تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     31-05-2023

نظرِ ثانی کا نیا قانون اور نواز شریف

یہ سیاسی عدم استحکام کا زمانہ ہے اور عوام کی حالت ایسی ہے جیسے کسی آسیب نے دبوچ رکھا ہو۔ یہاں تین طرح کے طبقات ہیں اور سب کے سب تقدیر کے ہاتھوں میں کھلونوں کی طرح ہیں۔ ایک طبقے کی کیفیت ایسی ہے جیسے سیلاب میں اجڑے ہوئے مکان ہوتے ہیں۔ دوسرا طبقہ گلِ گلاب کی مانند ہے جسے کانٹوں نے گھیر رکھا ہے اور تیسرا طبقہ اس ناتواں خوشے جیسا ہے جسے برف باری قبل از وقت خمیدہ کر دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم میاں شہباز شریف اور عمران خان کو عوام کے مرجھائے چہرے، ویران آنکھیں اور جھکے ہوئے سر دکھائی نہیں دے رہے؟ عوام کے سینوں میں قید آہیں اور سسکیاں محسوس نہیں ہو رہیں؟ کیا ہمارے حکمرانوں کو درد کی چنگاریاں نظر نہیں آ رہیں جو عوام کو لمحہ بہ لمحہ گُھلارہی ہیں؟
ایک سال سے زائد عرصہ بیت گیا مگر مہنگائی کا طوفا ن تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ عالمی مارکیٹ میں پٹرول اور ڈیزل کے دام کم ہو گئے مگر روپے کی گراوٹ کے باعث پاکستانیوں کو یہ ریلیف بھی نہیں مل سکا۔ حکومت تاحال آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تمام تر شرائط ماننے کے باوجود تاحال سٹاف لیول معاہدہ نہیں ہو سکا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے بھی رابطہ کیا مگر ہنوز دلی دور است والا معاملہ درپیش ہے۔ گزشتہ روز میری ایک اہم وفاقی وزیر سے بات چیت ہوئی۔ میں نے پوچھا: آئی ایم ایف سے معاہدہ کیوں نہیں ہو رہا‘ یہ معاہد ہ ہماری معیشت کے لیے ناگزیر ہے مگر آپ لوگ ناکام کیوں ہیں؟ وفاقی وزیرنے ایک سرد آہ بھری اور عمران خان پر چڑھائی شروع کر دی۔ ان کا کہنا تھاکہ اس کی ساری ذمہ داری عمران خان کے سر ہے۔ خان صاحب اگر 28 فروری 2022ء کو معاہدہ نہ توڑتے تو آج یقینا صورتحال مختلف ہوتی۔ دوسرا، پاکستان کے سیاسی حالات آئی ایم ایف کو معاہدہ کرنے سے روک رہے ہیں۔ آئی ایم ایف غیر یقینی کی کیفیت سے پریشان ہے اور اسی لیے ایک کے بعد ایک شرط مسلط کی جا رہی ہے۔ ہم جو کر سکتے تھے‘ کر دیا ہے مگر اب ہم عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈال سکتے۔ عالمی مالیاتی ادارہ ہماری سیاسی مجبوریوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ آگے الیکشن ہے‘ ہم کیسے عوام پر مزید قہر برپا کر دیں؟ میں نے وزیر موصوف سے عرض کی: آپ کی آدھی بات درست ہے اور آدھی غلط۔ میں مانتا ہوں کہ عمران خان نے آئی ایم ایف سے معاہد ہ توڑ کر بہت بڑی غلطی کی تھی۔ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اور یہ بھی کہ فروری 2022ء میں معاہدہ ٹوٹنے کے بعد آئی ایم ایف ناراض ضرور ہوا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ مفتاح اسماعیل نے دو ماہ بعد ہی سٹاف لیول معاہدہ دوبارہ کر لیا تھا اور اس کے کچھ عرصے بعد ہمیں ایک ارب ڈالر سے زائد کی قسط بھی مل گئی تھی۔ آئی ایم ایف ناراض تھا مگر اُتنا نہیں جتنا اسے اسحاق ڈار صاحب نے خفا کیا ہے۔ ڈار صاحب نے آتے ہی ایسی باتیں کیں جن سے تلخی مزید بڑھی اور آج تک معاملات ٹھیک نہیں ہو سکے۔ آپ وفاقی وزیر ہیں‘ آپ کو ڈار صاحب کی اس غلطی کا معاملہ کابینہ کے سامنے ضرور اٹھانا چاہیے۔ آئی ایم ایف کے مزید دو خدشات ہیں‘ جس کے باعث معاہدہ ملتوی ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ادھار کی رقم سے پاکستان کی معیشت میں بہتری آئے مگر انہیں خدشہ ہے کہ اس رقم سے غیر ملکی قرضہ واپس کیا جائے گا یا پھر آئندہ بجٹ میں یہ پیسے مختلف سیاسی فوائد بٹورنے کے لیے استعمال ہوں گے۔ یقین مانیں! حکومت جب تک آئی ایم ایف کی ان دونوں معاملات پر تسلی نہیں کرائے گی‘ سٹاف لیول معاہدہ نہیں ہو سکے گا۔ اگر یہ معاہد ہ نہ ہوا تو مزید کئی بڑے معاشی بحران ہمارے سامنے آ کھڑے ہوں گے۔ ڈیفالٹ کا خطرہ جوں کا توں رہے گا، زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک گر جائیں گے، روپے کی تنزلی جاری رہے گی، پٹرول، ڈیزل، گیس اور بجلی کی قیمتیں مسلسل بڑھانا پڑیں گی اور مہنگائی کا طوفان مزید تباہی مچائے گا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اپنی تمام توانائیاں معاشی محاذ پر لگا دیتی تاکہ عوام کے دکھ،درد اور تکالیف میں کچھ کمی آ سکتی۔ افسوس! حکومت کی ساری توجہ عمران خان پر ہے یا پھر اپنے مطلب کی نئی قانون سازی کرنے پر۔ دو روز قبل حکومت نے سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز کے نام سے ایک نئی قانون ساز ی کی ہے۔ اس قانون کی منظوری کے بعد اب آرٹیکل 184 کی ذیلی شق تین کے تحت دیے گئے فیصلوں پر اپیل کی جا سکے گی اور اس نظر ثانی کی درخواست کی حیثیت اپیل جیسی ہو گی۔ اس قانون کا اطلاق ماضی کے کیسز پر بھی ہو گا۔ نئے قانون کے مطابق نظرِ ثانی درخواست پر بننے والا بینچ فیصلہ دینے والے بینچ سے بڑا ہو گا۔ گزشتہ دو دنوں سے یہ بحث چل رہی ہے کہ اس کا فائدہ میاں نواز شریف اور جہانگیر ترین کو ہوگا یا نہیں؟ اس حوالے سے قانونی ماہرین کی رائے منقسم ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ دونوں حضرات فائدہ اٹھا سکیں گے اور کچھ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا۔ ان افواہوں کو زیادہ تقویت اس وقت ملی جب وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مؤقف اختیا رکیا کہ میاں نواز شریف چونکہ نظرِ ثانی کا حق استعمال کر چکے ہیں‘ اس لیے ان کا کیس اس قانون کے زمرے میں نہیں آئے گا۔
میر ی دانست میں وزیر قانون کی رائے قانونی سے زیادہ سیاسی ہے۔ غالباً وہ مخالفین کی تنقید سے بچنے کے لیے اس قسم کا بیانیہ تراش رہے ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر میاں نواز شریف کو اس قانون سے فائدہ نہیں ہونا تو پھر اتنی عجلت میں یہ قانون سازی کیوں کی گئی؟ چپکے سے بل کیوں پاس کرایا گیا اور صدرِ مملکت نے بھی روایت کے برخلاف فوراً دستخط کیسے کر دیے؟ نیا قانون یقینا خوش آئند ہے‘ اپیل کا حق ہر شہر ی کو ہونا چاہیے۔ قبل ازیں صرف ایک عدالت کے فیصلے کو حتمی سمجھا جاتا تھا، نظرِ ثانی کی درخواست بھی وہی جج سنتے تھے جو پہلے ہی فیصلہ دے چکے ہوتے تھے۔ شاذ ہی کسی کیس میں دیکھنے میں آیا ہو کہ کوئی جج اپنے ہی فیصلے کی نفی کرے۔ اپیل کا حق نہ ہونا خلافِ آئین بھی ہے کیونکہ یہ فیئر ٹرائل کے زمرے میں نہیں آتا اور انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدرِ مملکت نے اس پر فوری دستخط کر دیے اور کسی لیت و لعل سے کام نہیں لیا۔
اب یہ معاملہ بحث طلب ہے کہ نئے قانون سے میاں نواز شریف اور جہانگیر ترین کو فائدہ ہوگا یا نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذکورہ دونوں افراد اس قانون سے ضرور فائدہ اٹھائیں گے اور جلد ہی اپیل دائر کر دیں گے۔ نئے قانون کاسیکشن ٹو واضح ہے کہ اپیل میں قانون اور حقائق کو دوبارہ دیکھا جائے گا۔ جب میاں نوازشریف اور جہانگیر ترین نے نظرِ ثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں تو کیا قانون اور حقائق کو دیکھا گیا تھا؟ اس کا جواب نفی میں ہے! دوسری طرف سیکشن پانچ کہتا ہے کہ ماضی کے کیسز پر بھی اس قانون کا اطلاق ہو سکے گا، اور اس حوالے سے قانون کے نفاذ سے ساٹھ دن کے اندر اپیل کی جا سکے گی۔ اس نکتے کو سمجھنا ہوگا کہ نظرِ ثانی کا دائرۂ کار اپیل میں بدل چکا ہے۔ اس لیے میاں نواز شریف اور جہانگیر ترین ضرور فائدہ اٹھائیں گے۔ اس سارے معاملے میں ابہام اس لیے پیدا ہوا کہ سیکشن چھ میں الگ سے لکھا گیا ہے کہ فیصلہ آنے کے ساٹھ دن میں اپیل کی جا سکے گی۔ جو بات سیکشن پانچ میں درج ہے‘ وہ پرانے کیسز کیلئے ہے اور جو سیکشن چھ میں ہے وہ نئے کیسز کیلئے ہے۔
یہاں ایک اور سوال جنم لیتا ہے کہ میاں نواز شریف اور جہانگیر ترین کس کیس میں اپیل کریں گے۔ مصدقہ اطلاعات یہی ہیں کہ جہانگیر ترین اور میاں نواز شریف اپنے بنیادی کیسز میں اپیل نہیں کریں گے بلکہ وہ آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت ہونے والی تاحیات نااہلی کے فیصلے کے خلاف اپیل میں جائیں گے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان آرٹیکلز کے تحت نااہلی کو تاحیات قرار دیا تھا جبکہ فیصل واوڈا کیس میں سپریم کورٹ نے نااہلی کی میعاد ون ٹرم (پانچ سال) قرار دی تھی۔ میاں نواز شریف کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاناما اور اقامہ کا کیس دوبارہ چلے اور ایک بار پھر دھول اڑے۔ میاں صاحب اور ترین صاحب‘ دونوں کی نااہلی کو پانچ سال سے زائد ہو چکے ہیں اس لیے امکان ہے کہ وہ اس قانون سے فائدہ اٹھا کر دوبارہ سیاست میں فعال ہو جائیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved