افسوس‘دکھ‘ تکلیف‘غصہ‘کون سا لفظ ہے جو خان صاحب کے معاملے میں دلی ترجمانی کرسکے۔جماعتیں بنتی ٹوٹتی‘بکھرتی رہتی ہیں۔ لیڈر عروج و زوال کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔یہ کوئی نئی بات نہیں‘ لیکن افسوس یہ ہے کہ ملک کو ممکنہ بلندی تک لے جاسکنے والے آدمی نے وہ گولیاں خود پر چلائیں جس سے وہ دوسروں کا شکار کرنے نکلا تھا۔
دکھ یہ ہے کہ وہ شخص جس میں عالمی سطح کا رہنما بننے کے پورے امکان موجودتھیں‘اپنے ہی مزاج اور عقل کی سازشوں کاشکارہوا۔غصہ اس کا کہ کسی دشمن نے اسے زیر نہیں کیا‘وہ اپنے ہی دھوبی پاٹ کی وجہ سے زمین بوس ہوا۔تکلیف اس کی‘کہ دو کرپٹ اور بار بار آزمائی ہوئی جماعتوں کے مقابلے میں کھڑا ہونے والا اب ایک آدمی بھی نہ رہا اور اسی کے ساتھ‘اس کے پیچھے کھڑی ہونے والی قوم جو ملک کے بہتر مستقبل کے خواب دیکھتی تھی‘چکنا چور ہو کر رہ گئی۔عرب شاعر نے کسی بھی حوالے سے کہا ہو‘یہ شعر ہمارا حوالہ بنتا ہے۔
وما کان قیس حلکہ ھلک واحد
ولکنہ بنیان قوم تھدما
(قیس کی ہلاکت ایک شخص کی موت نہیں‘بلکہ ایک قوم کی بنیاد مسمار ہوگئی )
ایک جملے میں عمران خان کے عروج و زوال کو بیان کیا جاسکے تو یہی ہوگا کہ عمران خان کی ذاتی صفات ہی نے انہیں چوٹی تک پہنچایا اور ذاتی برائیوں ہی کی وجہ سے اب وہ عمودی ڈھلوان پر پتھر کی طرح مسلسل لڑھکتے نیچے آتے نظر آتے ہیں۔معمار بہت اچھے لیکن مسمار کرنے والے اس سے بھی اچھے۔وہ جو غالب کا مصرع ہے
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
خان صاحب کے معاملے میں ایک نہیں خرابی کی بہت صورتیں موجود تھیں۔اب آج کل خان صاحب کو مذاکرات کی اپیل کرتے‘ امریکی کانگرس کے ارکان سے مدد مانگتے‘آئین‘قانون اور اخلاقیات کے ضابطے گنواتے دیکھتا ہوں تو رنج نہیں ہوتا بلکہ غصہ آتا ہے۔ اس ہٹ دھرمی اور انانیت کے مظاہروں کے بعد جو ابھی چند دن پیشتر کی بات ہے‘کون ذی ہوش حامی ہو گا جواس صورتحال کا رنج کرے۔روز وکٹیں گر رہی ہیں اور خان صاحب فرماتے ہیں کہ یہ سب دباؤ کی وجہ سے ہے۔ ہوگا دباؤ بھی‘ یقینا ہوگا‘لیکن سابقہ انتخابات سے پہلے جب یہی طاقت جوق در جوق تحریک انصاف میں لوگ شامل کروارہی تھی‘تب دباؤ نہیں تھا کیا ؟اب بنے بنائے سکرپٹ پڑھ کر پریس کانفرنسیں کرنے والے اس وقت کیا اپنے بیان پڑھتے تھے؟سب کچھ وہی ہے بس فرق یہ ہے کہ اس وقت خان صاحب اسے اپنی کرشماتی شخصیت کا کمال سمجھتے تھے اور اب پارٹی کچل دینے سے تعبیر کر رہے ہیں۔
شادی اور گھریلو زندگی ذاتی معاملا ت ہوتے ہیں اور عام طور پر ان کا اثر سیاسی زندگیوں پر نہیں پڑتا‘ لیکن خان صاحب کے معاملے میں ایسا نہیں لگتا۔ میرے خیال میں خان صاحب کے زوال میں ان کی تینوں شادیوں کا بہت بڑا دخل ہے۔جمائما گولڈ سمتھ‘ ایک امیر یہودی خاندان کی بیٹی سے پہلی شادی تھی۔اس شادی نے خان صاحب کے بارے میں یہ کہنے کا بہت موقع فراہم کیا کہ خان صاحب غیر ملکی ایجنڈے پر ہیں۔خان صاحب کے لیے رشتوں اور گھرانوں کی کمی نہیں تھی۔ اس خاندان میں شادی نہ ہوتی‘تو کہنے کا موقع بھی نہ ملتا۔یہ موقع خود خان صاحب نے دیا۔ طلاق کے بعد بھی اس الزام نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔دوسری شادی ریحام خان سے ہوئی جو بہت جلد انجام کو پہنچ گئی۔ ایک دن ریحام خان بچوں سے ملنے لندن پہنچیں تو ای میل میں طلاق ان کی منتظر تھی۔ اسی زمانے میں خان صاحب کے حلقوں میں یہ بات سنی گئی کہ ریحام خان غیر ملکی آلۂ کار تھی جسے خان صاحب کے پیچھے لگایا گیا تھا۔یہ سچ تھا یا نہیں‘الگ بات ہے لیکن یہ بہرحال سچ تھا کہ ریحام خان جمائما نہیں تھی۔ اس نے ایک کتاب میں خان صاحب کے بارے میں بہت کچھ انکشافات کیے جن میں انتقامی کارروائی کے باوجود بظاہر سچ کی کچھ جھلکیاں بھی نظر آتی تھیں۔اس طلاق نے بھی اگرچہ خان صاحب کی مقبولیت پر اثر نہیں ڈالا لیکن ان پر بہت سے سوالیہ نشان چھوڑ دیے۔ لیکن میرے خیال میں تیسری شادی نے تو انہیں ڈھیر کردیا۔توہم پرستی اور ان کے الفاظ میں روحانیت کے ذریعے اپنی منزل تک جلد از جلد پہنچنے کی خواہش کے سوا اس کی کوئی اور توجیہ ممکن نظر نہیں آتی۔ یہ شادی جس طرح ہوئی وہ بھی نارمل نہیں‘ بہت ابنارمل صورت ہے۔ ایک نواسے نواسیوں والی خاتون کو اچانک اس کا شوہر طلاق دیتا ہے اور خان صاحب آناً فاناًاس سے نکاح کرلیتے ہیں۔عدت پوری ہونے یا نہ ہونے‘دو بار نکاح ہونے کا معاملہ اس پر مستزاد۔خان صاحب کے جذبۂ دین پر انگشت نمائی بہت سے لوگ کرتے ہیں‘ میں اس بارے میں بات نہیں کرتا لیکن ان کے درست فہم ِدین کا معاملہ نہایت گڑبڑ رہا ہے۔ اس معاملے میں بھی مسلم لیگ (ن) کی منافقانہ پالیسیوں اورپیپلز پارٹی کے کھلے دین بیزار طرزِ عمل نے لوگوں کو اس خیال کی طرف دھکیل دیا کہ خان صاحب کا فہم دین آہستہ آہستہ درست ہوتا جائے گا، یہ بھی غنیمت سمجھاجائے کہ وہ اس کا جذبہ رکھتے ہیں۔جلد ہی بشریٰ بی بی کے ساتھ مقدس شخصیات کے مزاروں پر خان صاحب کی وہ وڈیوز سامنے آگئیں جن کی تاویل کرنا مشکل تھا۔دہلیز پر سجدہ کرنے یا چومنے کی بحث اٹھ کھڑی ہوئی جسے کوشش کرکے نظر انداز کیا گیایہاں تک کہ وزیر اعظم بننے کے بعد خان صاحب کے طرزِ عمل پر بات آ ٹھہری۔ وزیر اعظم بنتے ہی یہ بات عام ہونے لگی کہ کسی عہدے کا فیصلہ خان صاحب نہیں کرتے بلکہ بی بی کرتی ہیں۔کہا جانے لگا کہ کابینہ اور اعلیٰ عہدے داروں کے اجلاس میں کسی عہدے کے لیے جو نام طے کیا جاتا ہے‘ راتوں رات اس کا فیصلہ مختلف ہوجاتا ہے۔عثمان بزدار بطور وزیراعلیٰ پنجاب کسی طرح بھی درست فیصلہ نہیں تھا لیکن اس نام کے بارے میں بھی یہی سنا گیا کہ یہ فیصلہ گھر کے اندر سے ہوا تھا۔کس ساتھی کو دور کرنا ہے‘کسے قریب رکھنا ہے۔ان سب کے بارے میں بہت سی کہانیاں سامنے آنے لگیں جن کے جھوٹ سچ کا فیصلہ دشوار تھا۔
مغل شہنشاہ جہانگیر کے بارے مشہور تھا بلکہ اس نے خودکہا کہ میں نے ایک قاب کباب اور ایک پیالہ شراب کے بدلے حکومت نورجہاں کے حوالے کردی ہے۔ نور جہاں ہی امیروں وزیروں کے فیصلے کیا کرتی تھیں۔یہاں معاملہ دوسری چیزوں کا نہیں بلکہ روحانیت کا نکلالیکن بظاہر جہانگیر اور نورجہاں والا نظام چل رہا تھا۔اسی کے ساتھ کچھ کرپشن اورکچھ پولیس افسران کے ساتھ بی بی کے رشتے داروں کے سلوک کی کہانیاں بھی پھیلنے لگیں۔بعد میں ایک سہیلی کے مالی معاملات بھی اس میں شامل ہوگئے۔میرے خیال میں اس فیصلے نے خان صاحب کی سیاسی زندگی پر بہت مہلک اثرا ت مرتب کیے۔ کوئی بھی طبقہ یہاں تک کہ دینی طبقات سے بھی یہ باتیں ہضم ہونی مشکل تھیں۔خان صاحب مانیں یا نہ مانیں‘ اس فیصلے نے ان کے لیے بے حد اور غیر ضروری مسائل پیدا کردئیے اور یہ محض ان کے نادرست فہم دین کا نتیجہ تھا۔
خان صاحب ! خود کردہ را علاجے نیست۔مجھے تو یہی لگتا ہے کہ اب کسی کے پاس اس صورت حال کا علاج نہیں ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved