اتوار کو پاکستان بھر میں یومِ تکبیر اس بار روایت سے ہٹ کر منایا گیا جس کی وجہ اس کی سلور جوبلی ہے۔ عوامی سطح پر یومِ تکبیر کے حوالے سے خاصا جوش و خروش نظر آیا۔ لگ بھگ سبھی سیاسی جماعتوں اور تنظیموں نے اپنے اپنے طور پر ریلیاں نکالیں اور جلوسوں کا انعقاد کیا۔ البتہ حکمران جماعت کے جلسوں میں یومِ تکبیر سے زیادہ عمران خان اور پی ٹی آئی کو ہی موضوعِ گفتگو بنایا گیا۔ گزشتہ سالوں کی روایت سے ہٹ کر اس بار مسلم لیگ نواز نے لاہور میں لبرٹی چوک میں جلسے کا انعقاد کیا مگر اس ''عظیم الشان‘‘ جلسہ عام میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر‘ ایک سرے سے دوسرے سرے تک اس طرح بے کنار تھا جیسے طوفانی موجوں نے سمندر میں تلاطم پیدا کیا ہوتا ہے۔ مسلم لیگ نواز کے چوٹی کے لیڈران نے اس حوالے سے جو بیانات دیے‘ انہوں نے جلسے کی کامیابی پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ سابق رکن پنجاب اسمبلی حنا پرویز بٹ نے ٹویٹ کیا کہ ''پورا لاہور لبرٹی چوک میں امڈ آیا‘‘۔ یقینا ایسا عوامی اجتماع انسانی آنکھ نے پہلے کبھی دیکھا نہ ہی سنا۔ یہی وجہ ہے کہ غیر ملکی میڈیا بھی اس جلسے پر حیران و پریشان نظر آیا۔ اس عوامی سمندر نے لوگوں کے دلوں پر ایسی ہیبت طاری کی کہ آئندہ کئی مہینوں تک اس کا اثر زائل نہیں ہو سکتا۔
گزشتہ کالم میں ہی میں نے لاہور‘ لبرٹی چوک کے جلسے کا ممکنہ احوال بیان کر دیا تھا اور ہوا بھی وہی۔ البتہ بے کنار عوامی سمندر سے میاں نواز شریف نے بھی لندن سے براہ راست خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ میرے دور میں ڈالر سو روپے کا تھا‘ آج 300 روپے سے زائد ہو چکا ہے، پٹرول 70 روپے لٹر تھا، آج 270 کا ہو چکا ہے۔ اسی طرح انہوں نے دیگر چیزوں کی قیمتوں کا بھی موازنہ کیا۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ میاں صاحب نے جو معاشی چارج شیٹ پیش کی‘ وہ تو ان کے برادرِ اصغر ہی کے خلاف جاتی ہے۔ البتہ اپنے خطاب میں نواز شریف نے عمران خان کے مشہورِ زمانہ جملے ''Absolutely Not‘‘ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو سینہ تان کر اصل انکار انہوں نے اس وقت کیا تھا جب مئی 1998ء میں امریکی صدر بل کلنٹن نے انہیں پانچ فون کرتے ہوئے پہلے لالچ اور پھر دھمکیاں دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایٹمی دھماکے نہ کرے۔ میاں صاحب کے بقول بل کلنٹن نے انہیں آفر دی کہ اگر آپ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے نہ کریں تو ہم آپ کو پانچ ارب ڈالر دیں گے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ میاں صاحب نے یہ دعویٰ کیا ہو۔ اس سے قبل اٹھائیس مئی 2018ء کو بھی لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ''اگر نواز شریف بے ایمان اور کرپٹ ہوتا تو وہ امریکی صدر کلنٹن کے ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے بدلے میں پانچ ارب ڈالر کی پیشکش کو قبول کر کے ایک ارب ڈالر آرام سے اپنے پاس رکھ لیتا‘‘۔ یہ ایسا بیان ہے کہ اس پر کوئی تبصرہ نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ پانچ ارب ڈالر کی پیشکش کس نے کی اور میاں نواز شریف نے لندن سے لبرٹی جلسے سے خطاب میں جو کچھ کہا‘ اس میں کتنی سچائی ہے‘ آئیے! اس کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ 22 مئی 1998ء کو میاں نواز شریف کی بحیثیت وزیراعظم پاکستان امریکی صدر بل کلنٹن سے فون پر بات ہوئی تھی۔ واضح رہے کہ اس سے قبل 11 اور 13 مئی کو بھارت ایٹمی دھماکے کر چکا تھا، اس وقت میاں نواز شریف آذربائیجان کے دورے پر تھے۔ اس دورے کو مختصر کر کے جب وہ وطن واپس آئے تو ان پر دھماکوں کے لیے شدید دبائو تھا۔ اسی تناظر میں 22 مئی کو امریکی صدر سے ان کی فون پر بات چیت ہوئی‘ جس کا ایک ایک لفظ قوم کی امانت ہے۔ قوم پر یہ لازم ہے کہ وہ حقائق کو خود جانے اور سچ کی تہہ تک پہنچے۔
22 مئی 1998ء کی رات دس بجے امریکی صدر بل کلنٹن نے فون پر وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف سے کہا: اگر آپ ایٹمی دھماکے نہیں کرتے تو مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں پاکستان کی سکیورٹی کا سب سے زیادہ انحصار پاکستان کی مضبوط معیشت پر ہو گا۔ میں نے اپنے محکمہ خزانہ کو ہدایات جاری کر دی ہیں اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے‘ خاص طور پر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ذریعے اگلے تین سالوں کے دوران تین سے پانچ بلین ڈالرز سرمائے کی اقتصادی معاونت آپ تک پہنچ سکتی ہے۔ امریکی صدر کلنٹن نے اس کے بعد مزید کہا: اگر آپ کو اس کے علاوہ کوئی باہمی اقتصادی تعاون کی ضرورت ہو تو ہم ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ ایجنسیوں اور اوورسیز پرائیویٹ انویسٹمنٹ کارپوریشن سے بھی بات کر سکتے ہیں۔
اس گفتگو کو کچھ دیر کے لیے یہیں پر روک کر سوچئے کہ یہ پانچ بلین ڈالر دراصل ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے عوض آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کی صورت میں دیے جانے تھے اور یہ رقم بھی فوری طور پر نہیں بلکہ اگلے تین برسوں کے دوران ملنے کی امید دلائی جا رہی تھی جبکہ پانچ بلین کی مقدار بھی طے نہیں ہوئی تھی بلکہ ''تین سے پانچ بلین‘‘ کا دلاسا دیا گیا۔
جب بل کلنٹن سے پاکستان پر واجب الادا قرضوں کی معافی کی بات کی گئی تو صدر کلنٹن کا جواب تھا: ''میں آپ کو کچھ قرضے معاف کرنے کے امکانات پر غور کر رہا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ (پاکستان کے ایٹمی تجربات نہ کرنے کے عوض) ہمیں یہ کرنا چاہئے لیکن اس کے لیے امریکی قانون کے مطابق مجھے کانگرس سے اس کی منظوری لینا پڑے گی۔ پچھلے 72 گھنٹوں میں مجھے اتنا وقت نہیں مل سکا کہ میں اس معاملے میں کانگرس کا ردعمل دیکھ سکوں۔ اس لیے میں وعدہ نہیں کر سکتا کہ میں یہ کر سکوں گا۔ ہاں! جو میں آپ سے وعدہ کر سکتا ہوں وہ یہ کہ میں اس کی سفارش کروں گا اور کوشش کروں گا کہ اس کو کانگرس سے منظور کرا سکوں لیکن میں ایک بار پھر کہہ رہا ہوں اس حوالے سے میں آپ کو کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا‘‘۔
اس کے بعد دونوں سربراہانِ مملکت میں پریسلر ترمیم پر بات ہوئی‘ جس کے تحت امریکہ نے سوویت افغان جنگ کے بعد پاکستان کی امداد روک کر اس پر پابندیاں لگا دی تھی۔ اس حوالے سے صدر کلنٹن نے کہا: ''اگر پریسلر ترمیم کی منسوخی کی بات کریں تو ہماری یہ درخواست سینیٹ سے گزر کر منسوخ ہو جائے گی‘ تو اس کیلئے ہمیں کانگرس میں بھی کامیابی ملنی چاہئے مگر میں آپ کو اس کی بھی ابھی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا کیونکہ کل ہی میں اور سینیٹر ٹرینٹ لاٹ کسی نکتے پر ہم خیال تھے مگر بدقسمتی سے ہمیں سینیٹ میں اس بار کامیابی نہیں مل سکی‘‘۔ یہ ہے حرف بحرف وہ گفتگو‘ جس کی بنیاد پر ہر سال یومِ تکبیر کے موقع پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ صدر کلنٹن ذاتی اکائونٹ میں پانچ بلین ٹرانسفر کرنے کی آفر کر رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو کچھ قرض ملنا تھا‘ کچھ آسان شرائط پر‘ مگر کس صورت میں؟ ایٹمی دھماکوں کا خیال ذہن سے نکال دینے کی صورت میں۔
جہاں تک ''ایبسلوٹلی ناٹ‘‘کی بات ہے تو اس گفتگو کا آخری حصہ قابلِ غور ہے۔ میاں صاحب نے صدر کلنٹن کی بات سننے کے بعد کہا کہ ''جنابِ صدر! آپ کی پیشکش کا جواب دینے کے لیے میرا وزیراعظم کے طور پر رہنا ضروری ہے۔ یہاں پاکستان میں اپوزیشن لیڈر بینظیر بھٹو پہلے ہی میرے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہیں‘‘۔ میاں صاحب نے جب فون پر امریکی صدر کلنٹن سے خود کو وزیراعظم کے عہدے پر برقرار رکھنے کی درخواست کی تو اس پر بل کلنٹن نے جواب دیا: ''کچھ چیزیں جن کے بارے ہم نے آج بات کی ہے آپ کے لیے اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو کے ساتھ بات کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی‘‘۔ اس پر میاں صاحب نے بل کلنٹن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: جنابِ صدر! میں آپ سے پھر رابطہ کروں گا۔
Absolutely not کا سہرا اپنے سر باندھنے والے بتائیں کہ وہ امریکی صدر بل کلنٹن سے فون پر کیوں کہہ رہے تھے کہ امریکہ انہیں پاکستان کے و زیراعظم کے طور پر برقرار رکھے اور اور بے نظیر بھٹو کو انہیں پریشان کر نے سے روکے؟
(نوٹ: مذکورہ بالا ساری گفتگو ''غدار کون‘‘ از سہیل وڑائچ، صفحہ 437 تا 439 پر دیکھی جا سکتی ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved