جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں سے سب سے اعلیٰ مقام عطا فرمایا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اس نے انسان کو زمین میں اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ یہ احسنِ تقویم میں پیدا کیا گیا ہے، یہ اشرف المخلوقات ہے۔ انسان جس کا اتنا بلند مرتبہ ہے، اگر اپنے مقام سے گر جائے تو ساری مخلوق سے نیچے چلا جاتا ہے۔ انسان کی یہ زندگی عارضی اور ختم ہوجانے والی ہے۔ موت ہر ذی روح کا مقدر ہے اور اس کا وقت خالق ومالک نے پہلے سے متعین کررکھا ہے، مگر اس کا علم سوائے خالق کے کسی کے پاس نہیں ہے۔
موت کے بعد اس دنیا کی زندگی ختم ہوجاتی ہے اور ایک دوسری زندگی کا آغاز ہوجاتا ہے جو کبھی ختم نہ ہوگی۔ اس زندگی کی دو کیفیتیں ہوتی ہیں۔ موت کے بعد عالم برزخ ہے جسے ہم ٹرانزٹ کہہ سکتے ہیں۔ اس عرصے میں جسم بے جان ہے اور روح اس سے جدا ہوچکی ہے۔ یہ جدائی مگر مکمل فنا نہیں ہے۔ حقیقت میں یہ دائمی زندگی کی شروعات ہیں۔ علامہ اقبالؔ نے کیا خوب فرمایا ہے:
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوامِ زندگی!
نیک لوگوں کی روح جسم سے نکلنے کے بعد علییّن میں اور بدکار لوگوں کی روح سجیّن میں چلی جاتی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! علییّن اور سجّین کیا ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: علییّن آسمان کی بلندیوں پر ایک خوب صورت‘ پُرفضا مقام ہے، جہاں نیک لوگوں کی روحیں مقیم رہتی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت کا اظہار کرتی ہیں۔ سجین زمین کی تہوں کے نیچے ایک بہت خوف ناک قیدخانہ ہے جس میں بدکار لوگوں کی روحیں مقیّد کی جاتی ہیں۔ وہ آپس میں ایک دوسرے پر لعن طعن کرتی رہتی ہیں۔ (تفسیرابن کثیر، سورۃ المطففین)
قیامت کے وقت جسم اور روح کا دوبارہ ملاپ ہوگا اور پھر دائمی زندگی کا آغا زہوجائے گا۔ میدانِ حشر میں اللہ تعالیٰ کے سامنے سب لوگوں کا حساب ہو گا اور جن کے نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہوا، انہیں دائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال دیا جائے گا جو جنت میں داخلے کا سرٹیفکیٹ ہوگا۔ جن لوگوں کا برائیوں کا پلڑا بھاری ہوا، ان کا نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور یہ جہنم کا وارنٹ ہوگا۔
انسان اس دنیا میں ہی جنت کماتا ہے اور اسی میں دوزخ کا سزاوار قرار پاتا ہے۔ ایمان اور عمل صالح رضائے ربانی اور فلاحِ اخروی کا ذریعہ ہیں۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے اپنی امت کے متعلق خواہشِ نفس اور طولِ آرزو کا سب سے زیادہ اندیشہ ہے، کیونکہ خواہشِ نفس حق سے روکتی ہے جبکہ طولِ آرزو آخرت بھلا دیتی ہے اور یہ دنیا (غیر محسوس طریقے سے) چلی جا رہی ہے جبکہ آخرت (اسی طرح) چلی آ رہی ہے، اور دونوں میں سے ہر ایک کے طلبگار ہیں، تم دنیا کے طلبگار نہ بنو، عمل کرتے رہو، کیونکہ آج تم دارِ عمل میں ہو اور کوئی حساب نہیں، اور کل دارِ حساب میں ہو گے اور کوئی عمل نہیں ہو گا۔ (بیہقی، فی شعب الایمان)
موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ اللہ رب العزت کی ذات کا انکار ہر دور میں لوگوں نے کیا، مگر موت کا انکار کبھی کوئی کرسکا، نہ کرسکے گا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے انسان ہر روز اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ زندگی میں لاتعداد لوگوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے موت کی وادی میں اترنے کا منظر اس کے سامنے ہوتا ہے۔آتشؔ نے کیا خوب صورت نقشہ کھینچا ہے:
تنہائی ہے، غریبی ہے، صحرا ہے، خار ہے
کون آشنائے حال ہے، کس کو پکاریے
تم فاتحہ بھی پڑھ چکے ہم دفن بھی ہوئے
جس خاک میں ملا چکے چلیے سدھاریے
موت کے بعد دوبارہ زندگی کا انسانوں کی کثیر تعداد نے انکار کیا ہے۔ قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ اہلِ کفر کی اس سوچ کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے: یہ لوگ کہتے ہیں زندگی بس دنیا کی زندگی ہے، ہم مرنے کے بعد ہرگز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے۔ (الانعام:29)۔ زندگی کچھ نہیں ہے، مگر یہی دنیا کی زندگی، یہیں ہم کو مرنا اور جینا ہے اورہم ہرگز اٹھائے جانے والے نہیں ہیں۔ (المومنون:37) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جس خالق نے انسان کو عدم سے وجود بخشا ہے اس کو دوبارہ زندہ کرنے میں اسے کیا دشواری ہے۔ (الروم:27)
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانوں کو بتا دیا ہے کہ عقل مند کون ہے؟ ارشاد ہے : ''عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کو رام کرلے اورموت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے اور عاجز وبے وقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات پر لگا دے اور رحمت الٰہی کی آرزو رکھے‘‘۔ (ترمذی، عن شداد بن اوسؓ)
موت بذاتِ خود بہت بڑی واعظ اور ناصح ہے۔ حضرت عمار بن یاسرؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: موت نصیحت کے لیے، یقین بے نیازی کے لیے اور عبادت مشغولیت کے لیے کافی ہے۔ (کنز العمال)
ہمارے اعزہ واقربا جو ہم سے بچھڑ جاتے ہیں، ان کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں؟ یہ سوال صحابہ کرامؓ اکثر حضور پاکﷺ سے پوچھا کرتے تھے۔ آپﷺ نے مختلف مواقع پر اس سوال کا تشفی بخش جواب دیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ''جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے: ایک صدقہ جاریہ ہے، دوسرا ایسا علم ہے، جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرا نیک و صالح اولاد ہے جو اس کے لیے دعا کرے‘‘۔(صحیح مسلم، ح : 931، عن ابی ہریرہؓ)
حضرت سعد بن عبادہؓ کی ماں عمرہؓ بنت مسعود کا جب انتقال ہوا تو وہ ان کے پاس موجود نہیں تھے۔ انہوں نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ! میری والدہ کا جب انتقال ہوا تو میں ان کی خدمت میں حاضر نہیں تھا۔ کیا اگر میں کوئی چیز صدقہ کروں تو اس سے انہیں فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے کہا کہ میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا مخراف نامی باغ ان کی طرف سے صدقہ ہے۔(صحیح بخاری، عن ابن عباسؓ)
قرآن پاک کی تلاوت کرنے والے کو ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں ملتی ہیں۔ آج کل جس انداز میں فوت شدگان کی وفات پر قرآن خوانی کا اہتمام کیا جاتا ہے وہ ایک روایتی سا انداز بن گیا ہے؛ تاہم اس طرح قران پڑھتے ہوئے ہر بندۂ مومن کو سوچنا چاہیے کہ قرآن محض کسی کی وفات پر پڑھنے کے لیے نازل نہیں ہوا۔ اسے ہر روز پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہیے، خواہ ایک رکوع یا اس سے کم وبیش تلاوت کر سکیں۔ ہر روز باوضو تلاوت کے بعد اپنے والدین، اعزہ واقربا، تمام انبیائے کرام، صحابہ عالی مقام، صلحاوشہدا اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کے لیے دعائے مغفرت ہمارا معمول ہونا چاہیے۔
اپنے مرحومین کی روح کو ایصال ثواب کے لیے اپنی حیثیت واستطاعت کے مطابق غربا ومساکین، یتامیٰ وبیوگان اور مصیبت زدگان پر صدقہ کرکے ان کی مغفرت کے لیے دعا کی جائے تو اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ مرحومین اپنے ہوں یا بیگانے ہوں، ان کی نیک عادات اور حسنات کا ذکر اپنے لیے اور مرحومین کے لیے باعثِ اجر ہوتا ہے۔ ہر انسان میں کوئی نہ کوئی غلطی ہوتی ہے، ہر ایک سے گناہ بھی سرزد ہوجاتا ہے۔ زندہ لوگوں کو گناہ سے فوراً توبہ کرکے اپنی اصلاح کرنی چاہیے، یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ابھی بڑا وقت ہے۔ اگلے لمحے کا کسی کو علم نہیں۔
مرحومین کی کسی غلطی وکوتاہی یا سیئات کا تذکرہ کرنے سے حدیث پاک میں منع فرمایا گیا ہے۔ آپ ان کی تعریف نہ کرسکیں تو عیب بھی نہ نکالیں بلکہ خاموش رہیں۔ ان کے اندر جو بھی اچھی صفات ہوں، ان کا ضرور تذکرہ کرنا چاہیے۔ہر لمحہ اپنی موت کو بھی ذہن میں تازہ رکھنا چاہیے۔ یہ اپنے وقت پر آتی ہے، مگر پہلے نوٹس نہیں بھیجا جاتا۔
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved