تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     30-05-2023

پریس کانفرنس لانڈری سروس

اب اس کمبخت دل کا کیا کریں؟ سارے وجود کے ساتھ ادھر بوڈاپسٹ میں موجود ہے مگر اٹکا ہوا اُدھر پاکستان میں ہے۔ دوسری طرف سوچیں ہیں کہ قابو میں نہیں آ رہیں۔ دماغ کا یہ عالم ہے کہ جتنا کسی اور طرف لگانے کی کوشش کرتے ہیں اس کی سوئی وہیں اٹکی رہتی ہے جدھر سے اسے ہٹانے کی کوشش کرتا ہوں۔ ملتان فون کیا تو شاہ جی بتانے لگے کہ فلاں فلاں ایم پی اے نے پی ٹی آئی چھوڑ دی ہے۔ فلاں عنقریب چھوڑ دے گا۔ پھر یکدم سنجیدہ ہو کر کہنے لگے: تم بتاؤ بھلا اس طرح معاملات کبھی دیرپا بنیادوں پر حل ہوتے ہیں؟ تمہارے ایک دوست ایم پی اے سے پریس کانفرنس کروائی گئی ہے کہ اس کا پی ٹی آئی سے اب کوئی تعلق نہیں۔ وہ نو مئی کے واقعات کو ملکی سالمیت کیلئے تباہ کن سمجھتا ہے اور پارٹی کی قیادت کے اس اقدام کے خلاف پی ٹی آئی سے لاتعلقی کا اعلان کرتا ہے۔ میں نے کہا: اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟ میں تو آپ لوگوں کو پہلے ہی کہتا تھا کہ جب بھی تھوڑی مشکل صورتحال پیش آئی میرا یہ دوست پی ٹی آئی چھوڑنے میں لمحہ بھر تؤقف نہیں کرے گا۔ سو اب وہی ہوا ہے جو میرا اندازہ تھا۔
شاہ جی کہنے لگے :تمہارے اس دوست نے پی ٹی آئی کی قیادت سے اصولی اختلاف کرنے سے پہلے نو مئی کو ملتان کینٹ میں ہنگامہ آرائی میں حصہ لیا‘ چیک پوسٹ تباہ کرنے میں پیش پیش رہا۔ اس ساری ہنگامہ آرائی کی وڈیو بن گئی۔ جب خبر ملی کہ اس توڑ پھوڑ پر فوجی عدالت میں کیس چلے گا تو مفرور ہو گیا۔ درجن بھر نوکر پکڑے گئے۔ عزیز و اقارب کے گھر چھاپے پڑے اور جب کوئی راہِ فرار نہ بچی تو بڑے گھر پیش ہو گیا۔ وہاں اسے ایک وڈیو دکھائی گئی جس میں وہ توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ میں مصروف تھے۔ پھر اس سے پوچھا گیا کہ اب کیا خیال ہے؟ جیل جانا ہے یا پریس کانفرنس کرنی ہے؟ تمہارے دوست کو اچانک یاد آیا کہ وہ تو دل کا مریض ہے اور بیمار شمار رہتا ہے۔ سو وہ تمہارے نہایت ہی قریبی دو دوستوں کی معیت میں پریس کلب گیا اور پھر راوی بتاتا ہے کہ سارا معاملہ حل ہو گیا۔ لیکن کیا اس طرح معاملات حل ہو جائیں؟ موجودہ حالات میں تمہارے اس دوست کے حلقۂ انتخاب سے پی ٹی آئی جس کو بھی کھڑا کرے گی وہ جیت جائے گا۔ اس کی پریس کانفرنس سے بہت سے متوقع امیدواروں کے سوکھے دھانوں پر پانی پڑ گیا ہے اور الیکشن کی صورت میں وہ اس خالی ہونے والی نشست پر امیدواروں کی فہرست میں شامل ہیں۔ ان میں سے بعض امیدوار ذاتی حیثیت میں تمہارے دوست سے زیادہ بہتر امیدوار ہیں‘اوپر سے پی ٹی آئی کا ووٹ بینک ہوگا تو بھلا پھر اس پریس کانفرنس کی کیا اوقات رہ جائے گی؟
میں نے کہا: شاہ جی! آپ ماشا اللہ باخبر آدمی ہیں میرے دو سوالات ہیں۔ اگر آپ جواب عطا فرما دیں تو بڑی نوازش ہوگی۔ میں ادھر پردیس میں ہوں‘ نہ اخبار ہے اور نہ آپ جیسے باخبر دوست۔ سوشل میڈیا سے میں کوسوں دور ہوں۔ ایسے میں آپ جیسے دوستوں کا دم غنیمت ہے۔ میرا پہلا سوال یہ ہے کہ جیسے میرا یہ دوست ایم پی اے گھیراؤ جلاؤ اور توڑ پھوڑ کی وڈیو میں سب کچھ کرتے ہوئے ساری ریکارڈنگ کے ثبوتوں کے باوجود صرف ایک پریس کانفرنس کی بنیاد پر صاف شفاف اور نہایا دھویا ہوا بن گیا ہے تو کیا یہی سہولت جیل میں قید دیگر جرائم میں سزا یافتہ یا انڈر ٹرائل ملزمان و مجرمان کو دی جا سکتی ہے؟ کیا دیگر جرائم میں ملوث افراد بھی پریس کانفرنس کر کے اپنے جرائم پر شرمندگی اور آئندہ کیلئے جرائم کی دنیا سے لاتعلقی کا اعلان کر کے اسی سہولت سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں؟ میں نے کسی جرم کو پریس کانفرنس سے دھلتے پہلی بار دیکھا ہے۔
شاہ جی کہنے لگے: تم حسبِ عادت نامعقول اور واہیات سوالات پر اتر آئے ہو۔ تمہارا سارا تھیسس ہی غلط ہے۔ میں نے کہا: اچھا اس تھیسس کو تھوڑا درست کر لیتے ہیں مثلاً کوئی منشیات فروش یہ کہے اس نے یہ جرم پی ٹی آئی کی قیادت کے اکسانے پر کیا تھا تاہم اب وہ اس شرپسند جماعت سے لاتعلقی کا اعلان کرتا ہے اور مستقبل میں اچھے چال چلن کا مظاہرہ کرے گا‘تو کیا اس کا جرم معاف ہو جائے گا؟ جرم تو جرم ہے‘ خواہ کسی قسم کا بھی ہو۔ اگر ایک جرم پریس کانفرنس کی مار ہے تو دوسرا کیوں نہیں؟ شاہ جی کہنے لگے: مناسب ہے کہ تم دوسرا سوال کرو۔ میں نے پوچھا دوسرا سوال یہ ہے کہ ابھی تک شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس کیوں نہیں کی؟ انہوں نے ابھی تک نو مئی کے واقعات کی مذمت بھی نہیں کی اور خیر خیریت سے بھی ہیں۔ وہ تو صدیوں سے مقتدر حلقوں کے درمیان راضی باضی اور ہنسی خوشی رہنے کے عادی ہیں اس بار ابھی تک انقلاب کا جھنڈا کیسے لہرا رہے ہیں اور خان کے ساتھ کیونکر ڈٹے کھڑے ہیں۔ قانون‘ آئین اور ملکی سالمیت پر سودا بازی نہ کرنے کے دعوے دار قریشی صاحب کو اب تک نو مئی کے واقعات پر تھوڑی سی بھی شرمندگی نہیں ہوئی؟ دوستوں کا خیال تھا کہ ڈوبتے جہاز سے چھلانگ لگانے والوں میں ان کا نمبر پہلے دو چار لوگوں میں ہوگا۔ یہ کیا عجب قصہ ہوا کہ وہ صفِ جانثاراں میں بلاخوف و خطر کھڑے ہو گئے۔ ان کا تو خمیر ہی ایسا انقلابی اور باغی نہیں تھا۔ یہ کیا ہوا؟شاہ جی کہنے لگے :میں خوب سمجھتا ہوں کہ تم میرے منہ سے کیا کہلوانا چاہتے ہو۔ تمہارا کیا ہے‘ تم تو ایک ازلی شرپسند ہو اور آدھے سے زیادہ شہر سے تمہاری بول چال بند ہے۔ گنتی کے چند دوستوں کے علاوہ شہر میں تمہارا حلقۂ احباب کیا ہے؟ تمہاری وجہ سے پہلے ہی کئی لوگوں سے میرا تعلق خراب ہو چکا ہے۔ میں اب تمہارے چکر میں نہیں آنے والا۔ میں نے ہنس کر کہا: شاہ جی! آپ بھلے جواب نہ دیں مگر آپ کے اسی جواب میں میرے سوال کا جواب پوشیدہ ہے۔ یعنی آپ وہ سب کچھ منہ سے نہیں کہہ پا رہے جو آپ کے دل میں ہے اور جو دل میں ہے وہ اگروہ صاف شفاف ہوتا تو آپ کہہ دیتے۔ آپ کا جواب نہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ دال میں وہی کچھ کالا کالا ہے جو میرا شبہ ہے لیکن آپ صرف منہ سے میرے شبہے کی تصدیق کرنے سے انکاری ہیں۔ چلیں خیر ہے۔ کوئی بات نہیں۔ مجھے میرے سوال کا جواب بھی مل گیا ہے اور اپنے شبہے کی تصدیق بھی ہو گئی ہے۔ آپ جیسے باخبر آدمی کی یہ خاموش تصدیق بھی میرے لئے بہت ہے۔
میں نے کہا: شاہ جی! اصولاً آپ میرے دو سوالات کا جواب دینے کا وعدہ کر چکے تھے تاہم آپ نے صرف ایک سوال کا جواب دیا ہے۔ اس حساب سے ابھی ایک سوال باقی بچتا ہے۔ شاہ جی ہنس کر کہنے لگے: تم نے باز تو آنا نہیں لہٰذا یہ دوسرا سوال بھی کر لو۔ میں نے کہا: شاہ جی! کیا سیاسی پارٹیاں اس طرح ختم ہو جاتی ہیں؟ پیپلز پارٹی پر پابندی لگی تو وہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے نام سے سامنے آ گئی۔ اس کی سربراہی بھٹو فیملی کے بجائے مخدوم امین فہیم کو سونپ دی گئی جو اس کے ڈمی سربراہ تھے۔ آپ پارٹی کے سربراہ کو نااہل تو کر سکتے ہیں مگر پارٹی پر اس کی گرفت ختم نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ نواز شریف کے معاملے میں آپ دیکھ رہے ہیں۔ نام نہاد وزیراعظم بھی آخری ہدایات لینے کیلئے لندن جاتا ہے۔ بھلا اس طرح سے پارٹیاں کبھی ختم ہوتی ہیں؟ سیاسی معاملات کو سیاست کی ریتی سے ہی گھسایا جا سکتا ہے۔ میں نے کہا :شاہ جی! کیا شاہ محمود قریشی دوسرا مخدوم امین فہیم بننے جا رہے ہیں؟ شاہ جی کہنے لگے:تم جب سے پاکستان سے باہر گئے ہو ہم تمہارے نامعقول سوالات سے بچے ہوئے تھے۔ فون بند کرو۔ خود بھی انجوائے کرو اور ہمیں بھی چین لینے دو۔ یہ کہہ کر شاہ جی نے نہایت بے مروتی سے فون کاٹ دیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved