وقت کی ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ گزر جاتا ہے‘ وقت کسی کا نہیں ہوتا لیکن جب اچھا ہوتا ہے تو چیزیں انسان کے حق میں ہو رہی ہوتی ہیں۔ انسان اس کا کریڈٹ اپنی قسمت کو دیتا ہے لیکن جب وقت ریت کی طرح ہاتھوں سے پھسلنے لگے تو وہی انسان اپنی قسمت کو کوسنے لگتا ہے۔ سیاست کے کھیل میں ٹائمنگ اہم ہے‘ درست وقت پر لیا گیا فیصلہ شطرنج کے کھیل میں چلی درست چال کی طرح ہوتا ہے جو بازی آپ کے حق میں پلٹ سکتا ہے۔اسی طرح ایک غلط چال آپ کی بساط الٹ سکتی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ انسان نے کل کے ہیروز کو زیرو ہوتے اور کل کے زیرو کو ہیرو بنتے دیکھا ہے۔حالیہ دور کی مثال لیں تو عمران خان جنہیں کل تک امت مسلمہ کا بڑا لیڈر سمجھا جاتا تھا آج سنگین مقدمات کی زد میں ہیں۔ ان کی پارٹی کا شیرازہ بکھررہا ہے‘ پارٹی چھوڑنے والوں کی سینچری مکمل ہو چکی ہے۔وہ جب تک حکومت میں تھے تو سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ جو کہتے وہی ہوتا۔ وہ اب بھی اپنی بات منوانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔شایدخود کو قانون سے بڑا سمجھتے ہیں‘ اسی لیے نو مئی کے واقعات پر بننے والی جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔کیمرے کے سامنے وہ قانون کی حکمرانی کی کرتے ہیں لیکن حقیقت دعوؤں کے بر عکس ہے۔مگرریاست اور قانون ہی سب سے بلند ہوتا ہے اور ریاست سے ٹکرانا بڑی غلطی ہوتی ہے۔ ذواالفقار علی بھٹو کو جب عدالتوں نے بلایا تو انہوں نے عدالتوں کے سامنے سرنڈر کیا اور یہاں تک کہ تختۂ دار پر جھول گئے۔ قانون کا استعما ل غلط ہوا یا درست یہ الگ بحث ہے۔آپ دیکھئے کہ عمران خان کو لایا گیا‘مخالفین اسے ''پراجیکٹ عمران‘‘ کا نام دیتے ہیں کہ ان کے بقول خان صاحب کو منصوبہ بندی کے ساتھ لایاگیا تھا۔ 2018ء عمران خان کیلئے خوش قسمتی کاسال ثابت ہوا جس نے انہیں اقتدار کی مسند پر بٹھا دیالیکن پھر ان کے دور میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول چل نکلا۔عمران خان کی حکومت بیساکھیوں پر کھڑی ہونے کے باوجود ایک مضبوط حکومت تھی کیونکہ انہیں ان قوتوں کی حمایت حاصل تھی جو آج کل ان سے دامن چھڑا چکی ہے اور وہ پھر سے ایسی طاقت کا اصول چاہتے ہیں۔خیر عمران خان کی حکومت دیکھ کر یہ انداز نہیں لگایا جاسکتا تھا کہ وہ بھی کبھی مشکل میں آئیں گے‘اور نہ ہی کوئی یہ مانتا تھا کہ نواز شریف جنہیں عدالتوں نے نااہل کیا وہ پھر سے سیاست کا محور بن جائیں گے۔
گو کہ نواز شریف بھی اپنی غلطیوں کی وجہ سے تاحیات نا اہل ہوئے۔جب نواز شریف وزیر اعظم تھے تو اس وقت ان سے کہا گیا تھا کہ وہ تاحیات نا اہلی کی شق کو ختم کردیں لیکن اس وقت انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ شق جنرل ضیا الحق نے ڈالی اور وہ اسے کسی صورت ختم نہیں کریں گے۔در اصل نواز شریف چاہتے تھے کہ تاحیات نا اہلی یا 62 ون ایف کی شق ان کے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہولیکن نواز شریف کی یہ سوچ خود ان پرالٹی پڑگئی اور وہ اسی شق کے تحت نا اہل قرار پائے۔اگر نواز شریف نے اس شق کو ختم کردیا ہوتا تو شاید وہ سیاست میں واپس آچکے ہوتے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ عمران خان بھی اس شق کو ختم کرنے کے حق میں نہیں تھے اور کہا کرتے تھے کہ اگر میں بھی اس شق کے تحت تاحیات نااہل ہوتا ہوں تو ہوجاؤں لیکن یہ شق ختم نہیں ہونی چاہیے۔عمران خان یہ چاہتے تھے کہ نواز شریف کبھی بحال نہ ہوں لیکن وقت نے ایک بار پھر پلٹا کھایا ہے اور یوں لگ رہا ہے کہ جیسے قسمت کی دیوی پھر سے ان پر مہربان ہو رہی ہے۔حکومت نے سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر ایکٹ نافذ کردیا ہے۔ اس نئے قانون کے تحت نوازشریف اورجہانگیر ترین سمیت دیگر افراد تاحیات نااہلی کو چیلنج کرسکیں گے۔قانون کے تحت 184(3)کے فیصلوں پر اپیل سپریم کورٹ کا لارجر بینچ سنے گا‘یعنی اب اس ایکٹ کے تحت ماضی میں 184(3)کے تحت نااہل ہونے والوں کو اپیل کا حق مل گیا ہے۔ماضی میں184(3) کے فیصلوں سے متاثر ہونے والے دیگر فریق بھی 60 دن کے اندر فیصلوں کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں۔اس ایکٹ کے نافذ ہونے کے بعد نواز شریف اور جہانگیر ترین کا سیاسی مستقبل کیلئے کوئی توقع پیدا ہوئی ہے یا نہیں اس پر مختلف قانونی آرا پائی جاتی ہیں۔ وزیر قانون تو یہ کہتے ہیں کہ اس ایکٹ سے نواز شریف اور جہانگیر ترین کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ نواز شریف اور جہانگیر ترین نظر ثانی کی اپیل کا حق پہلے استعمال کرچکے ہیں‘لیکن بعض قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ اس قانون کے ذریعے وہ تمام لوگ نئی اپیل دائر کرنے کا حق رکھتے ہیں جن کے کیسز پر سپریم کورٹ اس قانون کی منظوری سے پہلے اپنا فیصلہ دے چکی ہے اور چاہے سابقہ نظرثانی مسترد ہی کیوں نہ ہوگئی ہو پھر بھی وہ اس قانون کے ذریعے اپیل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ قانونی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس قانون سے نواز شریف اور جہانگیر ترین کے علاوہ 1973ء سے لے کر تمام افراد کو فائدہ حاصل ہوگا۔اب لگ رہا ہے کہ نواز شریف کی واپسی کے امکانات روشن ہونے جارہے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ عمران خان نے کہا تھا کہ ہوسکتا ہے مجھے نا اہل کردیا جائے یعنی عمران خان کو اپنے مائنس ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ عمران خان کو بھی شاید یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ عنقریب لیول پلینگ فیلڈ کا مرحلہ مکمل ہوجائے گا۔واقفانِ حال کے مطابق عمران خان نااہل ہوجائیں گے جنہیں بعد میں اسی قانون کے تحت بحال کردیا جائے گا‘پھر دیگر رہنما جو تاحیات نااہل ہیں وہ بھی عدالت سے اپنی بحالی کا مطالبہ کریں گے اور یوں انہیں بھی بحال کردیا جائے گا‘پھر کوئی یہ کہنے والا نہیں ہوگا کہ اس کے ساتھ ناانصافی ہوئی۔
عمران خان یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ نواز شریف اور جہانگیر ترین کو کیوں بحال کیا گیاکیونکہ عمران خان خود اس قانون کے بینیفشری ہوں گے۔قانونی ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ آئین میں تاحیات نا اہلی کا کوئی ذکر نہیں لیکن اب صاف واضح ہوگیا ہے کہ نواز شریف کو تاحیات نااہل کیوں کیا گیا تھا۔ججز کا اس حوالے سے اختلاف سامنے آیا ہے۔اب مبینہ آڈیو لیکس پر بھی اختلاف سامنے آیا ہے جبکہ حکومت نے تو آڈیو لیکس کے حوالے سے چیف جسٹس عمر عطا بندیال‘ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بینچ پر اعتراض کیا ہے۔ اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وقت نے پلٹا کھایا ہے اور مائنس نواز شریف فارمولہ اب پلس نواز شریف میں بدل رہا ہے۔ایسے میں شاید نواز شریف پھر وزیر اعظم بن جائیں کیونکہ عمران خان کے علاوہ اس وقت کوئی ٹھوس مد مقابل موجود نہیں ہے۔عمران خان خود کو اکلوتی چوائس کہا کرتے تھے لیکن اب ان کی یہ خوش فہمی دور ہورہی ہے کہ وہ اکلوتی چوائس ہیں۔عمران خان کے ساتھی انہیں چھوڑ کر جارہے ہیں۔ صدر عارف علوی جن پر عمران خان کا تکیہ ہوتا تھا وہ بھی عمران خان سے دامن چھڑا رہے ہیںجس کا ثبوت یہ ہے کہ صدر نے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر ایکٹ پر دستخط کردیے ہیں۔اگرچہ عمران خان نے صدر سے اختلافات کی تردید کی ہے مگرفیصل واوڈا تو یہ تک کہہ چکے ہیں کہ جو لوگ پارٹی چھوڑ کر گئے انہوں نے پہلے ایوان صدر سے رجوع کیا اور پھر پارٹی چھوڑی۔اب یہ نہیں پتہ کے فیصل واوڈا کی بات درست ہے یا نہیں لیکن یہ درست ہے کہ صدر عارف علوی بھی اب عمران خان سے بیزار ہوچکے ہیں اور وہ اپنی حمایت حکومت کے پلڑے میں ڈال چکے ہیں۔اس لیے انہوں نے غیر معمولی طور پر بغیر کسی مزاحمت کے اس ایکٹ کی منظوری دے دی۔اب وقت بتا رہا ہے کہ وہ پھر سے نواز شریف کے حق میں جا رہاہے اور عمران خان کا مخالف‘اور آنے والے وقت میں باتیں مزیدواضح ہوجائیں گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved