شہیدانِ ملک و ملت کسی ایک عہد تک محدود نہیں ہوتے بلکہ یہ قوموں کے تاج میں جڑے وہ نگینے ہوتے ہیں جن کے عزم سے ہر دور میں رہنمائی لی جاتی ہے۔ اسی لیے قوم کی بقا اور سالمیت سے ''شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے ‘‘ جیسا جاوداں نعرہ وابستہ کیا جاتا ہے۔ آج بھی جب شہدائے وطن کے گرائے جانے والے مجسموں کی وڈیوز نظروں کے سامنے آتی ہیں تو بے اختیار دل سے ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ ان مجسموں کی طرف بڑھنے والے وہ ہاتھ ٹوٹ کیوں نہ گئے۔ انہی لوگوں کی عظمت و عصمت کی حفاظت کے لیے ان شہدا نے اپنی جسموں کو‘ اپنے جوان ولولوں کو دشمنوں اور دہشت گردوں کے سامنے ایک دیوار بنا لیا تھا۔ یہ شہدا ہی دشمنوں کے ٹینکوں، توپوں، راکٹوں اور گولیوں کے سامنے ڈھال بن کر ہمیں آباد اور خوش و خرم رکھنے کیلئے قربانیاں دے رہے تھے۔ نشانِ حیدر کے حامل ایک عظیم سپوت‘ جس کی بہادری کا دشمن بھی قائل ہے‘ کے مجسمے کی بے حرمتی کرنے والے یقینا کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ یہ سانحہ اپنی جگہ لیکن اس دکھ اور تکلیف کو تقسیم کرتے ہوئے اپنے ووٹ بینک بڑھانے کی چالیں چلتے ہوئے جس طرح اس جانکاہ قومی سانحے کی آڑ میں کچھ سیاست دان اپنی سیاست چمکا رہے ہیں‘ ان کے ڈرامے بھی پوری قوم دیکھ رہی ہے۔
گزشتہ روز سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا یہی کہنا تھا کہ اداروں سے کوئی لڑائی نہیں‘ یہ ملک بھی میرا ہے اور فوج بھی میری ہے مگر محسوس ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کی سیاست کی بقا اسی میں ہے کہ جلتی پر تیل ڈالتے رہیں اور اس آگ پہ ہاتھ سینکتے رہیں۔ مگر یہ شاید بھول رہے ہیں کہ یہ آگ اگر بڑھی تو کسی کا دامن محفوظ نہیں رہے گا۔ اس آگ پر تیل ڈالنے کی نہیں اسے بجھانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پوری پاکستانی دہرے امتحان سے دوچار ہے۔ ایک طرف وہ اپنے دفاعی اداروں کی توہین پر تڑپ رہی ہے اور وہیں دوسری جانب یہ دیکھ کر حیران و پریشان ہے کہ کچھ سیاسی لیڈران اس تکلیف دہ دکھ کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ ان کے دل میں اداروں کے حوالے سے کتنا احترام ہے‘ اس کا اندازہ اسی بات سے ہو جاتا ہے کہ آج بھی عمران خان پر 'نیازی‘ کی پھبتی کسی جا رہی ہے۔ چند وزرا کے وڈیو کلپس تو اس وقت بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ ڈیڑھ‘ دو سال پہلے تک یہ حضرات کیا گل افشانی کیا کرتے تھے‘ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ایک اہم وفاقی وزیر کی قومی اسمبلی کے فلور پر کی گئی وہ تقریر کون بھول سکتا ہے جب انہوں نے اپنی قیادت کو خوش کرنے کیلئے اداروں پر طنز و تنقید کے نشتر چلاتے ہوئے ہر حد عبور کر لی تھی۔ موصوف نے افواج پاکستان کے بجٹ اور فوجیوں کو ملنے والی مراعات ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا۔ حالانکہ میری نظروں میں نومبر 1982ء کا وہ منظر بھی محفوظ ہے جب انہی وزیر صاحب کے والد کو جنرل ضیاء الحق نے پارلیمنٹ (مجلس شوریٰ) کا رکن نامزد کیا تھا تو اسی ایوان میں انہوں نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا ''پاکستان میں فوج کے کردار کا تعین آئین کی نفی نہیں بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ فوج کو جو اختیارات ملے ہوئے ہیں‘ ان میں مزید اضافہ کیا جائے‘‘۔
میرے کالموں کا ریکارڈ گواہ ہے کہ میں نے ہر محاذ پر ریاستی و دفاعی اداروں کا دفاع کیا ہے۔ میں نے اُس وقت بھی لکھا تھا کہ اگر سیاسی قائدین دوسروں پر انگلیاں اٹھانے سے قبل اپنے مالی معاملات کا جائزہ لے لیں اور سیاست میں آنے کے بعد حاصل ہونے والے مفادات اور حکومت میں ہونے کی وجہ سے خود کو اور اپنے خاندان کے افراد کو ملنے والی مراعات کو سامنے رکھ لیں تو ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد انہیں کسی دوسرے سے نظریں ملانا تو بہت دور کی بات‘ نظریں اٹھانے کی بھی ہمت نہ ہو سکے۔ فوج اور حکومت کا رشتہ کیا ہوتا ہے اور فوج کے بارے اسلامی مملکت کے حکمرانوں کے خیالات کیا ہوتے ہیں؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں اسلامی تاریخ پر ایک نظر ڈالنا پڑے گی۔ اس سلسلے میں میں نے پہلے بھی ایک بار حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا مصر کے گورنر مالک اشتر کے نام لکھا گیا خط بطور حوالہ پیش کیا تھا جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ حضرت علیؓ نے گورنر مصر کولکھا تھا: ''اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہماری افواج سلطنت اسلامیہ اور اللہ و رسول کا کلمہ پڑھنے والے مسلمانوں کیلئے ناقابل تسخیر قلعے کا درجہ رکھتی ہیں‘ اس لیے ہماری فوج کو مملکت کیلئے باوقار ہونا چاہیے۔ اسلامی فوج امن کیلئے ایک جیتی جاگتی علامت ہے اور مسلمانوں کو اس کے سائے میں پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے۔ اسلامی فوج کے تمام اخراجات اللہ کے حکم سے حاصل کیے گئے ٹیکسوں کی ان رقوم سے پورے کیے جائیں جن میں خدا نے پہلے سے ہی مسلمانوں کے ان محافظوں کا حصہ مقرر کر دیا ہے۔ ان سپاہیوں کی تمام پیشہ ورانہ ضروریات پوری کرنے اور انہیں ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس کرنے کے اخراجات بھی اسی فنڈ سے پورے کیے جائیں تاکہ وہ اللہ کی راہ میں انصاف کی بالادستی کیلئے اپنا جہاد بخوبی جاری رکھ سکیں‘‘۔
حضرت علیؓ نے مزید لکھا: ''اگر یہ افسران کسی اعزاز کے مستحق ہیں تو ان کو یہ اعزاز دینے میں کسی قسم کی سستی مت کرو اور ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو کبھی رد نہ کرنا‘ ان کی بہادری اور دلیری کی تعریف کرنے میں کبھی بخل سے کام نہ لینا۔ ان کی تعریف و توصیف اور ان کی بہادری کے کارناموں کو بار بار دہرانے سے فوج کے کمزور شعبوں میں خود کو مضبوط اور توصیف کے لائق بنانے کا جذبہ پیدا ہو گا۔ یہ کبھی نہ سوچنا کہ ان کے بڑے بڑے مسائل حل کرنے کے بعد ان کی کسی چھوٹی سی خواہش کو رد کر دیا جائے۔ اسلامی افواج کو دی جانے والی تنخواہیں اور مراعات اس قدر پُرکشش ہونی چاہئیں کہ ان کو اپنے بچوں اور خاندان کے دوسرے افراد کی دیکھ بھال کرنے میں پریشانی نہ ہو۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنا کہ فکر معاش سے آزاد سپاہی ہی اللہ کی راہ میں بھرپور جہاد کرتا ہے اور اس کی یہی یکسوئی اسے انجانی طاقت سے سرفراز کرتی ہے‘‘۔
اب آیئے اس غلط فہمی کا ازالہ بھی کر لیں کہ عسکری افسروں کو کیا مراعات ملتی ہیں۔ فرض کریں کہ فوج اور سول سروس میں دو افراد ایک ساتھ ملازمت اختیار کرتے ہیں۔ فوج میں کمیشن حاصل کرنے والوں میں سے بمشکل بیس فیصد بریگیڈیئر اور محض تین فیصد ہی لیفٹیننٹ جنرل کے رینک تک پہنچ پاتے ہیں، باقی اسّی فیصد چالیس اور پچاس سال کی عمر تک پہنچنے پر ریٹائر کر دیے جاتے یا خود ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں سول سروس میں ریٹائرمنٹ کی عمر ساٹھ سال ہے۔ گریڈ سترہ سے ان کو اپنے اور خاندان کے استعمال کے لیے سرکار کی جانب سے گاڑی مل جاتی ہے جبکہ فوج میں سیکنڈ لیفٹیننٹ سے میجر تک یہ سہولت میسر نہیں ہوتی۔ دوسرا‘ بیشتر فوجی افسران کا کیریئر بیس سے پچیس سال کی سروس پہ محیط ہوتا ہے جبکہ اکثر سول سرونٹس پینتیس سال تک نوکری کرتے رہتے ہیں۔ فوج کے افسران کی غالب اکثریت جب میجر یا کرنل کے رینک پر ریٹائر ہوتی ہے تو اس وقت ان کے بچے بمشکل ہائی سٹینڈرڈ یا کالج کی سطح تک پہنچے ہوتے ہیں۔ اس وقت ان بچوں کے تعلیمی اخراجات ان کی پنشن سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ تعلیمی اخراجات اور ان کی شادیوں کے اخراجات کا بوجھ ان افسران کو میسر مراعات سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ ان افسران کو مختلف سکیموں میں جو پلاٹ ملتے ہیں وہ مفت میں نہیں ملتے بلکہ ان کی تنخواہ میں سے ہر ماہ قسطوں کی صورت میں باقاعدہ کٹوتی کی جاتی ہے۔ اب اگرسول سروس کے افسران کی بات کریں تو یہ تیس سالہ سروس کے بعد اکیس یا بائیس گریڈ میں پہنچ چکے ہوتے ہیں اور پولیس کے تھانیدار سے آئی جی تک‘ اسسٹنٹ کمشنر سے چیف سیکرٹری تک‘ تحصیلدار سے ڈی سی تک‘ ان سب کی مراعات کا تو ذکر ہی کیا۔ باقی‘ اچھے اور برے لوگ کہاں نہیں ہوتے۔
لہٰذا ضروری ہے کہ ریاستی اداروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے محتاط رہا جائے۔ جو لوگ بھی ریاست اور عوام یا مخالف سیاسی قیادت کو اداروں کے سامنے لا کر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ وہ کبھی بھی ملک و قوم کے خیرخواہ نہیں ہو سکتے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved