ہم میں سے کتنے ہیں جو وقت کے بارے میں پوری سنجیدگی سے سوچنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں؟ یقین مانیے ایسے لوگ خال خال ہیں۔ وقت کے بارے میں سنجیدہ ہونا اور سوچنا کہنے کو معمولی سا معاملہ ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ لوگ اِس طرف آنے سے کتراتے ہیں۔ اِس کی بہت سی وجوہ ہوتی ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ متعلقہ تربیت کے فقدان کا ہے۔ اگر کسی کو چھوٹی عمر سے وقت کی قدر و قیمت کے بارے میں کماحقہٗ نہ بتایا گیا ہو تو بڑی عمر میں اُسے اس بات کا قائل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ وقت ہی سب کچھ ہے اور اِسے ضائع کیا تو سمجھ لیجیے زندگی ضائع ہوئی۔ یہ تربیت کیوں نہیں دی جاتی؟ وقت کے بارے میں تمام نکات کھول کر بیان کرنا بزرگوں کا فرض ہے۔ بچوں کو بتایا جانا چاہیے کہ وقت ہی سب کچھ ہے اور یہ کہ اِس کی قدر و قیمت جان لینے کی صورت میں زندگی کامیابی کی راہ پر گامزن رہتی ہے۔
وقت کے بارے میں سنجیدہ ہونا ناگزیر ہے کیونکہ وقت کو سمجھنے کی صورت ہی میں ہم زندگی کو بھی سمجھ پاتے ہیں اور کائنات میں اپنی موجودگی کا جواز بھی سمجھ میں آتا ہے۔ اِس دنیا میں ہمارا قیام عارضی نوعیت کا ہے۔ سب کے حصے میں آنے والے وقت کی ایک خاص حد ہے۔ اِس حد سے آگے موت ہے۔ موت اٹل ہے۔ یہی ہے اِس زندگی کا پورا فسانہ۔ لوگ وقت کے بارے میں سوچتے ہیں نہ مال و زر کے بارے میں۔ مال و زر بھی ہماری زندگی کا ناگزیر حصہ ہیں۔ اِن کے بغیر ہم بے یار و مددگار سے رہ جاتے ہیں۔ تنگ دست اور تہی دست ہونا اپنی زندگی کو برباد ہوتی ہوئی دیکھنے جیسا معاملہ ہے۔ ہم اُس دنیا کا حصہ ہیں جس میں اسباب کی اہمیت ہے۔ اسباب نہ ہوں تو ہم کچھ نہیں کر پاتے۔ دینی تعلیمات مال و اسباب کے پھیر میں پڑنے سے روکتی ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ دین اِس بات کو پسند نہیں کرتا کہ ہم مال و زر اور دیگر مادّی اشیا کے دیوانے ہو رہیں اور اپنے مقصدِ وجود ہی کو بھول جائیں۔ ہمیں مادّی سطح پر بھی بہت کچھ کرنا اور بہت کچھ حاصل کرنا ہے مگر بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ ہمیں ساتھ ہی ساتھ غیر مادّی معاملات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا۔ زندگی کا روحانی پہلو بھی تو ہے اور اگر قدرت سوچنے، سمجھنے کی توفیق دے تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ پہلو زیادہ جاندار ہے کیونکہ اِسی کے دم سے زندگی میں سامانِ بہار ہے۔
اب آئیے اِس سوال کی طرف کہ ہم وقت اور دولت کو خرچ کرچکنے کے بعد دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں یا نہیں۔ وقت ہاتھ سے گیا تو گیا۔ عام تصور یہ ہے کہ وقت دوبارہ ہاتھ نہیں آتا مگر ہاں‘ مال و زر کی واپسی ممکن ہے۔ بے شک وقت ہاتھ سے نکل گیا تو پلٹتا نہیں اور ہم کھینچ کھانچ کر واپس لا بھی نہیں سکتے؛ تاہم مال و زر کی واپسی ممکن دکھائی دیتی ہے۔ جی ہاں‘ ممکن دکھائی دیتی ہے، ہوتی نہیں۔ جس طور وقت کو واپس نہیں لایا جاسکتا بالکل اُسی طور ہاتھ سے نکلے ہوئے مال و زر کی واپسی بھی ممکن نہیں۔ یہ دوسری بات عجیب سی لگتی ہے مگر ہے حقیقت پر مبنی۔ جی ہاں‘ جو بھی مال و زر ہمارے ہاتھ سے نکل جاتا ہے وہ کسی بھی طور واپس نہیں آتا۔ جب ہم کہتے ہیں کہ مال و زر دوبارہ حاصل کیا جاسکتا ہے تو ہم دراصل یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ جو مال و زر ہمارے ہاتھ سے جاچکا ہے اُسے تو واپس نہیں لایا جاسکتا مگر ہاں‘ کوشش اور منصوبہ سازی سے دوبارہ مال و زر ضرور حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جو دولت ہماری زندگی میں نئے سرے سے انٹری دیتی ہے وہ اُس دولت سے کوئی تعلق نہیں رکھتی جو ہم خرچ یا ضائع کرچکے ہوتے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی معاملہ ہے جیسے ہم کوئی چیز خرچ کردیں اور پھر اُس جیسی کوئی اور چیز خرید کر استعمال کریں۔ وہ چیز ہماری زندگی میں دوبارہ تو آ جاتی ہے مگر اُس جیسی پرانی چیز سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ البتہ وقت کے معاملے میں ایسا نہیں ہوتا۔ نیا یعنی مزید وقت خریدنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ جاں گُسل محنت کے بعد ہم مال و اسباب دوبارہ پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مگر وقت کے معاملے میں ہم ایسا کرنے میں ناکام ہی رہتے ہیں۔ اِس ناکامی کے ہم ذمہ دار نہیں کیونکہ قدرت کے نظام میں وقت کی بحالی یا بازیافت لکھی ہی نہیں گئی۔
وقت اور مال و زر دونوں کے فرق اور اہمیت کو سمجھنا ہر انسان کے لیے لازم ہے۔ یہ تفہیم ہر دین یا مذہب سے متعلق فرد کے لیے کام کی ہے اور اگر کوئی اسلامی تعلیمات کی رُو سے معاملات کو سمجھنا چاہے تو سمجھ لیجیے اللہ نے اُسے اپنے مقصدِ وجود کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمادی۔
وقت ہم سے پہلے بھی لامحدود تھا یعنی ہمیشگی تھی اور ہمارے بعد بھی لامحدود رہے گا یعنی ہمیشگی سے متصف رہے گا۔ وقت کے دو نکات کے درمیان ہمارا وجود اِتنے چھوٹے سے وقفے کے لیے ہے کہ ہم اِس دورانیے کی حقیقی پیمائش کر ہی نہیں سکتے۔ اِتنے چھوٹے سے دورانیے کے لیے ملنے والی زندگی کو کس طور بروئے کار لایا جانا چاہیے؟ آپ کہیں گے پوری دیانت، ذہانت اور جاں فشانی سے۔ بالکل درست! دانش کا تقاضا ہے کہ وقت کے لامحدود سمندر میں ملنے والی قطرے جیسی زندگی کو پوری دیانت، ذہانت اور جاں فشانی ہی سے بروئے کار لایا جانا چاہیے مگر کیا ہم ایسا کرتے ہیں؟ بادی النظر میں اِس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ عمومی سطح پر ہم جس انداز سے زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں وہ کسی بھی اعتبار سے معیاری انداز نہیں کہا جاسکتا۔ وقت کے حوالے سے ناقدری عام ہے۔ عمومی سطح پر زندگی بسر کرنے والوں کو آپ ایسی حالت میں پائیں گے کہ وہ وقت کو ضائع بھی کر رہے ہوتے ہیں اور اُنہیں اِس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ یہی تو اصل خسارہ ہے۔ وقت ہاتھ سے گیا تو گیا۔ باقی سب کچھ نئے سرے سے حاصل کیا جاسکتا مگر وقت کے معاملے میں تو طے کردیا گیا ہے کہ اِس کی واپسی کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ تو پھر کیا سبب ہے کہ عمومی سطح پر ہم وقت کے بارے میں سنجیدہ ہونے کی زحمت گوارا نہیں کرتے؟
یہ سب عدمِ تربیت کا نتیجہ ہے۔ جی ہاں‘ تربیت کا فقدان ہی ہمیں کسی بھی معاملے کی حقیقی اہمیت کی تفہیم سے روکتا ہے۔ کسی بھی شعبے کے کامیاب ترین افراد کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت ہم پر واضح ہوتی ہے کہ اُنہوں نے متعلقہ تربیت پائی اور اپنے آپ کو بہتر زندگی کے لیے تیار کیا۔ کوئی بھی شعبہ اُنہی لوگوں کو نوازتا ہے جو محنت کا حق ادا کرتے ہیں۔ کسی کو لاٹری کی صورت میں بھی بہت بڑی رقم مل سکتی ہے مگر لاٹری سب کی تو نہیں نکلتی۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ جن کی لاٹری نکل آتی ہے وہ بھی کامیاب نہیں کہلائے جاسکتے کیونکہ اِس میں اُن کا اپنا کوئی کمال نہیں ہوتا اور پھر یہ بھی ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ جو چیز محنت کے بغیر حاصل ہو وہ تیزی سے ضائع ہو جاتی ہے کیونکہ انسان اُس کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہوتا اور سارا کھیل ''مالِ مفت، دلِ بے رحم‘‘ کے میدان میں کھیلا جارہا ہوتا ہے!
معیاری زندگی یقینی بنانے کے لیے ہر انسان کو بچپن یا لڑکپن سے وقت اور مال و زر کی نوعیت اور تفاعل کے بارے میں بتایا جانا چاہیے۔ زندگی کے لیے ڈھنگ سے تیار کرنے کا یہی معقول ترین طریقہ ہے۔ ہر بچے کو معلوم ہونا چاہیے کہ وقت اور مال و زر سے اُس کا مرتے دم تک کا تعلق ہے۔ ناگزیر ہے کہ دونوں کو کماحقہٗ سمجھا جائے اور متعلقہ تقاضے نبھاتے ہوئے زندگی بسر کی جائے۔
ہر عہد اپنے ساتھ بہت سے چیلنج لاتا ہے۔ وقت کو سمجھنے کا چیلنج ہر دور کے انسان کے حصے میں آیا ہے اور مال و زر کا معاملہ بھی کسی کسی کا نہیں بلکہ سب کا ہے۔ یہ دونوں معاملات ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ اِنہیں الگ کرنے کی کوشش کو سادہ لوحی کا مظاہرہ ہی قرار دیا جائے گا۔ یہ سادہ لوحی کسی کام کی نہیں۔ ہر انسان کو مزاج کی اصل کے اعتبار سے حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ وقت اور مال و زر کی تفہیم کے معاملے میں حقیقت پسندی ہی کارگر ثابت ہوتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved