آپ نے کسی کو مکمل ٹھہراؤ کی حالت میں دیکھا ہے؟ آپ کہیں گے ایسے تو بہت سے لوگ ہمیں دکھائی دیتے ہیں جو مکمل طور پر ٹھہرے ہوئے ہیں یعنی اُن کی زندگی میں کسی بھی اعتبار سے کوئی ہلچل واقع نہیں ہورہی ہوتی۔ کوئی کتنا ہی ٹھہرا ہوا لگتا ہو‘ حقیقت یہ ہے کہ یہ زمین محوِ سفر ہے۔ ہم ایک جگہ بیٹھے رہیں تب بھی زمین کے متحرک رہنے کے باعث ٹھہرے ہوئے نہیں ہوتے!
ٹھہراؤ کیا ہے؟ بہت سے لوگ زندگی کی کشاکش سے جلد یا زیادہ تھک جاتے ہیں‘ ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ ہر انسان کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ کسی میں حالات سے لڑنے کا حوصلہ زیادہ ہوتا ہے اور سکت بھی۔ اکثریت کا یہ حال ہے کہ کسی بڑی مشکل کو جھیلنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتے۔ اِس کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کسی کو حالات کا سامنا کرنے کی خاطر خواہ تربیت نہ دی گئی ہو۔ گھر اور خاندان کا ماحول اس معاملے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ والدین بچوں میں بہت سی خوبیوں کے بیج بو سکتے ہیں۔ وہ اُنہیں حالات کا سامنا پامردی سے کرنا سکھاسکتے ہیں۔ بچہ خود بھی بہت کچھ سیکھتا ہے مگر یہ طریق زیادہ کارگر نہیں۔ والدین کی شعوری کوشش سے بچے بہت کچھ سیکھتے ہیں اور اُن میں حالات کا ڈٹ کر سامنا کرنے کی صلاحیت و سکت زیادہ اٹھان کے ساتھ ابھرتی ہے۔ جب ہم ہمت ہار بیٹھتے ہیں تب زندگی ختم تو نہیں ہو جاتی مگر اُس میں زیادہ دم بھی باقی نہیں رہتا، دل کشی جاتی رہتی ہے اور جو کچھ بھی ہم کرسکتے ہیں وہ نہیں کر پاتے۔ جب کوئی معاملہ دل کشی سے محروم ہوجائے تو عمل پسندی کی ذہنیت متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔
کسی بھی معاشرے میں اکثریت اس رائے کی حامل ہوتی ہے کہ زندگی کا سفر جاری رہے گا۔ کچھ کیجیے یا نہ کیجیے‘ جو ہونا ہے وہ ہوتا رہے گا۔ ذہنوں میں راسخ ہو جانے والا ایک نمایاں تصور یہ ہے کہ اپنے طور پر کچھ زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ جو ہونا ہے وہ ہوکر رہے گا۔ اِس میں تو کوئی شک نہیں کہ جو ہونا ہے وہ ہوکر رہے گا۔ کسی کو باعمل رہنا پسند ہو یا نہ ہو‘ زندگی کا سفر تو جاری رہے گا۔ اِس سے کیا ہوگا؟ ظاہر ہے جو کچھ بھی ہمیں درکار ہے وہ نہ مل سکے گا کیونکہ ہم نے شعوری کوشش ہی نہیں کی ہوگی۔ زندگی بسر کرنے کے دو نمایاں طریقے ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ جو کچھ ہوتا رہے اُسے قبول کرتے رہیے اور جیسے تیسے زندگی بسر کرتے رہیے۔ جو ملنا ہے وہ مل جائے گا اور جو کچھ نہیں ملنا وہ کسی حال میں نہیں ملے گا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو تبدیلی کے لیے تیار رکھیے۔ پورے شعور کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی صورت فیصلے بھی خود کرنا ہوتے ہیں اور اُنہیں عملی جامہ بھی خود ہی پہنانا ہوتا ہے۔ یہ طریق بہت مشکل مگر انتہائی معیاری ہے کیونکہ جب انسان اپنے لیے فیصلے خود کرتا ہے تبھی ڈھنگ سے جینے کی راہ ہموارہوتی ہے۔
دانش کہتی ہے کہ زندگی جیسی نعمت کو حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ جو کچھ ہو رہا ہے اُس اکتفا کرتے ہوئے زندگی بسر کرنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں ایسا بہت کچھ برداشت کرنا ہوتا ہے جو ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتا۔ جب معاملات حالات کے ہاتھ میں دے دیے جائیں تو پھر جو کچھ بھی حالات کی مہربانی سے عطا ہوجائے‘ وہی قبول کرنا پڑتا ہے۔ حالات ہر انسان کو اُس کی مرضی کے مطابق نہیں نوازتے۔ یہ پورا کا پورا معاملہ random ہوتا ہے یعنی کسی کو کچھ بھی مل سکتا ہے۔ حالات کے رحم و کرم پر جینا لاٹری جیسا معاملہ ہوتا ہے یعنی کسی کو کچھ مل بھی سکتا ہے مگر بیشتر کو محض گزارے کی سطح پر جینا ہوتا ہے۔ لاٹری میں جس کا بڑا انعام نکل آتا ہے وہ تو نہال ہو جاتا ہے اور دنیا کو بتاتا پھرتا ہے کہ لاٹری بُری چیز نہیں۔ وہ ایسی بات کرنے میں حق بجانب ہے کیونکہ اُس کا تو بھلا ہوگیا۔ سوال یہ ہے کہ لاٹری کا ٹکٹ خریدنے والے اُن ہزاروں‘ لاکھوں افراد کا کیا جنہیں کچھ بھی نہیں ملا۔
ہم مکمل بے شعوری کی حالت میں بھی جی سکتے ہیں یعنی شعوری سطح پر کوشش کے بغیر بھی زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔ بیشتر کا یہی معاملہ ہے۔ وہ مطلوب معیار و سطح کی منصوبہ سازی کے بغیر زندگی بسر کرتے ہیں اور جو کچھ بھی مل جائے اُسی پر گزارا کرتے رہتے ہیں۔ یہ ہے فقط گزارے کی سطح۔ کبھی کبھی اتفاق سے کچھ زیادہ بھی مل جاتا ہے۔ اِس کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ کب کسی کو تھوڑا زیادہ ملے گا۔ یہ تو حالات کے الٹ پھیر پر منحصر ہوتا ہے۔ دانش کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے وجود کو حالات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑے۔ جو کچھ حالات کے الٹ پھیر سے مل سکتا ہو اُس پر اکتفا کرنے کے بجائے ہمیں پوری شعوری کوشش کے ساتھ زندگی بسر کرنے پر متوجہ رہنا چاہیے۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر ہوش مندی کا تقاضا کرتی ہے۔ دینی تعلیمات کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ہمیں پوری توجہ کے ساتھ جینا چاہیے اور دین کے احکام کی حکمت پر غور بھی کرتے رہنا چاہیے۔ دینی معاملات پر غور کرنے کی بھی دعوت دی گئی ہے اور تاکید بھی کی گئی ہے۔ یہ تاکید اس لیے ہے کہ غور و فکر کے ذریعے انسان ڈھنگ سے جی سکتا ہے‘ زندگی کا حق ادا کرنے کی پوزیشن میں آسکتا ہے۔ مکمل شعور کے ساتھ جینا ہی در حقیقت جینا ہے۔ جو لوگ حالات کے رحم و کرم پر رہتے ہوئے زندہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اُنہیں خود بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کا فیصلہ کسی بھی اعتبار سے درست نہیں مگر سہل پسندی اُنہیں راہِ راست پر آنے نہیں دیتی۔ اپنے ماحول میں آپ کو ایسے بہت سے لوگ مل جائیں گے جو زندگی سے کسی بھی درجے میں خوش نہیں اور یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جن مشکلات کا سامنا اُنہیں کرنا پڑ رہا ہے اُن میں سے بیشتر اُن کی اپنی پیدا کردہ ہیں مگر پھر بھی وہ اصلاحِ احوال کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہوتے۔ اس معاملے میں محض سنجیدہ ہونے سے بھی کام نہیں چلتا۔ عمل نواز ذہنیت اپنانا پڑتی ہے، عمل کے اکھاڑے میں اترنا پڑتا ہے۔
شعور کے ساتھ جینے میں بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان کسی بھی بات پر پچھتاتا نہیں۔ یہ دکھ کبھی نہیں گھیرتا کہ فلاں معاملے میں ذہن دوڑا لیتے تو اچھا تھا یا فلاں معاملے میں کچھ زیادہ اور مربوط کوشش کرلیتے تو بہتر تھا۔ ہم زندگی بھر پچھتاووں سے بھی نپٹتے رہتے ہیں اور تاسّف کا بھی سامنا کرتے رہتے ہیں۔ جینے کا اصل مزہ صرف اُس وقت ہے جب ہم دنیا کو سمجھ بھی رہے ہوں۔ جو لوگ شعور کو بروئے کار لاتے ہیں وہ دنیا کا بھرپور لطف لیتے ہیں۔ یہ دنیا اپنی تمام رنگینیوں، روشنیوں اور تاریکیوں کے ساتھ ہمارے سامنے جلوہ گر ہے۔ زندگی قدم قدم پر شعور اور عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ تقاضا نظر انداز بھی کیا جاسکتا ہے مگر پھر اِس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔
کیا ہم نے ایسے لوگ نہیں دیکھے جو شعور کو حرزِ جاں بناکر جیتے ہیں اور اُن کی زندگی ہمیں بہت کچھ بتارہی ہوتی ہے؟ یقینا ہم نے ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہیں۔ کسی بھی شعبے کے کامیاب ترین افراد وہی ہیں جنہوں نے شعور کے ساتھ جینے کا فیصلہ کیا اور اِس فیصلے کو عملی جامہ بھی پہنایا۔ اُن سے پوچھئے کہ اُن کی بھرپور کامیابی میں کلیدی کردار کس چیز نے ادا کیا تو وہ بتائیں گے کہ جب اُنہوں نے تمام معاملات پر اچھی طرح غور کرکے پورے شعور کے ساتھ کچھ کرنے کا فیصلہ کیا‘ تبھی کچھ کرنے کی راہ ہموار ہوسکی۔ اگر وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے اور حالات کی تبدیلی کا انتظار کرتے رہتے تو کچھ بھی نہ کر پاتے۔ گوشہ نشینی اختیار کرکے حالات کے بدلنے کا انتظار کرنے والے بالآخر اچھے دنوں کے منتظر ہی رہ جاتے ہیں۔ ایسی ذہنیت کے ساتھ انسان وہ سب کچھ بھی نہیں کر پاتا جو وہ کر سکتا ہے۔ ٹال مٹول اور تن آسانی کی ذہنیت انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی۔ اور عمل کا کھلاڑی تو بالکل نہیں رہنے دیتی۔ شعور کو حرزِ جاں بنائیے تو زندگی بھی آپ کو پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنائے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved