رحمن کا ایک خواب پورا ہو گیا تھا‘ اس نے اپنے گھر کے ایک حصے میں سٹوڈیو بنا لیا تھا۔ وہ اس وقت کے معروف میوزک ڈائریکٹر اے راجہ (Ilaiyaraaja)ٹیم کا حصہ تھا۔ راجہ کے کام کرنے کا انداز مشینی تھا‘وہ صبح ایک گانے کی ٹیون تیار کرتا تو شام کو دوسرے گانے کی۔ رحمن کو جلدہی احساس ہونے لگا کہ وہ ایک بڑی مشین میں ایک چھوٹا سا پُرزہ ہے۔ اسے یوں لگا اس کا فن اس ماحول میں گھٹنے لگا ہے‘ وہ چاہتا تھا کہ اپنی دھنوں میں مختلف سازوں کا استعمال کرے۔ اسے Jazzسے خاص دلچسپی تھی لیکن راجہ کے ہاں یہ ممکن نہیں تھا۔ ایک دن رحمن نے خوش اسلوبی سے راجہ سے اپنی راہیں جدا کر لیں۔ یہ اس کی زندگی کا بڑا فیصلہ تھا لیکن اس کے اندر کی آواز اسے حوصلہ دے رہی تھی کہ فن کا آسمان بہت وسیع ہے۔ اب اس کی زندگی کا ایک اور خواب تھا‘ یہ خواب امریکہ کے معروف موسیقی کے ادارے پر کلی سکول آف میوزک میں داخلے کا تھا۔ اس کیلئے موسیقی کے علم کے ساتھ ساتھ داخلہ فیس‘ ٹیوشن فیس اور وہاں رہنے کے اخراجات بھی چاہئیں تھے۔ یہ خواب اس بڑے خواب کا حصہ تھا جس میں رحمن خود کو ایک بڑے میوزک ڈائریکٹر کے روپ میں دیکھ رہا تھا۔ Jinglesکی دنیا میں اس کے دوستوں کے حلقے میں شاردا اور تری لوک بھی شامل تھے جو میاں بیوی تھے اور اشتہاری کمپنی سے وابستہ تھے۔ ان دنوں مانی ر تنم کا بطور فلم ڈائریکٹر ہر طرف شہرہ تھا۔ اتفاق دیکھئے کہ رحمن کا دوست تری لوک مانی رتنم کا کزن تھا۔ ان دنوں مانی رتنم ایک نئے میوزک ڈائرکٹر کی تلاش میں تھا۔ تری لوک اور اس کی بیوی شاردا نے مانی رتنم کو رحمن کے بارے میں بتایا کہ ایک نوجوان ہمارا دوست ہے اور اور اس کی موسیقی سب سے الگ ہے۔ مانی رتنم کو یاد تھا کہ وہ نوجوان شاردا اور تری لوک کے ہمراہ اس کی نئی فلم کے پریمیئر شو میں آیاتھا۔ چپ چپ اور شرمیلا سا نوجوان جس کی بڑی بڑی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔ تری رتنم نے اس نوجوان سے ملنے کا فیصلہ کر لیا۔
وہ عام دنوں جیسا ایک دن تھا۔ رحمن اپنے گھر کے سٹوڈیو میں بیٹھاکام کر رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی‘اس نے فون اُٹھایا تو دوسری طرف مانی تھا۔ رحمن نے مانی رتنم کی آواز سنی تو جیسے اس کے دل کی دھڑکن رُک گئی۔ مانی رتنم نے مختصر بات کی اور صرف اتنا کہا کہ وہ کل اس کے سٹوڈیو آئے گا اور اس کی موسیقی سنے گا۔یہ کہہ کر مانی رتنم نے فون بند کر دیا لیکن رحمن کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اس نے اپنے دوست تری لوک کو فون کر کے بلایا اور اسے بتایا کہ مانی رتنم میرے سٹوڈیو آ رہا ہے کیا کیا جائے؟ تری لوک نے اسے تسلی دی‘ دونوں نے مل کر رحمن کی موسیقی کے مختلف ٹکڑوں کوایک کیسٹ میں اکٹھا کر دیا۔ اگلے روز مانی رتنم آیا تو رحمن نے اپنے گھر کے چھوٹے سے سٹوڈیو میں بٹھایا اور اسے اپنی بنائی ہوئی مختلف دھنیں سنائیں۔ مانی رتنم نے غور سے رحمن کی بنائی ہوئی دھنیں سنیں اور پھر ہاں یا ناں کہے بغیر رخصت ہو گیا۔ اس بات کو کئی ماہ گزر گئے۔ ہر روز رحمن مانی رتنم کے فون کا انتظار کرتا لیکن پھر رحمن کو یقین ہو گیا کہ مانی رتنم کو اس کی بنائی ہوئی دھنیں پسند نہیں آئیں۔ وہ سب کچھ کچھ بھول کر دوبارہ Jinglesکی دنیا میں مصروف ہو گیا۔ ایک روز وہ معمول کے مطابق اپنے سٹوڈیو میں کام کر رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی‘دوسری طرف مانی رتنم تھا۔ رحمن کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ مانی رتنم نے مختصر لفظوں میں بتایا کہ اس کی اگلی فلم کی موسیقی رحمن دے گا۔فون بند ہو گیا لیکن رحمن کو یوں لگا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔ تو کیا اب وہ ایک بڑے پروڈیوسر بالاچندر اور معروف ڈائریکٹر مانی رتنم کے ساتھ کام کرے گا؟مانی رتنم نے اسے فلم کی موسیقی کے عوض پچیس ہزار روپے کی پیش کش کی۔ اس وقت رحمن ایک Jingleبنانے کے پندرہ ہزار لے رہا تھا اور ایک مہینے میں وہ چار سے پانچ jingleبنا لیتا تھا۔ اس کے برعکس فلم کے گانوں پر کم از کم چھ سے سات ماہ کا عرصہ لگتا۔ دوسری طرف رحمن کا برکلی سکول آف میوزک میں تعلیم حاصل کرنے کا خواب تھا۔ فلم سائن کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ موسیقی کی تعلیم کے لیے برکلی سکول آف میوزک نہیں جا سکے گا‘ لیکن رحمن کے اندر سے ایک آواز نے اس کا فیصلہ آسان کر دیا اور اس نے فلم کے لیے ہاں کر دی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس فیصلے کے بعد وہ پُر سکون ہو جاتا‘ لیکن اب اس کے اندر ایک اور بے قرار ی سر اٹھانے لگی۔ اگر فلم کا میاب نہ ہوئی تو؟ اس نے اپنے آپ کو تسلی دی کہ اگر فلم میں ناکامی ہوئی تو وہ Jingles بنانے کا کام جاری رکھے گا۔
اگلے چھ مہینے رحمن اور مانی رتنم نے رحمن کے سٹوڈیو میں گزارے۔ رحمن نے تمام تر خواہشوں کو اپنی دھنوں میں سمودیا تھا‘وہ چاہتا تھا کہ اس فلم کی موسیقی سب سے منفرد اور سب سے جُدا ہو۔ علیحدہ کمپوزیشن اور مختلف آواز۔ سب سے پہلا گانا تامل زبان میں تھا جو اردو میں '' دل ہے چھوٹا سا چھوٹی سی آشا‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ ایک منفرد دھن تھی جو دھیمے سروں سے شروع ہوکر بلندیوں کی طرف جاتی تھی۔ اس کے لیے آواز بھی ایسی ہی چاہیے تھی اس کے لیے الکا اور کمار سانو کی آوازوں کا انتخاب کیا گیا۔ الکا اپنے ایک انٹرویو میں بتاتی ہیں کہ ایک روز انہیں ایک فون آیا‘ فون کرنے والے نے بتایا کہ وہ اے آر رحمن کے سٹوڈیو سے بول رہا ہے اور ان کی نئی فلم کے لیے آپ اور کمار سانو کو منتخب کیا گیا ہے۔ انہوں نے کمار سانو کو فون کیا اور پوچھا‘تم نے اے آر رحمن کا نام سنا ہے؟ کمار سانو نے نفی میں جواب دیا اور کہا میں نے توانکار کر دیا ہے‘ الکا نے بھی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ اے آر رحمن نے اس چیلنج کو قبول کر لیا اور کسی معروف گلوکارہ کے بجائے ایک عام سی ٹریک سنگر مِن مینی (Minmini )کو یہ گانا گانے کو کہا۔یہ کسی بھی فلم کے لیے اس گلوکارہ کا پہلا گانا تھا۔ رحمن نے یہ ایک بڑا جوا کھیلا تھا جو اس کے میوزک کیریئر کو شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کرسکتا تھا۔ پہلا گانا تیار ہوا تو اس نے اپنے دوستوں شاردا اور تری لوک کو سٹوڈیو بلا کر گانا سنوایا۔ تری لوک نے گانے کی دھن سنی تو دم بخود رہ گیا۔
ایسی مسحور کن دھن اس نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ رحمن نے اپنی ماں کو اس گیت کی دھن سنوائی تو ماں فرطِ جذبات سے رونے لگی۔ اس نے کہا: مجھے یقین ہے یہ گیت بہت مشہور ہو گا۔ جب فلم کے پروڈیوسر بالا چندر نے گیت سنا تو بے ساختہ بول اٹھا ''یہ گیت دہائیوں تک پرانا نہیں ہو گا‘‘۔ لیکن اصل فیصلہ تو لوگوں نے کرنا تھا۔ 15 اگست1992ء کو جب سینماؤں میں فلم کاافتتاح ہوا تو ''روجا‘‘ فلم کے گیتوں نے دھوم مچا دی۔ فلم کے گیتوں کی کیسٹ کی28لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ رحمن کو اپنی پہلی ہی فلم پر بہترین میوزک ڈائریکٹر کا نیشنل ایوارڈ ملا۔ '' دل ہے چھوٹا سا چھوٹی سی آشا‘‘ گانے والی غیر معروف گلوکارہ Minminiکو اپنے پہلے ہی گیت پر بہترین گلوکارہ کا نیشنل ایوار ملا۔ ٹائم میگزین نے ''روجا " فلم کے ساؤنڈ ٹریک کو دنیا کے دس بہترین ساؤنڈ ٹریکس میں شمار کیا۔یوں چنائی کی گلیوں میں سانس لینے والے اے آر رحمن نے چوبیس برس کی عمر میں شہرت کی جھلملاتی کہکشاں پر پہلا قدم رکھ دیا تھا۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved