ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ ان دھماکوں سے ہم کیا حاصل کر سکے۔ نعرے ہم نے لگائے اوراب تک لگا رہے ہیں لیکن دھماکے کرنے سے کیا ہمارامقام بڑھ جانا تھا‘ ہماری عزت میں کوئی اضافہ ہوجانا تھا؟ مقا م تو تب بڑھتا کہ بطورِ قوم ہم آگے جاتے‘ ترقی کی راہ پر گامزن ہوتے‘ سمجھداری سے کام لیتے‘ ملکی غربت میں کچھ کمی ہوتی‘ لوگوں کا معیارِ زندگی کچھ بڑھتا۔ ایسا تو ہم سے کچھ نہیں ہوسکا‘ بس یہ دن آتا ہے تو ہم اپنی ذمہ داریوں پر غور کرنے کے بجائے کچھ اور نعرے لگا دیتے ہیں۔ترکی جیسا ملک ایٹمی قوت نہیں ہے‘ یو اے ای کے پاس کوئی بم نہیں ہے لیکن موازنہ کرلیں ان دونوں ممالک کا مقام کہاں ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔
بات ایٹمی قوت بننے کی نہیں‘ ٹیسٹ کرنے کی ہے۔ہم نے جوہری صلاحیت حاصل کر لی‘ یہ ڈاکٹرعبدالقدیر خان اور اُن کی ٹیم کا قابلِ فخر کارنامہ تھا۔دنیا کو پتا تھا کہ ہم ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں توپھر ٹیسٹ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اسرائیل ہم سے پہلے کی ایٹمی قوت ہے‘ اُس کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا اچھا خاصا ذخیرہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اُس کے پاس لگ بھگ دو سو ایٹمی وارہیڈ ہیں لیکن اسرائیل نے باقاعدہ ٹیسٹ کرنا کبھی ضروری نہیں سمجھا۔وہاں پر ایک قومی اتفاقِ رائے ہے کہ اس موضوع پر کسی نے کوئی بات نہیں کرنی اور اس اصول پر عمل بھی ہوتا ہے۔ چاہے حکومت کے لوگ ہوں یا اپوزیشن کے‘ اسرائیل کی ایٹمی صلاحیت سرعام کبھی زیرِبحث نہیں آتی۔ہم ہیں کہ اس موضوع پر بات کرتے تھکتے نہیں‘ جو اس موضوع پر کچھ جانتے بھی نہیں وہ بھی اپنے آپ کو ایکسپرٹ سمجھتے ہیں اور اُنہوں نے بھی اس حوالے سے کچھ نعرہ ضرور لگانا ہوتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب ہندوستان نے ایٹمی ٹیسٹ کر لیے تھے تو ہمارے لئے ضروری ہو گیا تھا کہ جواباً ہم بھی کچھ کرتے۔سوال ہے کہ کیوں ضروری ہو گیا تھا؟ ایل کے ایڈوانی نے ایک دو بیان داغے تھے اور یہاں کہا جانے لگا کہ پاکستانی قوم کا مورال گررہا ہے اور ترکی بہ ترکی جواب دینا قومی غیرت اور مورال کا تقاضا بن گیا ہے۔اس سے زیادہ کم عقلی کی بات نہیں ہو سکتی۔ایٹمی صلاحیت ہم حاصل کرچکے تھے‘ دنیا کو پتا تھا کہ ہم ایٹم بم بنا چکے ہیں‘ اگر ہم ٹیسٹ سے اجتناب کرتے تو ہندوستان کی نسبت ہماری اخلاقی پوزیشن بلند ہوتی۔ہربین الاقوامی فورم پر ہم ہندوستان کو رگید سکتے تھے کہ دیکھیں کہ یہ کیسا غیر ذمہ دار ملک ہے اور اس نے کیا کیا۔ لیکن نہیں‘ ہمارا مزاج کیسے گوارا کر سکتا تھا کہ ہم ایسی کوئی بات کرتے۔یہاں جناب مجید نظامی جیسے رائے عامہ کے لیڈر تھے جنہوں نے وزیراعظم نوازشریف سے کہا کہ آپ نے دھماکہ نہ کیا توعوام آپ کا دھماکہ کر دیں گے۔
چلیں ہم نے ٹیسٹ کرلیے‘ ہم نے دنیا کو بتا دیا کہ ہمارے پاس ایٹمی قوت ہے‘ لیکن اس سے ہم نے کیا حاصل کیا ؟ یہاں یہ کہا جاتا ہے کہ ایسا کرکے ہم نے ہندوستان کے عزائم خاک میں ملا دیے۔ کوئی پوچھے تو سہی‘ کون سے عزائم ؟ کیا وہ ہم پر حملہ کرنے والا تھا یا ہم نے اُنہیں بتانا تھا کہ لو بھئی! ہمارے پاس بھی ایٹمی ہتھیار ہیں؟ جب راجیو گاندھی کے زمانے میں ہندوستان نے پاکستانی سرحد کے قریب فوجی مشق ''براس ٹیگ‘‘ کی تو دونوں ملکوں میں جنگ کی باتیں ہونے لگیں۔اسی تناؤ میں جے پور میں پاکستان اور ہندوستان کا ایک کرکٹ ٹیسٹ میچ ہونا تھا اور جنرل ضیا الحق نے اعلان کر دیا کہ وہ میچ دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ جے پور گئے تو وزیراعظم راجیوگاندھی بھی وہاں لامحالہ پہنچے۔روایت ہے کہ چلتے چلتے جنرل ضیا نے وزیراعظم راجیوگاندھی کے کان میں صرف اتنا کہا کہ ہم بھی بم بنا چکے ہیں۔ تب پاکستان کو کوئی دھماکے نہیں کرنے پڑے تھے ہندوستان کو یہ باور کرانے کیلئے کہ ہم بھی بم کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اُس زمانے کے لوگوں کو یہ بھی یاد ہوگا کہ غالباً 1986ء میں معروف ہندوستانی صحافی کلدیپ نائر اسلام آباد آئے تھے اور ہمارے دوست مشاہد حسین اُنہیں ڈاکٹر اے کیو خان کے پاس ملاقات کیلئے لے گئے۔ملاقات کے بعد کلدیپ نائر نے برطانوی اخبار' آبزرور‘ میں ایک مضمون لکھا جس میں کہا گیا کہ پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی ہے۔ 1998ء میں جذبات سے مغلوب ہونے کی بجائے ہم اگر ٹیسٹ نہ کرنے کا فیصلہ کرتے تو شاید فائدے میں رہتے۔لیکن جنہیں ہم اپنے رہنما کہتے ہیں اُنہیں کون ایسی باتیں کہہ سکتا ہے۔پاپولر تصورات کے ڈھول پر یہاں جو تھاپ لگائی جاتی ہے اُسی پہ سب بھنگڑا ڈالتے ہیں۔ ہٹ کے کوئی بات کرے تو حیران کن نظروں سے اسے دیکھا جاتا ہے۔
یہاں یہ بھی سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے ـکہ ایٹمی ٹیسٹ اور معرکہ کارگل کا قریب کا تعلق ہے۔ ایٹمی دھماکے ہوئے تو اکابرین میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ جو چاہیں کرسکتے ہیں۔1998ء مئی میں دھماکے کئے اور ٹھیک سات آٹھ ماہ بعد کارگل کا ایڈونچر شروع کر دیا۔جنرل پرویزمشرف کو پتا تھا‘ اُن کے دو تین ساتھیوں کو پتا تھا‘ باقی سب اندھیرے میں تھے۔شاید بیشترکمان کو بھی نہیں معلوم تھا کہ لائن آف کنٹرول کے پار ایسی مہم شروع کی گئی ہے۔ اپریل میں جاکر کہیں وزیراعظم نوازشریف کو اوجڑی کیمپ راولپنڈی میں ایک بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ اس انداز سے ہمارے لوگ لائن آف کنٹرول کے پار جا چکے ہیں اور بڑے اہم علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے۔میاں نوازشریف کو پوچھنا چاہئے تھا کہ ایسا کرنے کی کیا ضرورت پیش آ گئی تھی اور آپ نے کس سے اجازت لی۔ بجائے یہ پوچھنے کے‘ وزیراعظم نے پوچھا کہ سری نگر پہنچ جائیں گے؟ اور مشرف اور اُن کے ساتھیوں نے عندیہ دیا کہ ایسا ہو جائے گا۔ بریفنگ روم میں تالیاں بج گئیں۔ہماری اجتماعی عقل کا تو یہ حال ہے۔
مگر اس کے آگے کی صورتحال ہماری توقعات کے مطابق نہیں رہی اور حسبِ توقع نتائج حاصل نہیں کئے جاسکے۔ مگر اس معرکے میں ہمارے جوانوں کی بہادری کے جو قصے رقم ہو گئے وہ انمٹ ہیں۔کیپٹن کرنل شیر خان شہید بھی انہی میں شامل تھے جن کے بارے ایک انڈین بریگیڈیئر نے لکھا کہ یہ جو ان اس بہادری سے لڑرہا تھا کہ ہمارے سارے جوان دیکھ رہے تھے اوردنگ رہ گئے تھے۔یعنی کیپٹن کرنل شیر خان کی بہادری کی گواہ ہماری آنکھیں نہیں بلکہ دشمن کی آنکھیں بھی اُس کی شجاعت کی گواہی دیے بغیر نہ رہ سکیں۔یہ تھا ہمارا ناقابلِ تسخیر دفاع۔ جہاں تک جوہری صلاحیت کی بات ہے تویہ ہمارے پاس پہلے ہی تھی۔اگراس کی نمائش نہ بھی کرتے تب بھی جاننے والے جانتے تھے۔یہ تو ہم نے کر لیا مگر جو دیگر ذمہ داریاں ہمارے عمائدین پر تھیں ان کی جانب توجہ نہیں دی گئی۔ اور یہی تک صورتحال اسی طرح برقرار ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved