یومِ تکبیر یقینا پاکستان کے عوام کی عظمت اور افواجِ پاکستان سمیت ملکی سائنس دانوں کی کئی دہائیوں کی شبانہ روز محنت اور قربانیوں کا ثمر ہے۔ ہماری ایٹمی صلاحیت کے سبب اقوام عالم میں سبز ہلالی پرچم ان شاء اللہ تاقیامت لہراتا رہے گا۔ لیکن جوہری صلاحیت کے حصول کو کچھ لوگ اپنا کارنامہ ثابت کرنے کیلئے ہر جھوٹ بولنے اور حقائق پر ہر قسم کی ملمع کاری کرنے کو تیار رہتے ہیں جس سے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی قوت بننا صرف اور صرف انہی کی وجہ سے ممکن ہو سکا اور ان کے علاوہ کسی دوسرے کا اس میں رتی برابر بھی حصہ نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک شخص اپنی ساری عمر کی کمائی سے گھر بنانے کیلئے کسی جگہ پر ایک پلاٹ لے اور پائی پائی کر کے اس پلاٹ پر گھر تعمیر کرے مگر جب وہ گھر میں رہائش اختیار کرنے لگے تو کچھ لوگ آ کر شور مچانا شروع کر دیں کہ یہ گھر تو ان کا ہے اور ان کے پیسوں سے خریدا گیا تھا۔
المیہ یہ ہے کہ کمزور لوگوں کا سچ خزاں کے خشک پتوں جیسا ہوتا ہے جسے طاقتور اپنے پائوں تلے روند کر خاک میں ملا دیتے ہیں لیکن یہ سچ کبھی مرتا نہیں اور خاک میں مل کر بھی یہ کھاد کا کام کرتا اور اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ بالآخر جیت اسی سچ کی ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سانچ کو آنچ نہیں یعنی سچ کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا، اس کو سات پردوں میں بھی چھپایا جائے تو بالآخر یہ ایک دن سامنے آ جاتا ہے۔ لاہور میں یومِ تکبیر کی مناسبت سے لبرٹی کے مقام پر ایک جلسہ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ مگر یوم تکبیر کی سلور جوبلی پر جس طرح ذاتی ملکیت ظاہر کی گئی‘ وہ بہت حیران کن ہے۔ یہ سطور لکھنے تک جلسے کا آغاز نہیں ہوا مگر اس حوالے سے پیش گوئی کرنے کے لیے آپ کو کوئی نجومی یا ستارہ شناس نہیں ہونا پڑتا۔ ضرور اس جلسے میں بھی ساری تان چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیراعظم پر ہی ٹوٹے گی اور یومِ تکبیر کا سارا کریڈٹ اس طرح سمیٹ لیا جائے گا جیسے اس میں کسی اور کا کوئی دخل نہیں۔ تاریخی طور پر یہ بات ثابت شدہ ہے کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ 18 مئی 1974ء کو ہی کر لیا گیا تھا جب بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکا کیا تھا اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز 1976ء میں اس وقت ہوا تھا جب موجودہ سیاستدانوں کی کھیپ میں سے کوئی بھی منظرِ عام پر نہیں آیا تھا۔
یہ قصہ شروع ہوتا ہے 1977ء سے‘ جب کوئٹہ کی پانچویں کور کے بریگیڈیئر محمد سرفراز کو جی ایچ کیو سے پیغام ملتا ہے کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (PAEC) سے سائنسدانوں کی ایک ٹیم بلوچستان کے کچھ علا قوں کے سروے کے لیے آ رہی ہے‘ آپ نے ان کی رہنمائی اور سکیورٹی کی ڈیوٹی کرنی ہے۔ اگلے روز ڈاکٹر اشفاق اور ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی سربراہی میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم کوئٹہ پہنچی جو صبح سے شام تک تربت، آواران، خضدار، اور مشرقی حصے میں خاران کے علا قوں کا زمینی اور فضائی جائزہ لیتے ہوئے ایسا پہاڑی سلسلہ تلاش کرتی رہی جہاں ایٹمی تجربات کیلئے زیرِ زمین سرنگیں کھودی جا سکیں۔ تیسرے روز یہ ٹیم ایک ایسا پہاڑی سلسلہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے جو چاغی ڈویژن کے گرینائٹ پہاڑوں میں 185 میٹر بلندی پر واقع تھا۔ انتہائی احتیاط اور بڑی رازداری سے سائنسدانوں نے ضلع چاغی کے ان پہاڑوں اور ان کے اردگرد کی زمین کی طاقت اور مضبوطی جانچنے کے علاوہ نمی اور پانی کے تناسب کا جائزہ لینے کیلئے بے شمار ٹیسٹ کیے۔ جب یہ مرحلہ مکمل ہو گیا تو اس ٹیم کے سامنے دوسرا اہم ترین کام اس علاقے کا Vertical سروے کرنا تھا جسے مکمل کرنے میں پورا ایک سال لگ گیا۔ اب سائنسدانوں کو یہ فیصلہ کرنا تھاکہ پہاڑوں میں کسی ایسی جگہ پہ سرنگ کھودی جائے جس کے اوپر کم از کم 700 میٹر اونچائی تک پہاڑ ہو تاکہ وہ سرنگ میں ہونے والے ایٹمی مواد کے طاقتور دھماکے کو برداشت کر سکے۔
1979ء میں پاک فوج کے مایہ ناز انجینئرز نے Fish Hook طرز کی 3325 فٹ طویل مطلوبہ سرنگ کھودنے میں کامیابی حاصل کر لی اور خاران میں پاکستانی فوج ''ایل‘‘ شکل میں 300x200 فٹ کی سرنگیں کھودنے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ تمام کام بریگیڈیئر سرفراز کی نگرانی میں جاری تھا‘ جن کی خدمات جنرل ضیاء الحق نے پاکستان اٹامک انر جی کمیشن کے سپرد کرتے ہوئے فوج کی نگرانی میں ''سپیشل ڈویلپمنٹ ورکس‘‘ کا ایک ادارہ قائم کیا تھا جس کا کام ایٹمی دھماکوں کے لیے زیر زمین عمودی اور افقی‘ دونوں قسم کی ٹیسٹ سائٹس تیار کرنا تھا۔ FWO کو بھی اس محکمے سے منسلک کر دیا گیا تھا۔سپیشل ڈویلپمنٹ محکمے کا ٹاسک یہ تھا کہ وہ کسی بھی وقت ایٹمی دھماکے کرنے کے لیے مطلوبہ زیر زمین عمودی اور افقی‘ ہر دو قسم کی ٹیسٹ سائٹس تیار کر کے رکھے گا، ساتھ ہی بریگیڈیئر سرفراز کو جنرل ضیاء الحق نے براہ راست حکم دیتے ہوئے کہا کہ زیر زمین تمام سرنگوں کو اس طرح تیار کیا جائے کہ جب بھی ان کی ضرورت پڑے تو سات دنوں کے نوٹس پر یہ بالکل تیار ہوں۔
جنرل جہانگیر کرامت ماشاء اللہ حیات ہیں، اس حوالے سے ان کے سینے میں بے شمار راز دفن ہیں جنہیں وہ گزشتہ 25 برس سے چھپائے ہوئے ہیں۔ کاش کہ وہ قوم کو بتائیں کہ وہ کون تھا جو ایٹمی دھماکے کرنے سے سخت خوف زدہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف پاکستان کی فوج تھی جو بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کا حتمی فیصلہ کر چکی تھی۔ اس حوالے سے حقائق میرے جیسا کمزو شخص اشاروں میں بتا رہا ہے مگر اُس وقت کے آرمی چیف کو بغیر کسی لگی لپٹے کے قوم کو بتانا چاہئے کہ انہوں نے کس طرح دو ٹوک لفظوں میں امریکہ کو جواب دیا تھا۔ یو مِ تکبیر کے حوالے سے یہ کالم پاک فضائیہ کے لیے بھی ایک خراجِ تحسین ہے۔ پاک فضائیہ کے سرفروش شاہینوں نے اس حوالے سے جو خدمات سرانجام دیں‘ یقینا وہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ سرفروش فضائی مجاہدین نے ہی ایٹمی آلات اور تمام مطلوبہ سامان چاغی تک پہنچانے کے علاوہ کئی دنوں تک مسلسل چاغی اور پاکستان کی فضائوں میں ایک ایک لمحہ نگرانی کا فریضہ سرانجام دیا۔ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہمارے شاہین دشمن کی راہ میں پہلی ناقابلِ تسخیر رکاوٹ بن کر کھڑے تھے۔ یقینا ان کی خدمات میں کسی قسم کا شک نہیں۔ اس حوالے سے بہت سی تفصیلات ان شاء اللہ اگلے کالموں میں بیان ہوں گی۔
19 مئی 1998ء کو پاک فضائیہ کی نگرانی میں اٹامک انرجی کمیشن کے 140 سائنسدان، انجینئرز اور ٹیکنیشنز پر مشتمل دو ٹیموں کو بوئنگ 737 کی دو پروازوں کے ذریعے اسلام آباد سے چاغی پہنچایا گیا۔ ان میں واہ گروپ کا DTD اور Diagnostic Group بھی شامل تھا۔ بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے بعد چاغی میں تمام انجینئرز اور سائنسدانوں کی جان کو شدید خطرات لاحق تھے۔ بھارتی سازشوں کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے 19 مئی کو ایک ابتدائی ٹیم چاغی روانہ کی گئی‘ ان کے ساتھ کچھ اہم لوگ اور بڑے بڑے آلاتLNC کے ٹرالروں کے ذریعے وہاں پہنچائے گئے جن کی نگرانی زمین پر پاک فوج کے کمانڈوز کے پاس اور اوپر پاک فضائیہ کے پاس تھی۔ ہر لمحہ ان کی نگرانی کی جاتی رہی اور بحفاظت یہ سارا سامان چاغی تک پہنچانے کا مشن مکمل کرنے کے علاوہ مطلوبہ نیوکلیئر ڈیوائسز کو پاک فوج کے C130 طیاروں کے ذریعے Completely Knoch Down سب اسیمبل فارم میں چاغی پہنچایا گیا۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved