تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     22-09-2013

درندے بستیاں نہیں بساتے

صرف صداقت نہیں،حکمت اورصبرو تحمل بھی! آخری فتح بہرحال سچائی کی ہوتی ہے۔ درندے بستیاں نہیں بساتے ۔ مرنا اور مٹنا ہی ان کا مقدر ہوتا ہے۔ الاّ یہ کہ وہ توبہ کرلیں۔ کیا طالبان کے بارے میں سیاسی اور عسکری قیادت کے نقطۂ نظر میں اختلاف پایا جاتا ہے؟ جی ہاں، بالکل اور واضح طور پر۔ غیر ملکی نیوز ایجنسی کی رپورٹ مگر مضحکہ خیز اور احمقانہ ہے۔ اس نے تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اختلاف نہیں ناراضی ہے اور تصادم پر منتج ہوسکتی ہے۔ تصادم نقطۂ نظر کے مختلف ہونے سے پیدا نہیں ہوتا۔ زندہ انسانوں میںاختلاف ہوا کرتا ہے اور ہونا ہی چاہیے۔ ربّ کریم نے زندگی کو ایک خیرہ کن تنوّع میں پیدا کیا ہے اور کشمکش اورامتحان کے لیے ہمیشہ وہ ایسی ہی رہے گی۔ اﷲ کے آخری رسول ؐ کا فرمان ہے ’’اُمت کا اختلاف باعث رحمت ہے۔‘‘ تصادم تو تعصب، مفاد پرستی اور اناپروری سے پیدا ہوتا ہے۔ گاہے بدگمانی سے بھی، گاہے سازش کی پیداوار ہوتی ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور وزیراعظم نواز شریف کے مقابل آنے کا دور دور تک کوئی اندیشہ نظر نہیں آتا۔ جنرل کیانی، اپنامؤقف دلیل ہی نہیں، تحمل سے بیان کرتے ہیں۔ وزیراعظم ان کی بات سن رہے ہیں۔ مسلسل اور متواتر ان میںتبادلۂ خیال ہے۔ 11 ؍ مئی کے بعدبتدریج وہ ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں۔ پھر جھگڑے کا کیا سوال؟ ایک حالیہ سروے کے مطابق، وزیراعظم کی جن پالیسیوں پر عوام کی اکثریت نے سب سے زیادہ اظہار اعتماد کیا ،ان میں عسکری قیادت سے مفاہمت نمایاں ترین ہے، اس کے بعد سیاسی اپوزیشن اور صوبائی حکومتوں سے ہم آہنگی کی کوشش۔ اسی سروے کے مطابق شریف خاندان کی اقربا پروری سے عوام نالاں ہیں۔ یہ سروے کس جبر کا مظہر ہے؟ اب کی بار نوازشریف بعض معاملات میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں۔ خطرناک صورت حال کے سبب وہ خوف اور تذبذب کا شکار ہیں۔ ادھر جنرل کیانی کا مزاج یہ ہے کہ وہ بہرحال شخصی تصادم (Personality Clash) سے گریزاں رہتے ہیں۔ آصف علی زرداری، سیّد یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کو انہوںنے بھگت لیا اور کمال صبر سے بھگتا تو اب قرار کا دامن وہ کیوںجھٹکیں گے۔ وہ بھی اس وقت جب ذہنی طور پر وہ سبکدوشی کے لیے تیار ہیں۔ جنرل کو اپنے آپ پر قابو بہت ہے۔ ان کے ڈرائیور سے پوچھا گیا: تمہارا صاحب کبھی ناراض بھی ہوا؟ جواب ملا!ہاں ایک بار۔ انہوںنے مجھ سے کہا: چابی دے دو، پھر خود گاڑی چلا کر لے گئے۔ پچھلی حکومت کے کارناموں پر آزردہ وہ مستقل طور پر رہے او ر ایک بار یہ کہا ’’ہر روز میرا دل ویران ہوتا ہے‘‘ مگر غصے میں فقط ایک مرتبہ آئے۔ اس وقت جب میمو گیٹ پر، چیف آف آرمی اسٹاف نے اپنا موقف تحریری طور پر عدالت عظمیٰ کو لکھ بھیجا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے جو سپہ سالار کو توسیع دے کر یہ گمان کرنے لگے تھے کہ وہ ان کے ممنونِ احسان ہوں گے‘ اس پر یہ کہا: یہ قانون اور آئین کی خلاف ورزی ہے۔ حالاںکہ خود ہی ارشاد فرمایا تھا کہ جنرل کی منت سماجت کرکے انہیں آمادہ کیا گیا۔ وہ ایک خوش فہم آدمی ہیں ۔ اپنے بارے میں ان کا خیال یہ ہے کہ وہ بہت ذہین واقع ہوئے ہیں۔ ان کی خود نوشت ’’چاہِ یوسف سے صدا‘‘ کاایک ایک ورق، اس تاثر کو اجاگر کرتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے دستور کی توہین کا الزام عائد کیا تو جواب میں اپنے قلم سے انہوں نے لکھا کہ وزیر اعظم اپنا موقف ثابت کریں، اپنے الفاظ واپس لیں۔ اس مرحلے پر جنرل کے احساسات کیا تھے، یہ پھر کبھی عرض کروں گا۔ وزیر اعظم کی خوش فہمی بہرحال بہت گہری تھی۔ آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم، اس لااُبالی مگر بے باک آدمی راجہ فاروق حیدرسے ، ایک ملاقات میں انہوںنے کہا ’’فوجی قیادت میرے ساتھ ہے‘‘۔ راجہ نے، جیسا کہ اُس کا مزاج ہے ، ترت جواب دیا۔’’سیاست میں کوئی کسی کے ساتھ نہیں ہوتا۔‘‘ باون تولے56 رتی۔ اس لیے کہ طاقت کی اپنی حرکیات ہوتی ہیں ۔یہ بھی کہ پاکستانی فوج کا سربراہ ایک بہت طاقتور آدمی ہوتا ہے۔ یہ الگ بات کہ اس کے نزدیک اخلاق اور اصول کی اہمیت کتنی ہے۔ وہ جنرل پرویز مشرف ہے یا جنرل عبدالوحید کاکڑ، جنہیں امریکیوں نے اشارہ دیا کہ وہ اقتدار پہ قبضہ کرلیں مگر بے نظیر بھٹو کی درخواست کے باوجود انہوںنے توسیع بھی گوارانہ کی۔پاکستان کوریا اور تائیوان کی مانند ہے، مستقل خطرات میں گِھرا ہوا ۔ اس میں فوج کی اہمیت ہمیشہ غیرمعمولی رہے گی۔ اب تو صورت حال انتہائی سنجیدہ ہے، چناں چہ آخری درجے کی احتیاط کا متقاضی ! جنرل اشفاق پرویز کیانی بارہ برس سے افغانستان اور قبائلی علاقوں کو دیکھ اور سمجھ رہے ہیں۔ ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز، آئی ایس آئی کے سربراہ اور پھر چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے۔ فرشتہ وہ بالکل نہیں۔ ان کی یادداشت غیر معمولی ہے ‘ وہ ایک معتدل مزاج پاکستانی ہیں اور سب سے زیادہ یہ کہ ساری زندگی تنے ہوئے رسّے پر چلنے والا آدمی محتاط اور حقیقت پسند ہے۔دبائو میںفیصلہ کرنے سے وہ گریز کرتے ہیں۔ برسوں امریکی دیواروں سے سر ٹکراتے رہے مگر شمالی وزیر ستان میںکارروائی سے انہوں نے گریز کیا۔ سلالہ کی چوکی پر حملہ کرکے امریکیوں نے انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ نیٹو کی سپلائی انہوں نے روک دی اور سات ماہ تک روکے رکھی۔ بے شک قوم اور سیاسی قیادت ان کے ساتھ تھی لیکن اگر وہ نہ چاہتے تو یہ ممکن نہ ہوتا۔ اب عسکری قیادت یہ سمجھتی ہے کہ طالبان کے خلاف کارروائی کا وقت آپہنچا ہے۔ ہمارے تناظر سے خواہ وہ کتنے ہی ادنیٰ خیالات رکھتے ہوں ، طالبان میں کچھ نظریاتی لوگ بھی ہیں۔زیادہ تر لیکن وہ ہیں، جو بھارت، امریکہ اور افغانستان کی لے پالک حکومت، ہر کہیں سے امداد وصول فرماتے ہیں۔ حالات کو سازگار پاکر منشیات کے سوداگر اور اغوا برائے تاوان کا دھندا کرنے والے بھی ان سے جاملے ہیں۔ مخالف مکاتبِ فکر کے شہریوںکا قتل عام کرنے والے فرقہ پرست بھی۔ فیصلہ بہرحال سیاسی قیادت کوکرنا ہے۔ اگر وہ ذمے داری نہ لے گی اور ہم رکاب نہ ہوگی تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ پچاس ہزار بے گناہ شہید ہوگئے ۔ ہزاروں اغوا کر لیے گئے۔ آئندہ بھی وطن کے محافظوں اور شہریوںکا قتل عام جاری رہے گا۔ سیاسی قیادت کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ مذاکرات ہونے چاہئیں۔ شریف حکومت کو کل جماعتی کانفرنس کی بجائے مشاورت کا ایک زیادہ موزوں طریق اختیار کرنا چاہیے تھا۔ یہ بھی اندازہ تھا کہ کچھ عناصر اسے ہائی جیک کرنے کی کوشش کریں گے۔ خوف زدہ اور متذبذب نواز شریف تاب نہ لاسکیں گے۔ اب فیصلہ ہوچکا تو اس پر عمل ہونا چاہیے اور خلوصِ دل کے ساتھ۔ اللہ اہل اخلاص اور صداقت شعاروں کا ولی ہے، ریاکاروںاور فریب دہی کرنے والوں کا نہیں۔ جنرل ثناء اللہ خان نیازی کی شہادت بہت بڑا واقعہ ہے، قوم کو اس نے خون رلایا ہے مگر اتمام حجت لازمی ہے۔ اُن لوگوں کو ایک موقعہ ضرور دینا چاہیے، جوامن کے آرزو مند ہوں۔ سو فی صد یا ایک فی صد، جلد ہی یہ معلوم ہوجائے گا۔یہ مگر واضح رہے کہ ابراہیم پراچہ نون لیگ کے نہیں، جمعیت علمائے اسلام کے آدمی ہیں۔ قومی اسمبلی کا ٹکٹ بٹورنے کے لیے وہ لیگ میں شامل ہوئے تھے، جیسے 1946ء میں بعض کمیونسٹ اور ملّا قائد اعظم سے جاملے تھے۔ پراچہ صاحب القاعدہ اور طالبان کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔ ان پر بھروسہ کرناپرلے درجے کی حماقت ہوگی۔ صلح حدیبیہ کے بعد مشرکینِ مکّہ نے سرکارؐ کے ساتھیوں کو بے دردی سے شہیدکیا۔ پھر ابو سفیان‘ جو ابھی ایمان نہ لائے تھے، ہراساں ہوکر مدینہ پہنچے۔ ایک کے بعد دوسرا دروازہ انہوں نے کھٹکھٹایا کہ عالی مرتبتؐ سے التجا کی جائے۔ وہاں مگرکون سنتا۔ پھرسر اٹھا کر اس آدمی نے آسمان کی طرف دیکھا مگر آسمان وہاں نہیں تھا۔ اللہ کی آخری کتاب اور اس کے سچے رسول ؐ کا اسوہ لیکن صبر کا سبق دیتا ہے۔ صرف صداقت نہیں، حکمت اورصبرو تحمّل بھی! آخری فتح بہرحال سچائی کی ہوتی ہے۔ درندے بستیاں نہیں بساتے۔ مرنا اور مٹنا ہی اُن کا مقدّر ہوتا ہے۔ الّا یہ کہ وہ توبہ کرلیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved