع ہو نے لگا۔یہ وہ لوگ تھے جن کی تمام تردلچسپی اقتدار کی سیاست سے تھی۔ان کی نظر میں خان صاحب کے لیے ایک خاص کردار تھا۔ اس حلقے نے ان کی باگ اپنے ہاتھ میں لے لی۔خان صاحب کو بھی یہ سیاست زیادہ پُرکشش لگی۔اب وہ دانستہ طور پر ان لوگوں سے گریز کرنے لگے جو ان سے نیک تمنائیں وابستہ کیے ہوئے تھے۔وہ نئے حلقے میں آسودگی محسوس کرنے لگے۔یہ رومانوی دور2010ء تک پہنچتے پہنچتے‘ ختم ہو گیا۔ میں اس دور کے بارے میں بعض باتیں بلا واسطہ جانتا ہوں۔
دوسرادور2011ء سے شروع ہوا۔یہ اقتدار کی سیاست کا حقیقت پسندانہ دور ہے۔اب خان صاحب کی سیاست کا واحد مقصد اقتدار تک پہنچنا ہے۔اخلاقی اقدار کا لحاظ اب ان کے پیشِ نظر نہیں تھا۔جب اقتدار کی سیاست ہی مطمحِ نظر ہوتی ہے تو پھر آپ ان اسباب کو جمع کرتے ہیں جو آپ کو اقتدار تک پہنچا سکتے ہیں۔پاکستان کے مقتدر طبقے نے ان کوپوری طرح اپنا لیا جس کے خیال میں روایتی سیاستدان اب اس کے دائرہ ٔاثر سے نکلتے جا رہے ہیں۔اُس وقت پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ میں 'میثاقِ جمہوریت‘ ہو چکا تھا۔ اس طبقے کی سوچ یہ بھی تھی کہ نئی نسل روایتی سیاست سے بے ز ار ہو چکی۔اگر کوئی نیا چہرہ سامنے لایا جا ئے جس کا کوئی سیاسی پس منظر نہ ہو اور وہ کسی وجہ سے عوام میں مقبول بھی ہو تو روایتی سیاستدانوں سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔اس مقصدکے لیے عمران خان سے موزوں تر کون ہو سکتا تھا؟
اس طرح وہ منصوبہ تشکیل پایاجسے 'عمران پراجیکٹ‘ کہا جا تا ہے۔یہ منصوبہ پہلے دورمیں شروع نہیں ہوا۔منصوبہ سازوں کی ان میں دلچسپی بعد میں پیدا ہوئی اور تدریجاًآگے بڑھی۔اس دور میں وہ لوگ خان صاحب سے مایوس ہونے لگے جو اُن سے نیک تمنائیں وابستہ کیے ہوئے تھے۔آہستہ آہستہ یہ خواتین و حضرات ان سے الگ ہو نے لگے۔ 2013ء تک پہنچتے پہنچتے ایک نئی تحریکِ انصاف وجود میں آ چکی تھی۔منصوبہ سازوں نے لوگوں کو اس جماعت کی طرف ہانکنا شروع کیا جو اقتدار کی سیاست کرتے تھے۔ 2013ء تک‘یہ پوری طرح ایک روایتی سیاست جماعت میں ڈھل چکی تھی۔منصوبہ سازوں کا پہلا ارادہ یہی تھا کہ خان صاحب کو2013 ء میں اقتدار دلوایا جائے۔ بعد میں اسے مؤخر کر دیا گیا۔
تیسرادور2014ء سے شروع ہوتا ہے۔اب خان صاحب نے خود کو پوری طرح منصوبہ سازوں کے حوالے کر دیا۔انہوں نے خان صاحب کو ق لیگ اورطاہر القادری صاحب کی حمایت فراہم کر دی۔ایک 'لندن پلان‘ سامنے آیا جس کے شرکا معاہدہ کا اعتراف کر چکے۔2014ء کے دھرنے میں یہ منصوبہ منصہ شہود پر آگیا۔نواز شریف صاحب اس دباؤ کا سامنا کرنے میں کامیاب رہے لیکن 'عمران پراجیکٹ‘ ختم نہیں ہوا۔خان صاحب اس دور میں ہیجانی موڈ میں رہے اور انہوں نے نئی نسل میں بھی ہیجان پیدا کر دیا۔
منصوبہ سازاس کو اپنی کامیابی سمجھتے رہے کہ یہ ہیجان روایتی اہلِ سیاست کاخاتمہ کر دے گا۔وہ یہ ادراک نہیں کر سکے کہ اس ہیجان میں معاشرے اورریاست کے لیے کتنے خطرے چھپے ہوئے ہیں۔انہوں نے نواز شریف صاحب کی نفرت میں‘ خان صاحب کی پشت پر تمام ریاستی اداروں اور میڈیا کو کھڑا کردیا۔اس کے نتیجے میں خان صاحب نے اپنی منزلِ مراد‘اقتدار کو پا لیا۔اس دورِ اقتدار میں ریاست پر یہ کھُلا کہ خان صاحب کی ہیجان پرور طبیعت ریاست کے لیے کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔اب منصوبہ سازوں نے جو خان صاحب کے ساتھ ایک پیج پر تھے‘اپنے قدم کھینچنے شروع کر دیے۔کچھ ایسے بھی اس کھیل کا حصہ تھے جن کی تمام تر توجہ اپنی توسیع پر تھی۔انہیں اب بھی اس نقصان سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی جو ہیجان سے سماج اور ریاست کوپہنچ رہا تھا۔تاہم ادارے نے فی الجملہ جان لیا کہ یہ ہیجان اور ریاست اب ساتھ نہیں چل سکتے۔ اس سے خان صاحب کی سیاست چوتھے دور میں داخل ہو گئی۔
اس دور کا آغازمارچ2022 ء سے ہوا۔ریاست نے خان صاحب کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔انہیں زعم تھا کہ اس دوران میں وہ پورے سماج کو مسحور کر چکے۔اب سیاسی جماعتوں اور ریاست میں یہ سکت باقی نہیں رہ گئی کہ وہ ان کی مزاحمت کر سکیں۔ انہوں نے نئی نسل میں نفرت کی وہ آگ بھر دی ہے کہ وہ سب کچھ خاکستر کرسکتی ہے۔وہ طیب اردوان کی طرز پرریاست کو مسخر کر سکتے ہیں۔اب شواہد سامنے آ چکے کہ انہوں نے اپنی جماعت کو حتمی تصادم کے لیے تیارکر لیاتھا جب عوامی انقلاب کے ذریعے‘ ریاستی نظام کو مجبورکر نا تھا کہ وہ ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دے۔ان کی گرفتاری 'ریڈ لائن‘قرار پائی۔وہ لیکن ریاست کی قوت کا درست اندازہ نہ کر سکے۔
آج ان کی سیاسی قوت بکھر چکی۔اقتدار کی سیاست میں لوگ اس وقت تک ساتھ دیتے ہیں جب تک حصولِ اقتدار کا امکان باقی رہتا ہے۔یہ دور‘ان کی سیاست کا آخری باب ہے جوبہت مختصر رہا۔ انہوں نے نئی نسل میں جو ہیجان پیدا کر دیا ہے‘کیا وہ تادیرباقی رہ سکے گا؟خان صاحب اگر سیاست میں عملی کردار ادا نہ کر سکے‘تو یہ ہیجان کیا رُخ اختیار کرے گا؟ ا ن سوالات کے جواب ابھی باقی ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved