تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     27-05-2023

بلندی سے پستی تک کا سفر

کسی قوم کی زندگی میں کوئی ایک واقعہ اسے سربلند یا سرنگوں کر جاتا ہے۔ 28مئی 1998ء کو جب پاکستان نے بھارت کے پانچ دھماکوں کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کئے تو ساری دنیا دنگ رہ گئی۔
دنیا کی ساتویں اور عالم ِاسلام کی پہلی ایٹمی قوت بن کر وطنِ عزیز دنیا میں سربلند ہو گیا اور پاکستانی ہر جگہ فخر سے سر اٹھا کر چلنے لگے۔ اسلامی دنیا میں تو ایک طرح سے جشن کا سماں تھا۔ ہمارے عرب بھائی تو خوشی سے نہال تھے۔ وہ اپنے ملکوں میں کام کرنے والے پاکستانیوں کو ''مبروک مبروک‘‘ کہتے اور پاکستان کی مزید ترقی و سربلندی کی دعائیں دیتے۔ 28مئی 1998ء کو جمعرات کا دن تھا۔ اگلے روز 29مئی 1998ء کو جمعۃ المبارک کا خطبہ ارشاد کرتے ہوئے اُس وقت کے مسجدِ اقصیٰ کے خطیب کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا۔ انہوں نے نہایت پرجوش انداز میں پاکستان کو ایٹمی دھماکوں پر ہدیۂ تہنیت پیش کیا۔
خطیبِ مسجدِ اقصیٰ نے دھماکوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ھذہ یست قوّۃ الباکستان ولکن ھی قوّۃ الاسلام۔ کہ یہ نہ صرف پاکستان کی قوّت ہے بلکہ عالمِ اسلام کی قوّت ہے۔ اُس وقت بھی فلسطینی اپنے عرب بھائیوں سے اتنے ہی شاکی تھے جتنے آج کل ہیں۔ 2023ء کے رمضان المبارک میں غاصب اسرائیلی فوج نے فلسطینی مسلمانوں کو قبلۂ اوّل میں آرام و سکون سے نمازیں اور تراویح ادا نہیں کرنے دیں۔ تب سے لے کر اب تک اسرائیل ہر دوسرے روز غزہ کے فلسطینیوں پر بمباری کر رہا ہے۔ 22ممالک پر مشتمل عرب لیگ کہ جس کا حال ہی میں سعوی عرب میں اجلاس ہوا‘ مگر وہ اسرائیل کو جارحانہ روش بدلنے کا بھرپور میسج نہ بھیج سکی۔
بات مئی 1998ء کی ہو رہی تھی۔ جیسا کہ میں اوپر بیان کر آیا ہوں اُن دنوں مسلم ممالک میں فخر و انبساط کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔ میں اس زمانے میں طائف میں مقیم تھا اور سعودی وزارت ِتعلیم سے منسلک تھا۔ 28مئی کے آٹھ دس روز بعد پاکستانی اور سعودی دانشوروں نے مل کر جدہ کے سعودی جرمن ہسپتال کے وسیع و عریض ہال میں پاکستان کی ایٹمی کامیابی کے موضوع پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔ مجھے بھی اس سیمینار میں مدعو کیا گیا تھا۔ سیمینار کا اہتمام کرنے والوں میں انجینئر عزیز اور گلاب خان پیش پیش تھے۔ ہر مقرر پاکستان کی ا س عظیم کامیابی پر خوشی سے سرشار تھا۔میری باری آئی تو میں نے پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کی کہانی ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر میاں نواز شریف تک بیان کی۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور اُن کی ٹیم کی تاریخ ساز محنت و کاوش اور جنرل ضیاء الحق کی شبانہ روز مساعی اور جناب غلام اسحق خان کی بھرپور توجہ اور بروقت وسائل کی فراہمی کا بھی تذکرہ کیا۔ تاہم اس موقع پر اصل میلہ تو سعودی ایئر لائنز کے اُس وقت کے قائمقام چیئرمین السیّد عبدالسلام نے لوٹا۔ انہوں نے عربی اور انگریزی کو ملا کر محبت سے لبریز اور ولولہ انگیز خطابت کے زبردست جوہر دکھائے اور ایک سماں باندھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو پہلے ہی اپنے پاکستانی بھائیوں کی سائنسی اور فنی مہارت کے قائل تھے مگر ایٹمی قوّت بن کر پاکستان نے اپنی اس عظمت کو چار چاند لگا دیئے۔ مسٹر عبدالسلام نے کہا کہ اس عظیم موقع پر سعودی ایئر لائنز نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم پاکستانی پائلٹس کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے دس امریکی پائلٹس کی جگہ پاکستانی ہوا بازوں کو بلائیں گے۔ ایک اہم سعودی عہدہ دار کی زبان سے پاکستان کی عظیم پذیرائی سن کر ہال میں موجود ہر شخص نے اپنی سیٹ سے اُٹھ کر تادیر تالیاں بجائیں۔
ایٹمی قوت بننے کی خوشی میں اُن دنوں ملک کے اندر اور ملک سے باہر پا کستانی کوۂ ہمالیہ سر کرنے کیلئے بھی کمربستہ تھے۔ وہ وطن کیلئے کوئی بھی خدمت انجام دینے کو بے تاب تھے۔ یہ وہ لمحہ تھا کہ جب اگر ملکی قیادت سنجیدگی‘ بالغ نظری اور دوراندیشی سے کام لیتی تو ہم ایٹمی قوت کے بعد اقتصادی قوت بھی بن سکتے تھے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اُس وقت ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز‘ پارلیمنٹ‘فوج اورعدلیہ‘ سرجوڑ کر بیٹھتے اور اہلِ علم اور اہلِ فکر و نظر سے رہنمائی حاصل کرتے۔ خاص طور پر طاقتور سٹیک ہولڈر آئندہ کسی قسم کی مہم جوئی سے اجتناب کرنے کی یقین دہانی کراتے اور اگلی تین چار دہائیوں کے اہداف مقرر کئے جاتے۔ ان اہداف میں سب سے اہم ہدف ''خود کفالت‘‘ ہوتا۔
ایک ایٹمی قوت کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کشکولِ گدائی لے کر نگر نگر پھرے۔ مگر یہ نہ تھی ہماری قسمت۔ تقریباً ایک ڈیڑھ برس بعد ہی پرویز مشرف نے 12اکتوبر 1999ء کو میاں نواز شریف کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔مشرف صاحب نے ایک نام نہاد ریفرنڈم کروا کے اپنے راج کو مستحکم کرلیا اور نوبرس تک حکمرانی جاری رکھی۔ ہمارے حکمران سیاسی ہوں یا عسکری انہیں ملک سے زیادہ اپنی حکومت کی بقا کی فکر ہوتی ہے۔ہر حکومت کا بنیادی فرض تو یہ ہوتا کہ وہ اپنے عوام کی زندگی کو پُرسکون اور آرام دہ بنائے‘اشیائے ضرورت کی قیمتوں کو غریب سے غریب آدمی کی پہنچ میں رکھنے کو یقینی بنائے‘ ملک کیلئے ترقی کی نئی راہیں اور شاہراہیں تراشے‘ دنیا کے اقتصادی حالات کو مدّنظر رکھے‘اپنے عوام کیلئے ملک کے اندر اور باہر روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع تلاش کرے‘ مگر جب ہر حکومت کو اپنی بقا کے لالے پڑے ہوں تو وہ بنیادی ترقیاتی فرائض کی طرف توجہ نہیں دے پاتی۔
2008ء میں خدا خدا کر کے جمہوریت کی گاڑی پھر پٹڑی پر چڑھنے میں کامیاب ہو گئی‘ مگر اس کامیابی کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔ جمہوری حکومت کے قائم ہونے کے ساتھ ہی پس پردہ 2011ء میں ایک نیا پراجیکٹ شروع کر لیا گیا۔ جب 2013ء میں میاں نواز شریف کی حکومت قائم ہوئی تو انہیں اپنے 1999ء میں ادھورے چھوڑے ہوئے منصوبوں کی تکمیل کے لئے ''فری ہینڈ‘‘ نہیں مل سکا۔
2013ء میں عمران خان نے برسراقتدار آنے والی حکومت کو دو تین سال بھی آرام سے کام نہ کرنے دیا اور 2014ء میں اس حکومت کے خلاف دھرنے اور مظاہرے شروع کر دیئے گئے۔ یہاں کسی ایک سیاسی پارٹی کی توصیف اور دوسری کی تنقیص مقصود نہیں بلکہ اس حقیقت کو اجاگر کرنا مطلوب ہے کہ ہمارے مجموعی سیاسی رویے ذمہ دارانہ و سمجھدارانہ نہیں۔ دو تین سال شریف حکومت کے خلاف خفیہ و اعلانیہ منصوبہ بندی جاری رہی پھر 2018ء میں عمران خان برسراقتدار آ گئے۔ کیسے برسراقتدار آئے اس کی تفصیلات ان دنوں زبان زدِ خاص و عام ہیں۔پی ٹی آئی کی پونے چار سالہ حکومت کے نتیجے میں سیاست و معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے برسراقتدار آ کر ڈھلوان کے اقتصادی سفر کوتیز تر کر دیا۔ عمران خان کی اپنی کوئی سیاسی تربیت تھی اور نہ ہی انہوں نے اپنے پارٹی کارکنان اور قائدین کی کوئی تربیت کی۔
عمران خان کی حکومت کو جب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے برخاست کر دیا گیا تو انہوں نے باوقار طریقے سے حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرنے کی بجائے احتجاج اور مزاحمت کا طرزِ عمل اختیار کرلیا۔ گزشتہ ایک سال کا منظر نامہ عوام کے سامنے ہے۔ اس منظرنامے میں نومئی کا روزِ سیاہ بھی ہے۔اس روز پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں اور کارکنوں نے فوجی تنصیبات اور شہداء کی یادگاروں اور عسکری دفاتر پر دھاوا بول دیا۔28مئی کے یوم سعید نے پاکستانی قوم کو دنیا میں سر بلند کیا تھا اور نومئی کے یوم سیاہ نے ساری قوم کو سرنگوں کر دیا ہے۔ مختصراً یہ ہے ہمارا بلندی سے پستی تک کا سفر!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved